عمران خان اور پی ٹی آئی کی حکومت کے گلے پر ایک نہیں دو تلواریں رکھی ہوئی ہیں۔ ایک تلوار نواز لیگ اور اس کے پیدا کردہ ’’پارٹی پریس‘‘ کی ہے۔ دوسری تلوار خود عمران خان اور ان کی جماعت کے ’’کارناموں‘‘ کی ہے۔ ان دونوں تلواروں نے عمران خان اور ان کی جماعت کے امیج کو صرف پندرہ دن میں لہولہان کرکے رکھ دیا ہے۔ لیکن پہلے نواز لیگ اور اس کے ’’پارٹی پریس‘‘ کا تذکرہ۔
چند روز پیشتر جیو کے پروگرام رپورٹ کارڈ کا موضوع سن کر ہم حیران رہ گئے۔ موضوع تھا عمران خان کی حکومت کی آٹھ دن کی کارکردگی کا جائزہ۔ پاکستان کی تو بات ہی اور ہے ہم نے پوری انسانی تاریخ میں کسی حکمران اور کسی حکومت کو اس کے ابتدائی آٹھ دنوں کے حوالے سے زیر بحث آتے یا ’’جج‘‘ ہوتے نہیں دیکھا۔ حکومتیں اقتدار میں آتی ہیں تو انہیں آٹھ دس ماہ دیے جاتے ہیں اور پھر دیکھا جاتا ہے کہ انہوں نے کیسی کارکردگی کا مظاہرہ کیا؟ مگر جیو پر عمران خان اور ان کی حکومت کو شہید ہوتے دیکھنے کا ایسا جنون طاری ہے کہ اس نے صرف آٹھ دنوں کو حکومت کے تجزیے کا پیمانہ بنا ڈالا۔ خیر یہ جیو کی مہربانی ہے ورنہ جیو پر عمران خان کی دشمنی کا جیسا جنون طاری ہے اسے دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ جیو عمران کی حکومت کو آٹھ گھنٹے بلکہ آٹھ منٹ کی بنیاد پر بھی ’’جج‘‘ کرسکتا تھا اور کہہ سکتا تھا کہ عمران کی حکومت کے آٹھ گھنٹے یا آٹھ منٹ ثابت کررہے ہیں کہ عمران کی حکومت ناکام ہوچکی ہے۔ جیو کی ایک خبر پنجاب کے ایک اسپتال سے متعلق تھی۔ اس اسپتال کا قصہ یہ تھا کہ ایک عورت کو بروقت اسپتال میں داخل نہ کیا جاسکا۔ چناں چہ عورت نے اسپتال کے باہر بچے کو جنم دے دیا۔ اس خبر میں جیو نے یہ زاویہ پیدا کیا کہ ابھی تک عمران کی ’’تبدیلی‘‘ کہیں موجود نہیں۔ ماہرین اس طرح کے جرنلزم کو اصطلاح میں Yello Journalism کہتے ہیں مگر جیو کی یہ صحافت Yello Journalism سے آگے کی چیز ہے۔ یہ Gutter Journalism ہے۔ وہ چینل جس نے میاں نواز شریف اور ان کی حکومت کو کبھی پانچ سال میں بھی ’’جج‘‘ کرنے کی کوشش نہیں کی وہ چینل عمران خان اور ان کی حکومت کو آٹھ دن میں جج کررہا ہے اور چاہتا ہے کہ عمران کی حکومت کے ابتدائی آٹھ دنوں کو اس کے آخری آٹھ دن میں ڈھال دیا جائے۔
جب ہم یونیورسٹی میں جرنلزم پڑھ رہے تھے تو ایک دن کلاس میں ’’پارٹی پریس‘‘ کا تصور بھی زیر بحث آیا۔ استاد مکرم نے بتایا کہ پارٹی پریس پر ’’پارٹی‘‘ کا غلبہ ہوتا ہے، چناں چہ پارٹی پریس ’’آزاد پریس‘‘ نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس ایک آزاد پریس ہوتا ہے جس پر کسی پارٹی کی ’’چھاپ‘‘ نہیں ہوتی۔ آج 2018ء میں یہ گفتگو فضول محسوس ہورہی ہے اس لیے کہ پاکستان میں ہر اخبار اور ہر چینل ’’پارٹی پریس‘‘ ہے۔ جنگ پڑھ کر اور جیو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ یہاں نواز شریف زندہ باد اور نواز لیگ زندہ باد کے سوا کچھ بھی نہیں ہے اور اگر ہے تو کسی مجبوری کی وجہ سے۔ اسی طرح اے آر وائی، بول اور سماء دیکھ کر خیال آتا ہے کہ ان کا سب کچھ اسٹیبلشمنٹ ہے۔ ان کا اصول، ان کا تناظر، ان کا مفاد، جانب داری بُری چیز نہیں، مگر اس کا کوئی اصول ہونا چاہیے، اس کی کوئی دلیل ہونی چاہیے، اس کی پشت پر مذہب، اخلاق، علم، تہذیب اور تاریخ کا حوالہ موجود ہونا چاہیے۔ مگر بدقسمتی سے صحافت ہمارے یہاں صرف ’’مفادات کا کھیل‘‘ بن چکی ہے۔ میڈیا ٹائی کونز کے مفادات کا کھیل، سیاسی جماعتوں کے مفادات کا کھیل، اس کھیل میں مذہب، اخلاق، تہذیب اور تاریخ تو کیا ملک و قوم بھی کہیں موجود نہیں۔ جو بھی کچھ ہے محبت کا پھیلاؤ ہے کہ مصداق جو بھی کچھ ہے مفادات کا پھیلاؤ ہے۔
عمران خان اور ان کی حکومت کا احتساب ہونا چاہیے، اسی طرح جس طرح عمران خان اور ان کی پارٹی دوسروں کا احتساب کرتی رہی ہے مگر عمران خان کو اس حوالے سے وقت ملنا چاہیے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دوسروں کی شکایت کیا کی جائے عمران خان اور ان کی پارٹی تو خود بھی اپنے آپ کو وقت دینے پر تیار نہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ عمران خان اور ان کی پارٹی نے اپنے اقتدار کے ابتدائی دس دنوں میں جتنے تنازعات خود تخلیق کیے ہیں اتنے تنازعات تو ان کے حریفوں نے بھی تخلیق نہیں کیے۔ عمران خان کو امریکا کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے فون کیا اور امریکی محکمہ خارجہ نے اس کی بنیاد پر دعویٰ کیا کہ دونوں رہنماؤں کی گفتگو کے دوران دہشت گردوں کے مسئلے پر بھی بات چیت ہوئی۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بڑے اعتماد سے اس دعوے کی تردید کی اور ہماری وزارت خارجہ کے ترجمان نے وزیر خارجہ کی تائید کی۔ امریکیوں نے پاکستان کے موقف کی تردید کی۔ اگلے دن پاکستان نے تردید کی تردید جاری کی۔ یہاں تک کہ یہ اطلاع آگئی کہ امریکیوں نے عمران اور پومپیو کی گفتگو تحریری صورت میں پاکستان کو فراہم کردی ہے۔ اس کے جواب میں وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے یہ کہہ کر جان چھڑائی کہ ہم اس گفتگو کو آگے نہیں بڑھانا چاہتے۔ اس سے اس خیال کو تقویت حاصل ہوئی کہ عمران اور پومپیو کی گفتگو میں کہیں نہ کہیں ’’دہشت گردوں‘‘ کا ذِکر آیا ہے۔ ایسی ہی صورتِ حال مودی کے خط کے حوالے سے پیدا ہوئی، مودی نے عمران خان کو مبارک باد کا خط لکھا تو عمران خان کی حکومت نے دعویٰ کیا کہ مودی نے پاکستان کو مذاکرات کی دعوت دی ہے۔ لیکن اس دعوے کے سامنے آتے ہی مودی سرکار نے دعوے کی تردید کردی۔ اس سلسلے میں عمران کے کسی وزیر یا رہنما کو کچھ بھی کہنے کی جرأت نہ ہوسکی۔
