پھر شہد نکل آیا

308

لیجیے پی ٹی آئی رہنما علی امین گنڈاپور کی تنہائی دور ہوگئی۔ شرجیل میمن کے پاس سے بھی شہد کی بوتل نکل آئی۔ لیکن میمن صاحب کو ایک درجہ برتری حاصل ہے۔ اس کے پاس ایک بوتل میں زیتون کا تیل بھی تھا۔ ہمارے چیف جسٹس نے سب جیل ضیا الدین اسپتال پر چھاپا مار کر تاریخ رقم کردی۔ اب کسی کو جرأت نہیں ہوگی کہ سب جیل میں شہد اور زیتون کا تیل رکھے۔ پورے پاکستان کے میڈیا اور ٹی وی چینلز پر وقت ضایع کرنے والوں کو ضائع کرنے کے لیے کئی گھنٹے اور مل گئے۔ جب کہ آصف زرداری صاحب کے دوستوں کی عیاشی موضوع گفتگو بن گئی۔ ان کے کرتوت بھی تو ایسے ہیں۔ کیا ضرورت تھی اس مہنگائی میں شہد اور زیتون کا تیل اپنے کمرے میں رکھنے کی۔ جب ’’آرام‘‘ کرنے آئے تھے تو آرام ہی کرتے رہتے۔ خوامخواہ میں راؤ انوار کی سب جیل کو موضوع بنایا گیا۔ خوامخواہ لوگوں کی توجہ ملک بھر کے وڈیروں، چودھریوں اور خانوں، سرداروں کے ڈیروں، اوطاقوں اور حویلیوں کی طرف چلی گئی بلاوجہ لوگ ملک بھر کے تھانوں کے بارے میں سوچنے لگے۔ یقیناًان تھانوں میں تو شکایت کے لیے آنے والے ہر فرد کی تواضع شہد اور زیتون سے کی جاتی ہوگی۔ اگر ایسا نہیں کریں گے تو چھاپا پڑسکتا ہے۔ آصف زرداری صاحب اس طرح اپنے قریبی دوستوں کے آرام میں مخل ہونے پر بڑے خجل ہوئے اور کئی مقدمات کے وزن تلے دبے ہونے کی وجہ سے دبی زبان میں بڑی بات بھی کہہ گئے کہ سپریم کورٹ میں زیر التوا ہزاروں مقدمات پر زور دینا چاہیے۔ زرداری صاحب کو خوب اندازہ ہے کہ آج کل زور ان پر ہے، مقدمات پر تو آنے والا بھی زور دے سکتا ہے۔ کیا ہوا اگر 22 سال بعد کسی کو بری کردیا جائے یا موت کے بعد بے گناہ قرار دیا جائے۔ مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر تو ہوتی رہتی ہے لیکن جیل سے علاج کے بہانے اسپتالوں میں بیٹھ کر آرام کرنا اور شہد و زیتون کے تیل کا استعمال ۔۔۔ یہ ناقابل برداشت ہے۔ فی الحال تو زور زرداری صاحب پر ہے۔ ابھی چند روز قبل کی بات ہے تھانے سے غیر قانونی طور پر زیر حراست نوجوان کو عدالت کے حکم پر بازیاب کیا گیا۔ صرف کراچی کا تھانہ نہیں حیدر آباد کے تھانوں کی خبریں تو اتنی عام ہیں کہ روز کسی نہ کسی کا بچہ کسی نہ کسی تھانے سے بازیاب ہوتا ہے۔ سندھ کے تھانوں میں کیا ہورہاہے اس کے لیے چیف جسٹس کے دورۂ سندھ کے دوران اچانک رات کے وقت کسی تھانے پر چھاپا پڑنے کا انتظار کریں۔
