ستمبر کا مہینہ اپنے ساتھ شہیدہ ’’مروہ شربینی‘‘ کی یاد لاتا ہے۔ جن کو تمام مسلم خواتین نے ’’شہیدۂ حجاب‘‘ کا لقب دیا اُن کا جرم اس کے سوا کیا تھا کہ وہ شعارِ اسلامی حجاب کو اُتارنا نہیں چاہتی تھیں، غیر مسلم معاشرہ جس کو اپنی آزاد خیالی پر ناز ہے اور جو اپنے سیکولر اور لبرل ہونے کا ڈھول پیٹتے نہیں تھکتا اس کو کپڑے کا ایک ٹکڑا برداشت کرنا مشکل ہوگیا۔ لہٰذا عین عدالت کے کمرے میں انہیں جج کے سامنے شہید کردیا گیا۔ کپڑے کا یہ ٹکڑا جس کو حجاب کہتے ہیں مسلم خواتین کا شعار ہے۔ لیکن متعدد لوگ جن میں مسلم اور غیر مسلم دونوں طرح کے لوگ شامل ہیں اور اپنے آپ کو سیکولر اور لبرل کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ وہ کپڑے کے اس ٹکڑے کے لیے نامناسب الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ اُن کے خیال میں حجاب ظلم و ستم اور تقسیم کا نشان ہے۔ لیکن بحیثیت مسلمان ان کے لیے یہ کہنا مناسب نہیں کیوں کہ اسلام میں حجاب پر بحث و مباحثے کی گنجائش نہیں۔ لیکن مغربی ممالک میں ’’حجاب‘‘ بحث کا ایک آسان ہدف سمجھا جاتا ہے۔
کالج کی ایک نوجوان خاتون استاد نے بتایا کہ وہ جب پہلی دفعہ نوجوان طلبہ کو لیکچر دینے گئیں تو وہ باحجاب تھیں اور انہوں نے اس کے باعث اپنے آپ کو بہت محفوظ محسوس (سیوفیل) کیا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ یہ کیسے ممکن ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ میں مکمل طور پر پردہ میں تھی جس سے مجھے کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ انہوں نے اس سلسلے میں مزید بات کرتے ہوئے کہا کہ شاید یہ ایک فطری بات ہے کہ ہر لڑکی حجاب میں اپنے آپ کو محفوظ محسوس کرتی ہے مگر مشکل یہ ہے کہ معاشرے کے دباؤ کے باعث حجاب لینے کے لیے تیار نہیں ہوپاتی۔ حجاب کے سلسلے میں دن منانے کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ اس کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کیا جاسکے۔ یہ دن مسلم اور غیر مسلم دونوں خواتین کو دعوت دیتا ہے کہ وہ روایتی حجاب پہن کر دیکھیں اور اس کے خوشگوار اثرات کو محسوس کریں۔ یقیناًاس عمل سے مزید مذہبی برداشت اور یگانگت پیدا ہوگی۔ اس سال یوم حجاب کے ساتھ ساتھ عشرہ حجاب بھی منانے کا اعلان کیا گیا ہے، یہ عشرہ یکم سے دس ستمبر تک منایا جائے گا۔ پچھلے برسوں میں غیر مسلم معاشرے میں حجاب استعمال کرکے دیکھنے کی تحریک کی ابتدا ایک بنگلادیشی خاتون نے کی تھی۔ یہ ’’ناظمہ خان‘‘ تھیں جنہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ کے ذریعے اس تحریک کو منظم کیا اور جس نے پوری دنیا میں مسلم اور غیر مسلم خواتین کو متاثر کیا۔ عشرہ حجاب کے یہ دن مسلم خواتین کے علاوہ غیر مسلم خواتین کے لیے بھی ایک موقع ہیں جو عام طور پر حجاب استعمال نہیں کرتیں، حالاں کہ اس کی افادیت سے واقف ہیں، خاص طور سے مسلم خواتین جو دل میں اس کو استعمال کرنے کی خواہش رکھتی ہیں لیکن برسرعام استعمال کرنے سے جھجھکتی ہیں۔
