وزیر اعظم عمران خان نے پاک فوج کے ہیڈ کوارٹر میں آٹھ گھنٹے گزارے۔ جی ایچ کیو میں ان کا استقبال آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے روایتی سیلوٹ کے ذریعے کیا اور بعدازاں عمران خان کو گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔ اس موقع پر جہاں وزیر اعظم اپنی کابینہ کے اہم وزرا کے ساتھ تھے وہیں فوج کی تمام قیادت اور شعبوں کے سربراہ موجود تھے۔ آٹھ گھنٹے پر محیط وقت میں سویلین قیادت کو جیو اسٹرٹیجک امور پر بریفنگ دی گئی۔ رپورٹس کے مطابق عمران خان نے بریفنگ میں کئی سوالات پوچھے اور مسلسل نوٹس لیتے رہے۔ اس محفل کی اہم بات جو وزیر اطلاعات کی طرف سے بیان کی گئی ہے وہ جنرل باجوہ کا یہ کہنا ہے کہ فوج حکومت کے ماتحت ادارہ ہے۔ ملک میں ایک عرصے کے بعد ایسی سویلین حکومت قائم ہوئی ہے جسے فوج کی مکمل حمایت حاصل ہے اور جو غیر ملکی ایجنڈے کے مقابلے میں داخلی ضرورتوں اور معاملات کی بنیاد پر پالیسی تشکیل دینے کے پرعزم ہے۔
1984 سے بحال ہونے والی جمہوریت کا سب سے بڑا المیہ سول ملٹری کشمکش رہا ہے۔ اس عرصے میں اگر کوئی حکومت فوج کی حمایت اور تائید سے قائم بھی ہوئی تو تھوڑا آگے چل کر وہ کسی اور ایجنڈے پر چل پڑی اور یوں ملک میں سول ملٹری کشمکش شروع ہوتی رہی جو ظاہر ہے کہ جمہوریت کی کمزوری اور کبھی مکمل خاتمے پر منتج ہوتی رہی۔ حد تو یہ کہ محمد خان جونیجو کی حکومت جو خالصتاً جنرل ضیاء اور ان کے سیاسی مشیروں اور ایک غیر جماعتی نظام کی کوکھ سے جنم لیے ہوئے تھی تھوڑی دور چل کر سول ملٹری کشمکش پیدا کرنے کا باعث بنی اور بالآخر اسی کشمکش کی نذر ہو گئی۔ جنرل ضیاء الحق نے اپنے اس شاہکار کے ساتھ ’’تراشیدم، پرستیدم، شکستم‘‘ کا معاملہ تو کیا مگر وہ اپنی اس ناکامی پر رنجیدہ اور ملول میں رہے یہاں تک چند ماہ بعد ہی فضائی حادثے کا شکار ہوکر ذہنی خلش اور ضمیر کے بوجھ سے آزاد ہوگئے۔
پیپلزپارٹی کے مقابلے کے لیے اس خلا کو میاں نواز شریف کے ذریعے پر کرنے کی کوشش کی گئی۔ ان کا سیاسی ظہور اور عروج سب محمد خان جونیجو کا تسلسل تھے مگر جب انہیں طاقت ملی تو وہ اپنے ایک نئے راستے پرچل پڑے جو فوج کے ساتھ مستقل آویزش سے عبارت تھا۔ یوں وہ بار بار اقتدار میں آتے رہے اور ان کا اقتدار کسی حادثے کی نذر ہوتا رہا۔ پیپلزپارٹی اس معاملے میں محتاط رہ کر کرتب دکھاتی رہی مگر میاں نواز شریف کی نسبت وہ اپنی پالیسی کو فوجی ضرورتوں اور وقت کے تقاضوں پر ٹیون کرتی رہی۔ ملک میں جاری اس کشمکش نے جمہوریت کو کچھ دیا نہیں بلکہ جمہوریت کو اس کے نتیجے میں بہت کچھ کھونا پڑا۔ سول اور ملٹری کشمکش کی حقیقت یہ تھی کہ یہ طاقت کی لڑائی بن جاتی تھی اور طاقت کی جنگ میں طاقتور ترین کی جیت ہونا مقدر ہوتا ہے۔ اکثر اوقات سول ملٹری کشمکش شروع کرانے میں عالمی قوتوں کا گہرا دخل رہا ہے۔ جو سویلین حکمرانوں کو طاقت اور یک طرفہ فیصلوں سے فوج کو قابو کرنے کی ہلہ شیری دیتے رہے ہیں۔
