لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے

343

گستاخانہ خاکوں کا مقابلہ منسوخ کردیا گیا ہے۔ مسلمانوں کے لیے یہ اطمینان کی بات ہے۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ یہ منسوخی کسی سفارتی کوششوں کے نتیجے میں نہیں آئی۔ یعنی حکومت ہالینڈ نے اس سلسلے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ یہ بات خود ہالینڈ کا میڈیا بتا رہا ہے۔ اُس کے معروف ٹی وی چینل ’’نوس‘‘ نے ایک رپورٹ میں بتایا کہ ہالینڈ کی حکومت نے ’’گیرٹ ولڈر‘‘ پر خاکوں کے مقابلے کی منسوخی کے لیے کوئی دباؤ نہیں ڈالا۔ یہی بات آن لائن جریدہ ’’این یو‘‘ نے بھی رپورٹ کی کہ حکومت ہالینڈ نے اس سلسلے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔
پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گیرٹ نے کیسے قدم پیچھے ہٹائے؟؟۔
اس کی وجوہات بھی ہالینڈ کا میڈیا ہی بتاتا ہے کہ یہ پاکستان میں ہونے والے احتجاج، ایک مسلمان کا فیس بک پر اس کے قتل کے ارادے سے ہالینڈ آنے کا اعلان کرنا اور افغانستان میں طالبان کی دھمکی ہے جس میں انہوں نے ناٹو افواج میں شامل ہالینڈ کے فوجیوں پر حملے کا ارادہ ظاہر کیا ہے، حالاں کہ افغانستان میں ڈچ فوجیوں کی تعداد صرف 100 ہے۔ اس دھمکی کے بعد ہالینڈ کی حکومت نے اپنے فوجیوں کی افغانستان میں نقل و حرکت محدود کردی ہے۔ ان کی وزارتِ دفاع کے مطابق اپنے فوجیوں کو ہدایت کردی گئی ہے کہ وہ انتہائی ضرورت کے سوا کیمپ سے باہر نہ نکلیں، یعنی طالبان نے انہیں کیمپوں میں قید کردیا ہے۔ اس صورتِ حال کو محاورے کی زبان میں کہا جائے تو کہا جائے گا کہ ’’لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے‘‘۔
خوف کا یہ عالم ہے کہ ڈچ ایسوسی ایشن آف کارٹونسٹ نے حکومت سے سیکورٹی مانگ لی ہے کہ ان کی حفاظت کا بندوبست کیا جائے، سو سے زیادہ کارٹونسٹ نے اعلان کیا ہے کہ وہ اسلام اور پیغمبر اسلام کا احترام کرتے ہیں اور ان گستاخانہ مقابلے کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔ گیرٹ نے خوف کے باعث مقابلے کی منسوخ کا اعلان تو کردیا ہے لیکن ساتھ ہی اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ اسلام کے خلاف اس کی ’’جنگ‘‘ جاری رہے گی۔ البتہ ’’اسلامی تشدد‘‘ کے خطرات کے باعث میں نے یہ اعلان کیا ہے کہ مقابلہ نہیں ہوگا۔
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
مسلمان ملکوں کو خون میں نہلانے والے، کھنڈر بنادینے والے، لاکھوں بچوں کو قتل اور لاکھوں کو اپاہج بنادینے والے مسلمانوں پر اور اسلام پر تشدد کا الزام لگارہے ہیں۔
