ٹرمپ قضیہ فلسطین کو دفن کرنے کیلیے کوشاں

258

امریکا میں ڈیڑھ سال قبل صہیونی لابی کو مطمئن کرکے عہدہ صدارت پر براجمان ہونے والے ڈونلڈ ٹرمپ مشرقِ وسطیٰ کی جیو پولیٹکس بساط پر ایک کے بعد ایک پتا پھینک رہے ہیں۔ انہوں نے صدر بننے کے بعد سب سے پہلے اپنے کٹّر یہودی داماد جیرڈ کشنر کو اپنا مشیر مشرق وسطیٰ مقرر کیا۔ اس کے بعد مئی 2017ء میں اسرائیل پہنچ گئے، اور ہولوکاسٹ کی یادگار ودویشم پر پھول چڑھائے اور یہود کی مخصوص ٹوپی پہن کر مقبوضہ دیوار براق پہنچ گئے، جسے یہود دیوارِ گریہ کہتے ہیں۔ پھر 6 دسمبر 2017ء کو بیت المقدس کی مقبوضہ حیثیت فراموش کرتے ہوئے اسے اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کیا اور رواں سال 14 مئی کو پوری دنیا کی مخالفت کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنا سفارت خانہ مقبوضہ بیت المقدس منتقل کردیا۔ ٹرمپ نے اپنے دورۂ اسرائیل کے موقع پر مشرقِ وسطیٰ کے بحران سے متعلق اپنا نام نہاد ’صدی کا معاہدہ‘بھی پیش کیا تھا، اور فلسطینیوں اور اسرائیل پر زور دیا کہ وہ اسے تسلیم کریں۔ جیرڈ کشنر اور ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے لیے خصوصی ایلچی جیسن گرین بیلٹ ایک سال سے اس مجوزہ منصوبے میں رنگ بھرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ساتھ ہی ٹرمپ انتظامیہ فلسطینیوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کے لیے بین الاقوامی سطح پر سیاسی دباؤ بڑھانے کے ساتھ مسلسل فلسطینیوں کی امداد روک رہی ہے۔ ٹرمپ کے مجوزہ منصوبے کی تفصیلات رفتہ رفتہ سامنے آرہی ہیں۔ اسی کاایک اور جزو 2 روز قبل منظرعام پر آیا، جس نے مشرقِ وسطیٰ میں بھونچال پیدا کردیا۔ اس کے مطابق امریکی صدر نے فلسطین اور اردن کو ایک وفاق بنانے کی تجویز پیش کی ہے۔ اس خبر پر شور اس لیے بھی زیادہ اٹھا کہ فلسطینی صدر محمود عباس نے اس منصوبے کو قبول کرلیا۔ تاہم انہوں نے شرط رکھی کہ اسرائیل کو بھی اس وفاق میں شامل کیا جائے۔ ساتھ ہی محمود عباس اسرائیل کے ساتھ اراضی کے تبادلے پر بھی راضی ہوگئے۔ فلسطینی صدر نے یہ سب انکشافات اتوار کے روز اپنی انتظامیہ کے ہیڈکوارٹر رام اللہ میں اسرائیلی وفد سے ملاقات کے دوران کیے اور اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے اسے عام کردیا۔ اس مسئلے پر عوامی اور بین الاقوامی ردعمل آنے لگا تو فلسطینی انتظامیہ نے یوٹرن لینے کے بجائے اس موقف کا دفاع کیا۔ فلسطینی ایوان صدر کے ترجمان نبیل ابو ردینہ نے کہا کہ وفاقی نظام 1984ء سے فلسطینی قیادت کے ایجنڈے پر ہے۔ اس تشویش ناک منصوبے اور اعلان کے بعد دیگر فریقوں یعنی فلسطینیوں اور اردن نے سخت ردعمل دیا۔ فلسطین کی سب سے بڑی سیاسی اور عسکری جماعت اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ نے محمود عباس کے اس بیان کی شدید مذمت کی۔ حماس کے ترجمان حازم قاسم نے ایک بیان میں کہا ہے کہ محمود عباس نے اسرائیلی وفد سے ملاقات میں جو موقف اختیار کیا وہ فلسطینی قوم سے خیانت ہے۔ یہ ثابت ہوگیا کہ وہ قوم کے اجتماعی فیصلوں سے انحراف کررہے ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ محمود عباس نے اعتراف کیا ہے کہ ان کے اسرائیلی انٹیلی جنس حکام کے ساتھ رابطے ہیں اور وہ شاباک کے اہل کاروں کی ہدایات پر چل رہے ہیں۔ اردن نے محمود عباس کا بیان مسترد کر دیا۔اردنی حکومت کی خاتون ترجمان جمانہ غنیمات نے کہا کہ وفاق کی تجویز ناقابل بحث موضوع ہے۔ فلسطین کے حوالے سے اردن کا موقف واضح ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ اسرائیل کے ساتھ فلسطین کو بھی ایک آزاد ریاست تسلیم کیا جائے۔ اسرائیل 1967ء کی جنگ سے قبل والی پوزیشن پر واپس جائے اور مشرقی بیت المقدس کو فلسطینی دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کرے۔ اس شدید ردعمل کی وجہ ظاہر ہے کہ اس منصوبے کے پیچھے امریکی نہیں، بلکہ خالص صہیونی لابی کارفرما ہے، جس کے اشاروں پر ٹرمپ ناچ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی اخبار ہارٹس نے اس سازش کی جزئیات پر بات کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس طرح اسرائیل مشرقی بیت المقدس اور تمام غیرقانونی یہودی بستیوں کو اپنی ریاست میں ضم کرلے گا، جب کہ غرب اردن میں غور کا متنازع علاقہ بھی یا تو طشت میں رکھ کر اسرائیل کو دے دیا جائے گا، یا نام نہاد وفاق کا حصہ بنے گا۔ یہی نہیں بلکہ 20 لاکھ آبادی والی غزہ کی محصور پٹی مکمل طور پر مصری سیکورٹی فورسز کی نگرانی میں دے دی جائے گی۔ ان جزئیات کو دیکھتے ہوئے یہی کہا جاسکتا ہے کہ ٹرمپ درحقیقت 70برس سے جاری دنیا کے حساس ترین قضیے کو اسرائیل کی خوشنودی پوری کرتے ہوئے ہمیشہ کے لیے دفن کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے میں اقوام متحدہ، اسلامی تعاون تنظیم، عرب لیگ اور تمام علاقائی و بین الاقوامی طاقتوں کو چاہیے کہ وہ اس سازش کو ناکام بنائیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ خانہ جنگیوں اور بحرانوں میں گھرا مشرقِ وسطیٰ کسی بڑی آگ کی لپیٹ میں آجائے۔