عمران خان 20 سال تک یہ کہتے رہے کہ وہ سرمائے اور Electables کی سیاست کے خلاف ہیں مگر انہوں نے 2018ء کے انتخابات سے ذرا پہلے روزنامہ ڈان کراچی کو انٹرویو دیتے ہوئے صاف کہا کہ سرمائے اور Electables کے بغیر انتخابات نہیں جیتے جاسکتے اور بلاشبہ اگر عمران خان نے سرمائے اور Electables کی سیاست نہ کی ہوتی تو وہ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے باوجود اقتدار میں نہیں آسکتے تھے۔ مگر بدقسمتی سے عمران خان نے اقتدار میں آنے کے بعد بدعنوانوں کو نوازنے کی سیاست بھی شروع کردی ہے۔ انہوں نے فہمیدہ مرزا کو وفاقی وزیر بنا دیا ہے، حالاں کہ ان پر بینکوں سے 84 لاکھ روپے معاف کرائے جانے کا الزام ہے۔ اسی طرح عمران خان نے زبیدہ جلال کو بھی وفاقی سطح پر اپنی ٹیم کا حصہ بنالیا ہے حالاں کہ ان پر بھی بڑے پیمانے پر فنڈز کی لوٹ مار کا الزام ہے، عمران خان شریفوں کے خلاف ہیں مگر انہوں نے ڈاکٹر عشرت حسین کو مرکز میں اہم ذمے داری سونپ دی ہے۔ حالاں کہ ڈاکٹر عشرت حسین نے معیشت سے متعلق اپنی کتاب میں میاں شہباز شریف کے ’’ترقیاتی ماڈل‘‘ کی بڑی تعریف کی ہے، اسی طرح کئی نواز شریف زدہ اور متنازع بیوروکریٹس کو عمران خان نے اہم ذمے داریاں سونپ دی ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ عمران خان کے پاس صاف ستھرے وزیروں اور ’’اپنے بیوروکریٹس‘‘ کا بھی کال پڑا ہوا ہے۔ اس صورتِ حال پر تنقید ہورہی ہے تو پی ٹی آئی اس کا بھی بُرا مان رہی ہے۔ حالاں کہ تنقید کرنے والے ٹھوس مثالوں کے ذریعے کلام کررہے ہیں۔
عمران خان کے ہیلی کاپٹر سے سفر کو عمران کے دشمنوں نے ایک بڑے مسئلے بلکہ ایک بڑے اسکینڈل کی شکل دے دی۔ یہ سیاسی وار صحافتی اعتبار سے بڑی ہی شرمناک صورتِ حال ہے لیکن اس مسئلے کو دھماکا خیز بنانے میں خود تحریک انصاف نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری سے جب اس سلسلے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ ہیلی کاپٹر کا سفر بہت سستا ہے، اس پر صرف 55 روپے فی کلو میٹر خرچ آتا ہے۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ آپ نے یہ کیسے جانا کہ ہیلی کاپٹر کے سفر پر 55 روپے فی کلو میٹر خرچ آتا ہے تو فواد چودھری نے کہا کہ میں نے ’’گوگل‘‘ سے معلوم کیا ہے، آپ بھی چاہیں تو گوگل سے پوچھ لیں۔ اس جواب کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت گوگل پر چلے گی، اس جواب کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ پوری تحریک انصاف میں اتنی ذہنی اور علمی استعداد نہیں ہے کہ وہ عمران خان کے ہیلی کاپٹر سے سفر کے سلسلے میں ایک معقول دلیل پیش کرسکے۔ یہ ایسی جماعت کا حال ہے جو خود کو پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کا ’’متبادل‘‘ بھی کہتی ہے اور خود کو ’’تبدیلی‘‘ کی علامت بھی باور کراتی ہے۔ تحریک انصاف اور اس کے صحافتی حمایتیوں کی اہلیت اس امر سے بھی ظاہر ہے کہ عمران خان کے ہیلی کاپٹر کے جواب میں لوگ نواز شریف کا ہیلی کاپٹر نکال لائے
یہ طریقہ جیسے کو تیسا کے اصول کے تحت تو ٹھیک ہے لیکن اس طریقے کا مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان اور نواز شریف میں کم از کم ہیلی کاپٹر کے استعمال کے حوالے سے کوئی فرق ہی نہیں رہتا۔
تحریک انصاف نے عامر لیاقت کے مسئلے کو بھی خود ہی اسکینڈل بنایا۔ عامر لیاقت نے کہا کہ تحریک انصاف میں بڑا اضطراب ہے اور ایک فارورڈ بلاک بننے والا ہے۔ اس کے جواب میں پہلے تحریک انصاف کے فیصل واوڈا نے کہا کہ عامر لیاقت اچھے آدمی ہیں بس ذرا جذباتی اور Reactionary ہیں۔ عامر لیاقت نے شور شرابا جاری رکھا تو فیصل واوڈا نے کہا کہ عامر لیاقت وزارت کے لیے ایسا کررہے ہیں اور انہیں ایسا کرتے ہوئے شرم آنی چاہیے کیوں کہ تحریک انصاف میں کوئی رہنما بھی عہدے اور منصب کے لیے کام نہیں کرتا۔ عامر لیاقت کا تماشا جاری رہا تو فواد چودھری نے فرمایا کہ وہ اس سلسلے میں اتنا ہی کہیں گے کہ اللہ سب کو ہدایت دے۔ صدارت کے منصب کے لیے کوشاں اور ممکنہ طور پر اب تک ملک کے صدر بن جانے والے عارف علوی نے کہا کہ وہ عامر لیاقت کے مسئلے پر کچھ نہیں کہیں گے۔ اس سلسلے میں عمران ہی کچھ کہہ سکتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ تحریک انصاف اتنی کمزور ہے کہ وہ عامر لیاقت کے ’’ہنگامے‘‘ اور ’’تماشے‘‘ کو بھی ’’Handle‘‘ نہیں کرسکتی۔ عامر لیاقت کا تماشا جاری رہا تو اے آر وائی پر یہ خبر چل گئی کہ عامر لیاقت کو جلد ہی وفاق میں کوئی وزارت دی جارہی ہے۔ اگر بالآخر یہی ہونا تھا تو فیصل واوڈا کو متضاد بیانات دینے اور فواد چودھری کو یہ دعا کرنے کی کیا ضرورت تھی کہ اللہ سب کو ہدایت دے۔ ان حقائق سے صاف ظاہر ہے کہ صرف عمران خان کے حریف ہی ان کے خلاف سازش نہیں کررہے خود عمران خان اور ان کی جماعت کے رہنما بھی اپنی حکومت کے خلاف سازش کررہے ہیں۔ عمران خان کو اقتدار میں آئے ابھی صرف پندرہ دن ہوئے ہیں مگر اتنی سی قلیل مدت میں عمران اور ان کی حکومت کے حوالے سے جو ہنگامے برپا ہوچکے ہیں انہیں دیکھ کر خیال آتا ہے کہ عمران کو اقتدار میں آئے ہوئے پندرہ ماہ ہو چکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس ’’تاثر‘‘ سے عمران اور ان کی حکومت کی ’’کامیابی‘‘ ظاہر ہورہی ہے یا ’’ناکامی‘‘؟۔