کاش! یہ فسادی نہ ہو

304

پیپلز پارٹی کے ممتاز رہنما خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ عمران خان وزیراعظم ہاؤس سے اپنے گھر بنی گالا دن میں دو بار ہیلی کاپٹر سے آتے جاتے ہیں جس پر 6 لاکھ روپے یومیہ خرچ ہوتا ہے اور 11 گاڑیوں کے پروٹوکول میں سفر کرتے ہیں ان کے دعوے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے بجائے تنزلی کی طرف لے کر جارہے ہیں، ان حالات میں ایک کروڑ ملازمتیں اور 50 لاکھ گھر بنانے کا دعویٰ محض دعویٰ ہی رہے گا۔ جمہوری ممالک میں اگر کوئی حکومت قوم سے کیے گئے وعدے پورے نہ کرے تو نااہل قرار دے دی جاتی ہے اور عمران خان نے بھی اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ اگر وہ اپنے وعدے پورے نہ کرسکے تو گھر چلے جائیں گے۔ وفاقی وزیر اطلاعات چودھری فواد کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان ہیلی کاپٹر پر سفر کرکے کفایت شعاری اور سادگی کے دعوے کی تکمیل کررہے ہیں۔ موصوف نے یہ حیرت انگیز انکشاف بھی کیا ہے کہ ہیلی کاپٹر کا سفر کار کے سفر بلکہ چنگچی کے سفر سے بھی سستا ہے۔ کون سچ بول رہا ہے؟ کون قوم کو گمراہ کررہا ہے؟ اس معاملے میں کوئی کمیٹی تشکیل دینے کی ضرورت نہیں کیوں کہ حقیقت سے قوم کا بچہ بچہ واقف ہے کہ دونوں ہی سیاست سیاست کھیل رہے ہیں اور اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ وزیراعظم عمران خان کی کفایت شعاری اور سادگی قابل داد ہے۔ ان کی کفایت شعاری اور سادگی گاندھی جی کی کفایت شعاری اور سادگی کی نمائندگی کررہی ہے۔ شنید ہے گاندھی جی کی بکری خشک میوہ جات کھاتی تھی اور دودھ پیتی تھی ہم اسے گاندھی جی کے خلاف پروپیگنڈا ہی سمجھتے تھے مگر جب سے قربانی کے جانوروں کے مالکوں کو یہ دعویٰ کرتے دیکھا اور سنا ہے کہ انہوں نے ان جانوروں کو بڑی محبت اور محنت سے پالا پوسا ہے، بادام اور دودھ پر ان کی پرورش کی ہے اور مکھن تو ان کی پسندیدہ خوراک ہے اسی لیے ان کی قیمتیں اتنی چکنی ہیں کہ گاہکوں کے ہاتھوں سے پھسل جاتی ہیں۔ گاندھی جی بھی سیکورٹی کے قائل نہیں تھے وہ اسے فضول خرچی اور ذاتی نمائش قرار دیا کرتے تھے مگر جب ٹرین سے سفر کرتے تھے تو دو اگلے ڈبے، دو پچھلے ڈبے سیکورٹی کے لیے مختص ہوتے تھے اور درمیان کے پانچویں ڈبے میں گاندھی جی بیٹھتے تھے۔ ان کی کفایت شعاری اور سادگی قوم کو بہت مہنگی پڑتی تھی۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ سردار عثمان خان بزدار بھی اسی طرح کی کفایت شعاری کا اظہار کررہے ہیں، وزیراعظم عمران خان کا فرمان ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان خان کو تین ماہ تک کھل کر کھیلنے دیں پھر سبھی لوگ ان کی تعریف کیا کریں گے۔
وزیراعظم عمران خان ہیلی کاپٹر سے اپنے گھر بنی گالا آتے جاتے ہیں تو اس پر تنقید کرنے کے بجائے اس کے مثبت پہلو پر غور کرنا چاہیے۔ سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ اگر وزیراعظم عمران خان کار سے سفر کریں تو پروٹوکول سے قوم کو جو پریشانی ہوگی اس سے سبھی واقف ہیں حالاں کہ جس طرح کا پروٹوکول حکمرانوں کو دیا جاتا ہے دنیا کے کسی ملک میں دکھائی نہیں دیتا اگر وزیراعظم عمران خان اپنے احکامات پر عمل درآمد کرانے میں کامیاب ہوگئے تو اس سے قوم خوش دل ہوجائے گی اور ملک بھی سیاسی بحرانوں سے نکل سکتا ہے۔ عام مشاہدہ ہے بلکہ روایت ہے کہ رکن اسمبلی بننے کے بعد سیاست دانوں کو دنیا بھر کی بیماریاں گھیر لیتی ہیں اور علاج معالجے کے لیے بیرون ملک چلے جاتے ہیں، ان کی بیماری پر خرچ ہونے والی رقم قومی خزانے سے ادا کی جاتی ہے، سیاست دان قرض لے کر معاف کرالیتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کا دعویٰ ہے کہ وہ کسی کا قرض معاف کریں گے نہ کسی کے بیرون ملک علاج معالجے کا خرچ قومی خزانے سے ادا کریں گے مگر جب ہم ان کے احکامات اور طرز حکمرانی پر غور کرتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ ان کا بیانیہ صرف سیاسی بیان ہی ہے کیوں کہ زبیدہ جلال اور فہمیدہ مرزا کے قبیل کے لوگوں سے قرض کی رقم وصول کرنے کے بجائے ان کے سروں پر حکمرانی کا تاج رکھ دیا گیا ہے، قول و فعل کا یہ تضاد کیا ثابت کرتا ہے اور اس کا ردعمل کیا ہوگا؟ وزیراعظم عمران خان کو اس پر غور کرنا چاہیے، انہوں نے صوابدیدی اختیار بھی ختم کرنے کا اعلان کیا ہے اگر یہ فرمان فسادی نہ ہو تو قوم کو سیاسی جیب تراشوں کے ظلم و ستم سے نجات مل سکتی ہے ورنہ۔۔۔ شراب کی بوتل سے شہد اور زیتون کا تیل ہی برآمد ہوتا رہے گا۔