عمران خان کے نئے پاکستان کے بارے میں چند باتیں متفقہ علیہ ہیں۔ ایک بات یہ ہے کہ عمران کا نیا پاکستان اسٹیبلشمنٹ کا پاکستان ہے، دوسری بات یہ کہ عمران کا نیا پاکستان Electables کا پاکستان ہے، تیسری بات یہ کہ عمران کا پاکستان سرمائے کا پاکستان ہے، چوتھی بات یہ کہ عمران کا پاکستان ایم کیو ایم جیسی دہشت گرد تنظیموں سے سمجھوتے کا پاکستان ہے، پانچویں بات یہ کہ عمران کا پاکستان تبدیلی کے نعرے اور تاثر کا پاکستان ہے، چھٹی بات یہ کہ عمران کا پاکستان بہرحال نیا پاکستان نہیں ہے۔ مگر جو بات کسی کو معلوم نہ تھی وہ یہ کہ عمران کا نیا پاکستان قادیانیوں کا پاکستان ہے۔
اس کا ثبوت عمران خان کی حکومت کے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری کی وہ گفتگو ہے جسے سن کر کوئی بھی مہذب شخص سوچ سکتا ہے کہ یہ آدمی بول رہا ہے یا بھونک رہا ہے؟۔ مگر فواد چودھری نے فرمایا کیا ہے؟۔
فواد چودھری کا کہنا ہے کہ اقتصادی امور سے متعلق عمران خان کی اٹھارہ رکنی مشاورتی کمیٹی میں ڈاکٹر میاں عاطف قادیانی کی شمولیت ہرگز قابل اعتراض نہیں۔ فواد چودھری کے بقول میاں عاطف قادیانی مبلغ ہیں تو کیا ہوا وہ اتنے قابل ہیں کہ چند سال پہلے انہیں معاشیات کے نوبل انعام کے لیے نامزد کیا جارہا تھا۔ فواد چودھری نے فرمایا کہ قادیانی مذہبی اقلیتی ہیں اور مذہبی اقلیت کو بحر عرب میں نہیں پھینکا جاسکتا۔ انہوں نے کہا کہ قائد اعظم نے سر ظفر اللہ کو وزیر خارجہ بنایا تھا اور ہم قائد اعظم کی پیروی کررہے ہیں۔ انہوں نے کسی امریکی اور برطانوی کی طرح اعلان کیا کہ جو لوگ میاں عاطف کی مخالفت کررہے ہیں وہ انتہا پسند ہیں اور ہم انتہا پسندوں کے آگے نہیں جھکیں گے۔ ویسے تو پی ٹی آئی اور نواز لیگ ایک دوسرے کا منہ نہیں دیکھ سکتیں مگر قادیانیوں کی سرپرستی میں عمران خان اور میاں نواز شریف کی پارٹیاں ہم آواز ہیں۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر ایاز صادق میاں عاطف قادیانی کی حمایت کررہے ہیں اور میاں نواز شریف کے ارسطو احسن اقبال نے صاف کہا ہے کہ مذہب اور میرٹ دو الگ چیزیں ہیں اور انہیں باہم ملانا نہیں چاہیے۔ معروف کالم نگار جاوید چودھری حمام میں ہم بھی ننگے ہیں کا نعرہ لگاتے ہوئے سامنے آکھڑے ہوئے ہیں اور انہوں نے میاں عاطف قادیانی کی حمایت میں پورا کالم لکھ ڈالا ہے۔ انہیں اس حوالے سے رسول اکرمؐ اور عبداللہ ابن ابئی کا تعلق یاد آگیا ہے اور انہوں نے فرمایا ہے کہ رسول اکرمؐ نے منافق اعظم ہونے کے باوجود عبداللہ ابن ابئی کو مدینے سے نہیں نکالا تھا۔ جاوید چودھری نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ ہم جب غیر مسلموں سے ہر چیز لے سکتے ہیں تو ڈاکٹر میاں عاطف کا مفت مشورہ لینے میں کیا مضائقہ ہے۔ اس سلسلے کی ایک کڑی یہ ہے کہ نظریہ پاکستان اور علامہ اقبال کی فکر کی علمبرداری کے دعویدار روزنامہ نوائے وقت نے 6 ستمبر 2018ء لاہور ایڈیشن میں قادیانیوں کی جماعت کا ایک اشتہار شائع کر ڈالا ہے۔ جس میں قادیانی جماعت نے اپنے 14 فوجی سپوتوں کی تصاویر شائع کرکے بتایا ہے کہ پاکستان کے دفاع کے لیے قادیانیوں نے بھی ’’شہادتیں‘‘ پیش کی ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو عمران خان کے اقتدار میں آتے ہی پورے ملک میں ’’قادیانی زندہ باد‘‘ مہم برپا ہوگئی ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ ملک میں ’’Qadinization‘‘ کا عمل شروع ہوچکا ہے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ’’قادیانستان‘‘ بنانے کی سازش ہورہی ہے۔
اسی بحث کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ قادیانی ’’مذہبی اقلیت‘‘ نہیں ہیں۔ مذہبی اقلیت ہندو ہیں، عیسائی ہیں، سکھ ہیں، بدھسٹ ہیں۔ چناں چہ عمران خان کو مذہبی اقلیتوں کی ’’دلجوئی‘‘ کا زیادہ ہی خیال ہے تو وہ جس ہندو، عیسائی، سکھ اور بدھسٹ کو چاہیں اپنا وزیر اور مشیر بنالیں، کسی مسلمان اور کسی پاکستانی کو اس پر رَتی برابر بھی اعتراض نہ ہوگا۔ قادیانیوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ مذہبی اقلیت نہیں ’’اسلام کے غدار‘‘ ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ختم نبوت کے منکر ہیں، اس پر طرہ یہ کہ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ جو ان کے (جھوٹے) نبی مرزا غلام احمد قادیانی پر ایمان نہیں لاتا وہ کافر اور گمراہ ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو قادیانی خدا کے غدار ہیں اس لیے کہ خدا نے رسول اکرمؐ کو آخری نبی بنایا، قادیانی رسول اکرمؐ کے غدار ہیں اس لیے کہ وہ آپؐ کو خاتم الانبیا تسلیم نہیں کرتے۔ قادیانی پوری اُمت کے غدار ہیں اس لیے کہ وہ پوری امت کی طرح رسول اکرمؐ کو آخری نبی نہیں مانتے۔ قادیانی اس لیے بھی پوری اُمت کے غدار ہیں کہ وہ پوری امت کو کافر اور گمراہ خیال کرتے ہیں، قادیانی پاکستان کے بھی غدار ہیں، اس کی مثال آگے آرہی ہے۔ تاریخ کا سبق اور تجربہ یہ ہے کہ انسان دشمن اور حریف کو معاف کردیتا ہے مگر غدار کو معاف نہیں کرتا۔ کیا دنیا کی کسی حکومت نے آج تک غدار کو معاف کیا ہے؟ کیا دنیا کی کسی ریاست نے آج تک غدار کو سینے سے لگایا ہے؟ حکومت اور ریاست تو بڑی چیز ہیں افراد اور ادارے تک غداروں کو معاف نہیں کرتے۔ الطاف حسین ریاست پاکستان کے غدار تو بہت پہلے سے تھے مگر ریاست پاکستان نے کبھی ان کی زبان بند نہ کی نہ ان کی سیاست پر تالا ڈالا۔ مگر الطاف حسین نے جرنیلوں کو گالیاں دیں تو ان کی ہر چیز Ban ہوگئی۔ چلیے جرنیلوں کو ریاست اور اس کے باشندوں کی نہ سہی اپنی فکر تو ہوئی۔ یہاں کہنے کی بات یہ ہے کہ پابندی ٹھیک لگائی گئی اور اس سے ثابت ہوگیا کہ غداری کو کوئی برداشت نہیں کرتا۔ عمران خان نے ریحام خان کو طلاق دی تو اس کی وجہ بھی ریحام کی ’’غداری‘‘ تھی۔ ذرا کوئی پاکستانی جرنیلوں سے کہہ کر دیکھے کہ وہ ایک بار پھر الطاف حسین کو پاکستان کی سیاست میں اہم کردار دے دیں، ذرا کوئی عمران خان سے کہے کہ وہ ریحام خان کو بحر عرب میں کیوں پھینکے دے رہے ہیں وہ انہیں اور کچھ نہیں تو اپنا دوست اور مشیر ہی بنالیں۔ ظاہر ہے کہ یہ دونوں باتیں ناممکن ہیں مگر عمران خان کے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات اللہ، اس کے رسولؐ، اللہ کے دین اور پوری امت کے غداروں یعنی قادیانیوں کے لیے دل کو کسی براعظم کی طرح کشادہ کیے ہوئے ہیں۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ فواد چودھری کا دل اللہ، اس کے رسولؐ، اللہ کے دین اور پوری امت کے غداروں کے غم میں ڈوبا ہوا
