بجلی سے متعلق احمقانہ تجاویز

417

اقتصادی رابطہ کمیٹی نے ملک بھر میں بجلی چوروں کے کنکشن کاٹنے کا فیصلہ کیا ہے اور عزم ظاہر کیا ہے کہ اگر بل ادا نہ کیا گیا تو وزیر اعظم ہاؤس کی بجلی بھی کاٹ دی جائے گی۔ کمیٹی نے پری پیڈ میٹر متعارف کرانے اور نصب کرنے کی تجویز بھی دی ہے۔ اس کے ساتھ ہی بجلی کے نرخوں میں 2روپے فی یونٹ اضافے کی منظوری بھی دے دی گئی۔دوسری طرف سندھ کابینہ نے بجلی کے تمام کھلے تار تبدیل کرنے کا حکم جاری کردیا ہے۔ بظاہر یہ دونوں فیصلے بڑے زبردست ہیں کہ حکومت نے وزیر اعظم ہاؤس سمیت تمام نادہندگان کو ایک صف میں کھڑا کردیا ہے اور کراچی میں بجلی کے ہائی ٹینشن تار کی وجہ سے معذور ہونے والے بچوں کے بہانے پورے شہر سے بجلی کے تمام تار ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور ساتھ ہی بجلی چوری روکنے کے لیے پری پیڈ میٹر نصب کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے لیکن وزیر اعظم ہاؤس میں تو اب وزیراعظم رہتے ہی نہیں اس کی بجلی کاٹنا آسان ہوگا۔ لیکن یہ پری پیڈ میٹر کیاہوتا ہے۔ پورے ملک کے صارفین اور خصوصاً کراچی کے صارفین سارا سال بجلی کے لیے پریشان رہتے ہیں بجلی کے بلوں میں من مانے اضافے ان کے سرپر مسلط کردیے جاتے ہیں۔ دو ڈھائی ہزار بل والے کو اچانک 80ہزار یا ڈیڑھ لاکھ کا بل دے دیا جاتا ہے اور وہ جب اس کی شکایت لے کرجاتا ہے تو اس کے ساتھ ایسا سلوک ہوتا ہے جیسے کوئی مجرم ہو۔ عدالت میں یہ شکایت لے کر جانے والے کو بھی یہی جواب ملتا ہے کہ پہلے بل جمع کراؤ پھر بات کی جائے گی یہی جملہ کے الیکٹرک والے بھی کہتے ہیں۔ اتنی رعایت ضرور کرتے ہیں کہ اس بھاری بل کی دو تین قسطیں کردیتے ہیں اور اس پر بھی صارف کو ہاتھ جوڑنے اور ناک رگڑنے تک کی ضرورت پڑتی ہے۔ جب ماہانہ بجلی نہ دے کر بجلی کمپنی والے پورا یا پچھلے ماہ سے زیادہ ہی بل دے دیتے ہیں تو پری پیڈ میٹر میں کیا ہوگا۔ ایک ماہ کا بل پہلے ہی وصول کرچکے ہوں گے۔ اس کا تخمینہ کس بنیاد پر لگائیں گے یاخود ہی فیصلہ کریں گے کہ اس ماہ اس صارف کو بجلی کتنی دینی ہے۔ جب مہینہ گزر جائے گا تو صارف اپنا میٹر لیے کھڑاہوگا کہ میں نے بجلی استعمال ہی نہیں کی بلکہ 18گھنٹے تو لوڈ شیڈنگ رہتی ہے لیکن باقی 6گھنٹے بجلی چاہیے تو اگلے ماہ کے لیے میٹر ری چارج کروانا پڑے گا۔ یہ احمقانہ تجاویزہیں یامال بنانے کا ڈھکوسلا۔ اسی طرح بجلی کے کھلے تار تبدیل کرنے یا بنانے کا مطلب اربوں روپے کا مزید فراڈ ہے۔ کراچی میں تانبے کے بچے کھچے تار بھی ہڑپ کرلیے جائیں گے۔ اربوں روپے کے ٹھیکے الگ دیے جائیں گے۔ پھر سوال یہ ہے کہ بجلی کب ملتی ہے۔ کیا ملک میں عوام کے تحفظ اور ان کے حقوق کے لیے بھی کوئی ادارہ ہے یا سب ادارے عوام کا خون نچوڑنے اور ان کی جیبیں خالی کرنے پر مامور ہیں ۔ اتنے عمدہ اعلانات کے ساتھ بجلی کے نرخو ں میں 2روپے فی یونٹ اضافہ کردیا گیا ہے۔