دوسروں کی جنگ نہ لڑنے کا عزم 

316

وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان نیازی نے کہا ہے کہ اب پاکستان کسی اور کی جنگ نہیں لڑے گا ۔ ملکی خارجہ پالیسی بھی صرف عوام کی بہتری کے لیے ہو گی ۔ انہوں نے 6 ستمبر کی یوم دفاع پاکستان و شہداء کی تقریب سے جی ایچ کیو میں خطاب کے دوران کہا کہ سول ملٹری تعلقات میں کوئی مسئلہ نہیں ۔ ہم سب کا ایک ہی مقصد ہے اس ملک کو آگے لے جانا ۔۔۔ ہمیں ریاست مدینہ کے زریں اصولوں کو مد نظر رکھنا ہوگا ۔ انہوں نے یوم دفاع کے موقع پر مدینہ کی ریست اور مسلمانوں کی فتوحات کا تذکرہ کرتے ہوئے دو مرتبہ یہ بات کہی کہ انبیاء کے بعد شہداء کا رتبہ ہوتا ہے ۔ ان کے ساتھ اس موقع پر پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ کوئی فرد ادارے سے اور ادارے قوم سے مقدم نہیں ۔ دفاع پاکستان کے لیے سب یک جان ہیں ۔ جنگ ابھی جاری ہے لہو جو سرحد پر بہہ رہا ہے ہم اس لہو کا حساب لیں گے ۔ یہ وہی 6 ستمبر ہے جو کافی عرصے سے خاموشی کے ساتھ گزر جاتا تھا ۔ اچانک قوم کو یاد دلایا گیا کہ ہمیں پیار ہے پاکستان سے ۔۔۔ اس میں کوئی ہرج نہیں لیکن اس مرتبہ ایک اور بات ہوئی ہے یوم دفاع پاکستان 6 ستمبر کی مناسبت سے منایا جا رہا تھا اور اس میں ستمبر 65 کی جنگ اور اس کے شہداء اور واقعات پر زیادہ توجہ دی جانی چاہیے تھی لیکن اس مرتبہ آپریشن راہ راست، آپریشن ضرب عضب اور آپریشن رد الفساد کے شہداء کا ذکر زیادہ زور سے کیا گیا شاید امریکا کو یہ بتانا مقصود تھا کہ تمہاری جنگ لڑنے کے چکر میں پاکستان کو کتنا بڑا نقصان اٹھانا پڑا ۔ بہر حال وزیر اعظم عمران خان نے جو کچھ کیا ہے وہ کنٹینر پر کھڑے ہو کر کہے جانے والے جملوں میں سے کوئی جملہ نہیں تھا ۔ بلکہ یہ جملے پاکستانی فوج کے جنرل ہیڈ کوارٹر میں یوم دفاع کے حوالے سے ہونے والی تقریب میں کہے گئے ۔ تمام جرنیل موجود تھے تمام سیاسی لیڈرز موجود تھے ، گویا یہ قومی پالیسی کا اعلان تھا کہ اب پاکستان کسی کی جنگ نہیں لڑے گا ۔ لیکن کیا ایسا ہو گا کیا پاکستان اب کسی کی جنگ نہیں لڑے گا ۔ دوسروں کی جنگ لڑنے ، ان سے پیسے لینے اور ترقی اور زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ظاہر کرنے کی عادت ہو چکی ۔ یہ کوئی مذاق نہیں بلکہ بہت بڑا چیلنج ہے پوری قوم یہی چاہتی ہے ۔ لیکن اس کام میں حکومت کو تمام سیاسی جماعتوں اور پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینا ہو گا ۔ بہت سے ایسے گروہ ہیں جو جمہوریت پر یقین نہیں رکھتے ۔ انہیں بھی مذاکرات کے راستے ر ڈالنا ہو گا دوسروں کی جنگ کا نتیجہ یہی ہے کہ ایسے گروہ پیدا ہو گئے ہیں پاکستان ایک دفعہ نکل جائے پھر کسی اور کی جنگ ہم پرمسلط نہیں ہو سکے گی ۔ اس حوالے سے پاک فوج کا کردار بھی بہت اہم ہو گا لیکن فوج کو بہت سے ایسے معاملات سے دور ہونا پڑے گا جن میں وہ الجھ کر رہ گئی ہے ۔ سیاسی معاملات میں بھی فوج کا کردار بہت بڑھ گیا ہے بلکہ انتخابات 2018ء کے حوالے سے تو کئی الزامات کی زد میں بھی ہے ۔ فوج کو تو بیرونی جنگ اور اندرونی مصروفیات سے بھی جان چھڑانا ہو گی ۔ وزیر اعظم عمران خان نے یہ جو کہا ہے کہ سول ملٹری تعلقات میں کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ تو ان کا یہ کہنا بجا ہے ۔ بس انہیں کہنا چاہیے تھا کہ اب سول ملٹری تعلقات میں کوئی مسئلہ نہیں۔ انہوں نے فوج پر لگنے والے الزامات کو دھونے کی کوشش کی لیکن یہ ان کے لیے سوال بن گئی ہے کہ آپ کو اس کی ضرورت نہیں تھی۔ وزیر اعظم نے کہاکہ سیاسی مداخلت ادارے تباہ کرتی ہے۔ فوج عدم مداخلت اور میرٹ کے باعث محفوظ ہے۔وزیر اعظم نے پاکستان کے عوام کی عظیم اکثریت کی ترجمانی کرتے ہوئے یہ کہا کہ کامیابی اسوۂ حسنہ پر عمل سے ملے گی۔ یقیناًایسا ہی ہوگا لیکن جناب اسوۂ حسنہ پر عمل کرنے کے لیے خود کو اور اپنی ٹیم کو اسوۂ حسنہ کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔ قادیانیوں کو ٹیم میں شامل کرنے اور ان کے وکیلوں کی زبانوں کو کھلی چھوٹ دینے سے یہ کام نہیں ہوگا۔ وہ تو اللہ بھلا کرے دینی طبقات کا اور بقول وزیر اطلاعات دس لاکھ ووٹ لینے والے دباؤ ڈال رہے ہیں ۔ لہٰذا ان لوگوں کے دباؤ پر اقتصادی مشاورتی کونسل سے قادیانی میاں عاطف کا نام واپس لے لیا گیا ہے۔ وزیر اعظم اور پاک فوج بہرحال ایک پیج پر ہیں عمران خان چونکہ پہلی مرتبہ وزیر اعظم بنے ہیں اس لیے فوج سے کسی قسم کی تلخی یا اختلاف کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا یہ تو ان لوگوں کا معاملہ ہے جو بار بار حکومت میں آتے ہیں انہیں جو تجربات ہوتے ہیں ان کی روشنی میں سول ملٹری تعلقات بگڑتے سنورتے ہیں۔ اب عمران خان کا میٹر چلنا شروع ہوا ہے ان کے ملٹری کے ساتھ معاملات کیسے رہتے ہیں اس کا انحصار ان کے اور ان کی ٹیم کے رویے پر ہوگا۔ فی الحال تو سب ایک پیج پر ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا نے عمران خان کی جانب سے کسی دوسرے کی جنگ نہ لڑنے کے اعلان کو نئے معنی پہنائے ہیں کہ عمران خان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو دوسرے کی جنگ قرار دیا ہے۔ عمران خان، آرمی چیف اور فوجی قیادت کے سامنے یہ کیسے کہہ سکتے ہیں۔ ہمارے خیال میں تو پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جو جنگ جاری ہے وہ کسی اور کی جنگ ہی کا شاخسانہ ہے۔ اگر جنرل پرویز کے دور میں پاکستان نے کسی اور کی جنگ اپنے سر نہ لی ہوتی تو پورا پاکستان نہ ادھیڑنا پڑتا۔ دوسرے کی جنگ ختم ہوگی تو دہشت گردی کے خلاف جنگ کی بھی ضرورت نہیں رہے گی۔ بہرحال یہ نیا چیلنج نئی حکومت اور عسکری ذمے داران کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔ خدا کرے کہ اس میں انہیں کامیابی ہو اور پاکستان آئندہ کبھی کسی اور کی جنگ نہ لڑے۔ سب سے بڑی کامیابی تو یہ ہے کہ اس بات کاشعور اور احساس تو ہوا کہ پاکستان کو دوسروں کی جنگ نہیں لڑنا چاہیے۔