ہے او روہ پوچھ رہے ہیں کہ کیا ہم قادیانیوں کو بحر عرب میں پھینک دیں؟ عمران خان اور فواد چودھری جیسے لوگوں کو پڑھنے لکھنے سے کوئی کام نہیں، ہوتا تو انہیں معلوم ہوتا کہ حریفوں نے تاریخ میں اپنے دشمنوں اور غداروں کے ساتھ کیا کیا ہے؟ سفید فاموں نے امریکا پر قبضے کے بعد صرف 10 کروڑ انسانوں کو قتل کیا۔ آسٹریلیا میں سفید فاموں نے 45 لاکھ ایب اوریجنلز کو مار ڈالا۔ چین میں انقلاب آیا تو انقلابیوں نے صرف چار کروڑ غدار سرمایہ داروں کو قتل کیا۔ روس میں 80 لاکھ غدار جاگیردار اور سرمایہ دار انقلاب کی نذر ہوئے۔ ہٹلر نے 60 لاکھ یہودیوں کو غدار قرار دے کر صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ مگر پاکستان میں کوئی نہیں کہہ رہا کہ قادیانیوں کو یا ڈاکٹر میاں عاطف کو مار ڈالو یا بحر عرب میں پھینک دو۔ اہل پاکستان صرف یہ کہتے ہیں کہ قادیانی غدار ہیں اور انہیں ریاستی امور سے دور رکھا جائے۔ یہی بات ڈاکٹر میاں عاطف کے بارے میں کہی جارہی ہے۔ فواد چودھری نے اس سلسلے میں ظفر اللہ کو وزیر خارجہ بنائے جانے کی مثال دی ہے اور فرمایا ہے کہ ہم تو قائد اعظم کے راستے پر چل رہے ہیں۔ یہ منہ اور مسور کی دال۔ قائد اعظم اگر تھوک دیتے تو چالیس پچاس عمران خان وجود میں آجاتے، فواد چودھری کی تو اوقات ہی کیا ہے؟ بلاشبہ قائد اعظم نے سر ظفر اللہ کو وزیر خارجہ بنایا۔ آج سے 70 سال قبل قادیانیت ایک بالکل نیا فتنہ تھی اور اس کے عقاید اور مقاصد کا شعور عام نہیں تھا۔ ہوتا تو قائد اعظم سر ظفر اللہ کو وزیر خارجہ کیا کونسلر بھی نہ بناتے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ قائد اعظم کی اکلوتی اولاد دینا نے ایک پارسی سے شادی کرلی تھی، سیکولر اور لبرل عناصر کی تعبیر کے اعتبار سے اس میں کوئی بھی غلط بات نہ تھی اور قائد اعظم کو اپنی بیٹی کی خوشی میں شریک ہوجانا چاہیے تھا مگر قائد اعظم کو معلوم تھا کہ اسلام کسی مسلم لڑکی کو یا اس لڑکے سے شادی کی اجازت نہیں دیتا۔ چناں چہ انہوں نے اپنی اکلوتی بیٹی سے قطع تعلق کرلیا اور اس کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھی۔ قائد اعظم سے راجا صاحب محمود آباد نے پوچھا کہ پاکستان میں فقہ کس کی چلے گی۔ قائد اعظم مسکرائے فرمایا اکثریت کی فقہ۔ قائد اعظم کوٹ پتلون پہننے والے تھے مگر انہوں نے اپنی قوم کی تہذیب کے اقرار میں شیروانی پہنی۔