مسلم لیگ ن والے بھی منتظر ہیں کہ چیف صاحب کب اڈیالہ جیل کا دورہ کرکے چھاپا مارتے ہیں۔ کیونکہ انہیں جیل کی سہولتوں کے حوالے سے شکایات ہیں وہ چاہتے ہیں کہ انہیں بھی ایسی ہی آرام گاہ میسر ہو جیسی شرجیل میمن کو ملی یا آصف زرداری صاحب کو۔ ابتدائی چند ایام میں تو باہر کی چائے اور انڈا پراٹھا کی صدائیں سنائی دی تھیں لیکن اب خاموشی ہے۔ بہر حال جیسا کہ توقع کی جارہی تھی سندھ پولیس نے نہایت چستی کا مظاہرہ کیا اور رپورٹ پیش کردی کہ شرجیل میمن کے خون میں الکحل موجود نہیں تھی۔ اب سوال صرف یہ رہ جاتا ہے کہ شراب کی بوتلیں وہاں کیسے پہنچیں اور شراب کون لایا۔ کون پی رہا تھا۔ صرف شرجیل میمن کے خون اور پیشاب کا معائنہ کیوں ہوا وہاں موجود تمام لوگوں کا طبی معائنہ ہونا چاہیے تھا۔ لیکن جس کا کام اس کو ساجھے کے مصداق یہ چھاپا تو ماردیاگیا میڈیا میں بھی بہت کچھ آگیا دوروں کا مواد میڈیا کے ہاتھ تو آگیا اب اگر تفصیلی رپورٹ میں یہ بھی سامنے آیا کہ کمرے میں شراب کی بوتل تھی ہی نہیں وہ تو چھاپا مار پارٹی میں سے کسی کے پاس تھی۔ تو کیا سب کو طلب کیا جائے گا۔ لیکن سب کو طلب کرنے سے ہوتا کیا ہے۔ خاور مانیکا کو ناکے پر روکا گیا۔ انہوں نے شکایت کی۔ پھر خبر آئی کہ میرا ڈی پی او یا کیپٹن کے تبادلے سے کوئی تعلق نہیں پھر خبر آئی کہ خاور مانیکا نے خود درخواست کی تھی کہ معاملے کو دیکھا جائے۔ اب جب سب کو طلب کرلیا ہے تو آئی جی پنجاب کلیم امام خجالت کا شکار تھے۔ اس بات کا جواب نہیں مل رہا کہ احسن اقبال جمیل کون ہیں ایک عام شہری ہیں تو ان کی اتنی توقیر کہ ان کے کہنے پر وزیراعلیٰ نے ڈی پی او کو طلب کرلیا۔ ابھی تو یہ عقدہ نہیں کھل رہا کہ آئی جی نے ڈی پی او کا تبادلہ کیا یا وزیراعلیٰ نے اور خاور مانیکا کے فیملی فرینڈ احسن اقبال جمیل نے حکم دیا تھا یا وزیراعلیٰ نے حکم دیا تھا یا ڈی پی او کی سرزنش کرنے والا کوئی اور تھا اس گنجلک سے کیسے نکلیں گے اب یہ سب کچھ عدالت میں ہے لیکن اس سے فائدنہ یہ ہوا کہ خان صاحب کے گھر تک آنچ نہیں پہنچ رہی۔ ساری تپش وزیراعلیٰ اور آئی جی تک محدود ہے۔
بلوچستان کا وزیراعلیٰ رئیسانی ہو یا کوئی اور وہ کبھی پیچھے نہیں رہتا چنانچہ جام کمال نے بھی کمال کردیا۔ کہتے ہیں کہ پکوڑوں، سموسوں سے بچت کا فائدہ نہیں۔ گاڑیوں کی نیلامی کے بجائے ملک کو پستی میں لے جانے والے معاملات پر توجہ دی جائے ان کا کہناتھا کہ سموسے یا پکوڑے نہ کھانے سے ملک سنور نہیں سکتا۔ اربوں کھربوں روپے کے معاملات درست کرنے ہوں گے جام کمال نے کمال کی بات کہی ہے لیکن بھائی یہ پکوڑے سموسے بھی تو غریب کے نہیں ہیں جو دس بیس روپے میں کھاتا ہے۔ یہ حکمران تو 20 کروڑ کی چائے پی جاتے ہیں تو پھر ان کے سموسے پکوڑے بھی اربوں، کھربوں کے ہی ہوں گے۔ بہر حال اس اعتبار سے جام کمال کی بات آصف زرداری کی بات سے مماثلت رکھتی ہے کہ جو معاملات زیادہ اہم ہیں ان پر توجہ دینا زیادہ ضروری ہے۔ اب سمجھانے کون۔ وہاں تو یہ پوچھ لیا جاتا ہے کہ مجھے تھپڑ مار کر دکھاؤ۔ ہمارے پاس تو اتنے پیسے بھی نہیں جو عمران شاہ نے دے ڈالے۔ اب شرجیل میمن کا کیس پنجاب میں چلے گا۔ شاید پنجاب کی آب و ہوا میں ان کا خون کا نیا ٹیسٹ کچھ اور رنگ لائے۔