ناظمہ خان بتاتی ہیں کہ جب وہ گیارہ سال کی عمر میں بنگلادیش سے نیویارک آئیں تو اُن کے ساتھ حجاب کے استعمال کے باعث بُرا سلوک روا رکھا گیا، وہ نیویارک کے ایک اسکول میں پڑھتی تھیں تو انہیں ’’حجابی لڑکی‘‘ کہا جاتا تھا۔ جب وہ مڈل اسکول میں آئیں تو انہیں بیٹ وویمن اور ننجا کے نام سے پکارا جانے لگا، پھر جب ستمبر 2001ء آیا تو وہ کالج میں تھیں تو انہیں اسامہ بن لادن اور دہشت گرد کہا جانے لگا۔ مغرب کا معاشرہ حجاب کے بارے میں انتہائی غلط فہمی کا شکار رہا ہے۔ لہٰذا انہوں نے اس کے لیے ایک مثبت مہم چلانے کا سوچا۔ انہیں یقین ہے کہ ان کی مہم خواتین کے لیے مثبت اثرات کا سبب بنے گی۔ پوری دُنیا میں اس بارے میں حمایت موجود ہے۔ برطانیہ، آسٹریلیا، بھارت، فرانس اور جرمنی کے درجنوں افراد نے اُن سے رابطہ کیا ہے۔ برطانیہ کی نوروچ یونیورسٹی کی اکیس سالہ طالبہ جیسی روڈز ایک ایسی ہی غیر مسلم لڑکی ہیں وہ کہتی ہیں کہ اُن کی دوست نے انہیں حجاب پہننے کا موقع فراہم کیا پھر اس کے بعد انہوں نے اس کا استعمال شروع کیا۔ جیسی کے مطابق اُن کی دوست نے انہیں اس بات کی یقین دہانی کروائی کہ حجاب استعمال کرنے کے لیے مسلمان ہونا ضروری نہیں ہے اور یہ ظاہری طور پر ہر عورت کے لیے ایک حفاظتی حصار ہے۔ جیسی ان ہزاروں غیر مسلم خواتین میں سے ایک تھیں جنہوں نے حجاب کے پہلے عالمی دن کے موقع پر حجاب پہنا۔ جیسی بتاتی ہیں کہ پہلے دن حجاب کے استعمال پر ان کے والدین اُن کے لیے فکر مند تھے کہ کہیں اُن پر حملہ نہ ہوجائے۔ وہ خود بھی اس بارے میں فکر مند تھیں، تاہم جب انہوں نے مسلسل آٹھ روز تک حجاب استعمال کیا تو انہیں اس کے مثبت پہلوؤں کے بارے میں پتا چلا۔ اب میں ہمیشہ حجاب پہننے کی کوشش کرتی ہوں تاہم میرے خیال میں ایک غیر مسلم عورت ہونے کی وجہ سے یہ اب محض ایک ایکشن نہیں ہے کیوں کہ اب مجھے اس کے مثبت پہلو معلوم ہیں۔
سوشل میڈیا پر اس مہم کو لے کر چلنے والوں کا خیال ہے کہ حجاب کے ساتھ محکوم کے لفظ کا استعمال زیادتی ہے اور وہ اس لفظ کے استعمال پر تنگ آگئے ہیں۔ خواتین کی اکثریت جن میں نو عمر بھی ہیں اور ادھیڑ عمر اور بوڑھی خواتین بھی اس دعوے کو مسترد کرتی ہیں کہ خواتین حجاب کا استعمال اپنے خاندان والوں کی زبردستی اور اصرار پر کرتی ہیں۔ اُن کے مطابق حجاب کو عالمی طور پر منانے کا مقصد دنیا کو یہ باور کرانا ہے کہ خواتین حجاب کا استعمال اپنی مرضی سے کرتی ہیں اور اس کے لیے انہیں ہر معاشرے میں مکمل آزادی ہونی چاہیے۔