9/11 کے بعد امریکی صدر اور ناٹو نے صلیبی جنگ کا اعلان کیا، سارے لاؤ لشکر اور جدید ترین ہلاکت خیز ہتھیاروں کے ساتھ ایک چھوٹے سے پس ماندہ ملک پر چڑھ دوڑے، وہاں پندرہ پندرہ ہزار ٹن وزنی بم گرائے۔ خوفناک ڈیزی کٹر بموں کی بارش کی، افغان بے گناہ شہریوں کو اس درندگی سے ہلاک کیا کہ یورپ اور امریکا کے حقوق انسانی کے تصور ہی سے آدمی خوف زدہ ہو کر رہ جائے۔ حالاں کہ وہ افغانستان کے کسی شہری کا 9/11 میں شامل ہونے کا کوئی ثبوت نہ دے سکے بلکہ اب تو امریکی شہری نے خود اس عمارت کے تہہ خانے میں دھماکا خیز مواد نصب کرنے کا اعتراف کیا ہے۔ پھر جھوٹے الزام میں عراق کو کھنڈر بنایا، لیبیا کو تباہ کیا شام میں تباہی کا ایسا سلسلہ شروع کیا کہ تھمنے میں نہ آیا۔ لیکن اس کے باوجود دہشت گرد مغرب، عیسائی تشدد کی اصطلاح کے بجائے مسلمان دہشت گرد اور اسلامی تشدد کی اصطلاح نکالی گئی۔ بات وہی ہے جو اقبال نے کہا کہ
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
ٹھیک ہے طالبان نے درست کیا اور درست کہا کہ چوں کہ گیرٹ اپنے ارادے پر قائم ہے لہٰذا وہ بھی ہالینڈ کے فوجیوں پر حملے کا فیصلہ واپس نہیں لیں گے اور ان کا یہ حکم برقرار ہے۔ ہالینڈ کے فوجیوں پر حملے کا ذمے دار گیرٹ ہوگا۔
یہی نہیں طالبان نے افغان فوجیوں اور پولیس سے کہا کہ وہ بھی مسلمان ہیں، انہیں بھی اپنی بندوقوں کا رُخ ان کی طرف موڑ لینا چاہیے۔ طالبان نے صاف صاف کہہ دیا کہ یہ حکم اس وقت تک قابل عمل رہے گا جب تک ہالینڈ کی حکومت اور گیرٹ مسلمانوں سے معافی نہیں مانگتے۔
ڈچ حکومت طالبان کے اس بیان سے پریشان ہے۔ اس نے اپنے سفارت خانے کی سیکورٹی مزید سخت کردی، اپنے سفارت کاروں اور شہریوں کو کابل سمیت افغانستان کے دیگر صوبوں کے سفر سے بھی روک دیا اور ساتھ ہی اپنے فوجیوں کو افغان فوجیوں سے ملنے جلنے سے بھی منع کردیا کہ افغان فوجیوں کی طرف سے بھی ردعمل آسکتا ہے۔ یقیناًگستاخانہ خاکوں کی منسوخی اُمت مسلمہ کی کامیابی ہے۔ لیکن مغرب کے اس بیہودہ کلچر کا مستقل سدباب بھی ضروری ہے کیوں کہ ہر کچھ دن بعد مغرب مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کی کوشش کرتا ہے۔ حالاں وہ جانتے ہیں کہ مسلمان اس کو انتہائی توہین آمیز قرار دیتے ہیں اور اس سے مسلمانوں کے دلوں کو بہت تکلیف پہنچتی ہے۔
حال یہ ہے کہ مغرب خود آگ لگاتا ہے اور پھر کہتا ہے کہ مسلمانوں کو پرامن رہنا چاہیے، کیوں کہ یہ اظہار رائے کی آزادی ہے۔
یہ کیسا اظہار آزادی ہے کہ مسلمانوں کے دل میں رہنے والی ہستی کی توہین کریں اور پھر ڈھٹائی سے اسے اظہار رائے کی آزادی کا نام دیں۔ عدالتوں سے رجوع کرنے کے مشورے دیں، پُرسکون رہنے کی اپیل کریں۔ یعنی زخموں پر نمک چھڑکیں اور تڑپنے کو دہشت گردی قرار دیں۔ اس کا علاج یہ ہے کہ تمام اسلامی ممالک کو متحد ہو کر اقوام متحدہ میں اس سلسلے میں قوانین بنانے پر زور دینا چاہیے، آزادی اظہار کی آزادی کے حوالے سے ایک لکیر کھینچنا ضروری ہے تا کہ کسی مذہب اور اس کی مقدس شخصیات کے پیروکاروں کی دل آزادی نہ ہو۔