چھ ستمبراورآج کا پاکستان

226

ترپن سال پہلے 1965میں بھارت نے کشمیر کے پہاڑوں پر جاری کشیدگی کو پنجاب کے میدانوں تک پھیلانے کا فیصلہ کرتے ہوئے رات کی تاریکی میں لاہور پر حملہ کیا تھا۔ بھارتی حکمران یہ سمجھتے تھے کہ اب پاکستان پر فیصلہ کن وار کا یہ اچھا موقع ہے۔ اس سے تین برس قبل 1962 میں بھارت چین کے ساتھ ایک خوفناک جنگ میں شکست کھا چکا تھا۔ اس جنگ کے منفی اثرات بھارت میں نیچے تک سرایت کر گئے تھے۔ لوگ مایوسی کا شکار تھے اور اپنے پچھواڑے میں انہیں ایک طاقتور دشمن کا احساس خوفزدہ کررہا تھا۔ چین صرف بھارت کی سرحدوں پر ہی نہیں اس کے اندر بھی کئی ریاستوں میں اتھل پتھل کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا تھا کیوںکہ ناگا لینڈ، میزورام وغیرہ ایسی ریاستیں تھیں جہاں چین کا اثر رسوخ ایک حقیقت تھا۔ چین اور بھارت کی جنگ میں چینی وزیر اعظم چو این لائی نے اس وقت کی پاکستانی قیادت کو پیشکش کی تھی کہ اگر وہ اس جنگ میں شریک ہوجائیں تو چین کشمیر حاصل کرنے میں پاکستان کی مدد کر سکتا ہے۔ گویا کہ یہ کشمیر کی آزادی کے لیے پاکستان کو حاصل ہونے والا ایک اچھا موقع تھا۔ اس وقت پاکستان کی قیادت امریکی دبائو میں تھی کہ اس نے چین کی اس پیشکش سے فائدہ نہیں اُٹھایا۔ بھارت چین کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے باجود اس جنگ میں غیر جانبدار رہا مگر تین سال بعد اس کا صلہ بھارت نے یوں دیا کہ چین کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست کے نفسیاتی اثرات ختم کرنے کے لیے پاکستان کے خلاف جنگ چھیڑ دی گئی۔
پاکستان نے مقبوضہ کشمیر کے عوام کی خواہشات، وہاں بھارتی مظالم کو دیکھتے ہوئے آپریشن جبرالٹر کے نام سے ایک منصوبہ ترتیب دیا۔ اس وقت ایوب خان صدر پاکستان اور ذوالفقار علی بھٹو وزیر خارجہ تھے۔ اس منصوبے کا مقصد یہ تھا کہ پاک فوج کے تربیت یافتہ کمانڈوز کو وادی کشمیر میں داخل کیا جائے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال کو مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے استعمال کیا جائے۔ اس منصوبے کے لیے کشمیر کے اندر فضاء پوری طرح تیار نہیں تھی۔ کشمیر میں موئے مقدس کی تحریکوں نے عوام میں بیداری اور شعور تو پیدا کیا تھا مگر بھارت کا فوجی قبضہ مضبوط ہوتا جا رہا تھا اور عوام محاصرے کی کیفیت میں تھے کشمیر کی مقبول قیادت شیخ عبداللہ جیل میں قید تھے اور ان کی جگہ بھارت مصنوعی قیادتوں کو آگے بڑھانے کے لیے کوشاں تھا۔ ان حالات میں پاکستان میں آپریشن جبرالٹر کا منصوبہ ترتیب دیا گیا۔ بھارت نے کشمیر کے متنازع علاقے میں ہونے والی اس سرگرمی کا جواب بین الاقوامی سرحد پر جنگ چھیڑ کر دیا۔ بھارت کا مقصد یہ تھا کہ پاکستان کے کسی بڑے شہر پر قبضہ کیا جائے۔ اسی حکمت عملی کے تحت واہگہ اور سیالکوٹ کے محاذوں پر بھارتی فوج نے پیش قدمی کی کوششیں کیں۔ بھارت نے ٹینکوں کی بڑی تعداد کو پاکستان کے میدان کی طرف دھکیل دیا۔ دنیا یہ دیکھ کر دنگ رہ گئی کہ پاکستان کی فوج بھارت کے مقابلے کے لیے پہلے سے تیار تھی۔ پاک فوج کے بہادر جوان جسموں سے بارود باندھ کر ٹینکوں کے آگے لیٹتے رہے۔ پاک فضائیہ نے بھارت کی فضائی برتری کے باجود اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ جہاں ایک طرف میجر عزیز بھٹی جیسے کردار اد جنگ میں اُبھرے وہیں شاہین پاکستان ایم ایم عالم جیسے ہیرو بھی منظر پر آئے جنہوں نے بھارتی جنگی جہازوں کو کم وقت میں گراکر عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ بھارتی جرنیلوں نے لاہور جیم خانہ میں شراب وکباب کی محفلیں منعقد کرنے کا اعلان کر رکھا تھا مگر انہیں یہ اندازہ نہیں کہ ان کا واسطہ اور مقابلہ ایک ایسی قوم سے ہے کہ جذبہ جہاد جس ہتھیار ہے اور شوق شہادت جس کی تمنا ہے۔ اس جذبے اور سوچ کا مقابلہ مادی قوت سے ممکن نہیں ہوتا۔ فوج ہی نہیں عوام بھی سروں پر کفن باندھ کر میدان میں نکل آئے۔ ہر لب پر یہ نغمے اور گیت تھے کہ ’’اے دشمن ِ دیں تم نے کس قوم کو للکارا ہے‘‘۔ قوم میں ایک بار پھر پاکستانیت کا جذبہ عود کر آیا۔ خیبر سے کراچی اور ڈھاکا تک پوری قوم بھارتی جارحیت کے خلاف متحد ہوگئی۔ سیاسی، علاقائی اور صوبائی تعصبات کہیں پیچھے رہ گئے اور لوگ صرف پاکستانی اور مسلمان بن کر دشمن کے مدمقابل کھڑے ہوگئے۔ پاکستان مسئلہ کشمیر پر کوئی بامعنی سمجھوتا کیے بغیر جنگ بند نہیں کرنا چاہتا تھا مگر امریکا اور دوسر ے عالمی طاقتیں بھارت کی خواہشات کے احترام پر یقین رکھتے ہوئے غیر مشروط جنگ بندی چاہتی تھیں۔ اس معاملے میں عالمی طاقتوں نے سوویت یونین کے شہر تاشقند میں دونوں ملکوں کے سربراہوں ایوب خان اور لال بہادر شاستری کو ایک میز پر بٹھایا اور دونوں کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جسے معاہدہ تاشقند کہا جاتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان یہ معاہدہ اصل مسئلے کو حل کرنے میں معاون ثابت نہ ہوسکا۔ برس ہا برس گزر گئے بھارت کا جنگی جنون ایک بار پھر عروج پر ہے۔ چین اور پاکستان کے ساتھ اس کی کھٹ پھٹ آج بھی جاری ہے۔ فوجی آپریشنوں کے ذریعے پاکستان میں غیر ملکی سازشوں کا تانا بانا توڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پاکستان کے خلاف دشمنوں کی سازش انہی پر الٹ دی گئی۔ آج پاکستان ترپن برس پہلے کا نہیں بلکہ اس سے قطعی مختلف ہے۔ آج پاکستان دنیا کی ساتویں بڑی ایٹمی طاقت ہے۔ اس لیے آج کے یوم دفاع کا پیغام یہ ہے کہ دشمن نے کوئی مہم جوئی کی تو پاکستان اپنی پسند کا محاذ اور اپنی پسند کا ہتھیار استعمال کرے گا۔ اچھا ہے کہ دشمن کسی مہم جوئی کا خیال ہی ترک کردے۔