فوج ایک آئینی اور حکومت کے ماتحت ادارہ ہے مگر یہ ملک کا سب سے بڑا، منظم اور مضبوط ادارہ بھی ہے جس کا ملک کے جیو اسٹرٹیجک اور دفاعی معاملات کلیدی کردار ہے۔ ملک کی داخلی سیاسی اور معاشی پالیسیاں چوں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ملک کے دفاع پر اثرات مرتب کرتی ہیں اس لیے فوج ہر معاملے میں ’’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘‘ کی تصویر بن کر نہیں رہ سکتی۔ زیادہ آئیڈیل بات تو یہ تھی کہ فوج اور سویلین حکمران ہم آہنگی کے ساتھ آگے بڑھتے رہے۔ جوں جوں سیاست کی اسپیس بڑھتی، سیاست دانوں کی ساکھ میں اضافہ ہوتا اور جمہوری نظام اور عمل میں زیادہ بہتری اور شفافیت پیدا ہوتی اسی رفتار سے فوج حالات سے الگ ہو کر پیچھے ہٹتی چلی جاتی۔ بوجوہ یہ آئیڈیل صورت حال پیدا نہ ہو سکی۔ اب بہت عرصے کے بعد ایک بے مقصد سول ملٹری کشمکش ختم ہونے کے آثار نظر آرہے ہیں۔
پاکستان اس وقت شدید اندرونی اور بیرونی خطرات کی زد میں ہے۔ امریکا اس کے درپے آزار ہے۔ افغانستان میں امریکا اور بھارت کی برہنہ موجودگی پاکستان کے لیے کئی چینلجز کھڑے کیے ہوئے ہے۔ پاکستان کے سوشل اسٹرکچر کو اندرونی طور پر بکھیرنے کی مہم زوروں پر ہے۔ اس پر مستزاد ملک کی ڈولتی ہوئی معیشت اور قرض پر ملنے والی سانسیں ہیں۔ یہ حالات قومی اتفاق رائے کے متقاضی ہیں چہ جائیکہ کہ کوئی سول ملٹری کشمکش شروع ہو اور ملک مزید عدم استحکام کا شکار ہو۔ فوج کی طرف سے خود کو حکومت کا ماتحت ادارہ کہہ کر کوئی انکشاف یا احسان نہیں کیا گیا آئینی پوزیشن یہی ہے اور یہی رہنی چاہیے۔ فوج کا اول وآخر تعلق ملک کے دفاع سے رہنا چاہیے مگر سویلین نظام کو خود کو کردار، ساکھ اور معیار کے اعتبار سے اس قابل بنانا چاہیے کہ یہ بات زبانی کلامی کے بجائے عملی شکل میں نظر آئے۔ سول حکومت ملکی مسائل کو اوونر شپ دے۔ اس وقت حالات کا تقاضا سول ملٹری ہم آہنگی ہے۔ اس ہم آہنگی سے جمہوریت کو بھی اعتماد ملے گا اور وہ سر پر لٹکتی ہوئی تلوار کے خوف سے آزاد ہوجائے گی اور فوج بھی شکوک وشبہات سے بے نیاز ہو کر سول حکومت کی حمایت اور ماتحتی کرے گی۔ ہر ذی ہوش شخص کی خواہش اور خواب یہ ہے کہ جمہوریت ملک کا انتظام اور خارجہ پالیسی چلائے اور فوج ملکی دفاع پر توجہ مرکوز کرے۔ دونوں میں حجاب، فاصلہ اور شک کی خلیج باقی نہ رہے۔ اب یہ سول حکومت کی بصیرت کا امتحان ہے کہ وہ فوج کو وہ اعتماد کس طرح عطا کرتی ہے کہ فوج خود کو رفتہ رفتہ داخلی معاملات سے الگ کرتی چلی جائے اور خود فوج کا امتحان ہے کہ وہ شاہ محمود قریشی کے اس دعوے کی کس قدر لاج رکھتی ہے کہ اب خارجہ پالیسی دفتر خارجہ میں بنے گی؟۔