قائد اعظم کی مادری زبان گجراتی تھی، ان کا ذریعہ تعلیم ہمیشہ انگریزی رہی۔ قائد اعظم اردو کا اسکرپٹ بھی نہیں پڑھ سکتے تھے۔ مگر انہوں نے صاف کہا پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہوگی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قائد اعظم پوری زندگی اپنے مذہب اور تہذیب کے مرکزی دھارے سے وابستہ رہے۔ انہیں قادیانیوں کے بارے میں پوری معلومات ہوتیں تو وہ قادیانیت کی اسی طرح مذمت کرتے جس طرح عام مسلمان قادیانیت کی مذمت کرتے ہیں۔ یہاں کہنے کی ایک بات یہ ہے کہ ہر شعبہ علم کا فیصلہ اس شعبے سے وابستہ اتھارٹی کرتی ہے۔ علم طب کے سلسلے میں ڈاکٹر سے رجوع کیا جاتا ہے، گھر بنانے کے لیے انجینئر سے رابطہ کیا جاتا ہے، کھیل کے سلسلے میں کھلاڑی کی رائے پر انحصار کیا جاتا ہے۔ قائد اعظم نے کبھی خود کو ’’عالم دین‘‘ نہیں کہا، چناں چہ اصولی اعتبار سے ہمیں دین کے سلسلے میں قائد اعظم سے نہیں علما سے رجوع کرنا چاہیے، یہ بات کون نہیں جانتا کہ صرف پاکستان کے نہیں پوری امت کے علما کا اسی بات پر اجماع ہے کہ قادیانی غیر مسلم ہیں اور اسلام کے غدار ہیں۔
کتنی عجیب بات ہے کہ جس پارٹی کو 25 سال سے میرٹ نے چھوا بھی نہیں اس کا رہنما یعنی احسن اقبال ایک قادیانی کے سلسلے میں میرٹ کی دہائی دے رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ مذہب اور میرٹ کو الگ الگ رکھا جائے۔ فواد چودھری اور جاوید چودھری نے بھی اس ضمن میں میرٹ، میرٹ کا شور مچایا ہے۔ کمال ہے ان لوگوں پر جنہیں اپنے مذہب، اپنی تہذیب اور اپنی تاریخ کی میرٹ کا تو رتی برابر خیال نہیں البتہ میاں عاطف کی ’’اقتصادی میرٹ‘‘ انہیں دیوانہ کیے ہوئے ہے۔ بھارت کی خفیہ ایجنسی ’را‘ کا ’’میرٹ‘‘ یہ ہے کہ وہ 1969ء میں قائم ہوئی اور اس نے 1971ء میں پاکستان کو دولخت کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ’را‘ کے کسی سربراہ کو آئی ایس آئی کا سربراہ یا کم از کم پاکستان میں سیکورٹی ایڈوائزر بنادیا جائے۔ پاکستان میں اگر میرٹ کچھ ہوتی تو پاکستان میں نواز شریف، بے نظیر بھٹو اور عمران خان جیسے لوگ وزیراعظم فواد چودھری، احسن اقبال جیسے لوگ وفاقی وزیر اور جاوید چودھری جیسے لوگ کالم نگار تھوڑی ہوتے۔
جاوید چودھری نے اس بحث میں رسول اکرمؐ اور عبداللہ ابن ابئی کی مثال بھی دی ہے۔ رسول اکرمؐ رحمت اللعالمین تھے، آپؐ بے حد نرم خو تھے، آپؐ نے فتح مکہ کے بعد عام معافی کا اعلان کیا مگر اسلام اور رسول اکرمؐ کے کچھ ایسے غدار تھے جن کے بارے میں آپؐ نے ہدایت کی کہ یہ لوگ خانہ کعبہ میں چھپے ہوئے ہوں تو انہیں قتل کردیا جائے، اور ایسا ہی ہوا۔ بعض غداروں کو خانہ کعبہ میں گھس کر واصل جہنم کیا گیا، بلاشبہ رسول اکرمؐ نے عبداللہ ابن ابئی کو ریاست مدینہ سے نہ نکالا مگر آپؐ نے اسے ’’مشیر‘‘ بھی نہ بنایا۔ آپؐ حد درجہ نرم خو تھے اس لیے آپؐ نے عبداللہ ابن ابئی کی نماز جنازہ پڑھا دی۔ مگر اس کے بعد وحی آگئی اور آپؐ کو حکم دے دیا گیا کہ آئندہ کسی منافق کی نماز جنازہ نہ پڑھائی جائے۔ غزوہ بدر میں رسول اکرمؐ اور سیدنا ابوبکرؓ کی رائے یہ تھی کہ جنگی قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے۔ سیدنا عمرؓ کی رائے یہ تھی کہ کافروں اور مشرکوں کو قتل کیا جائے۔ ہوا تو وہی جو رسول اکرمؐ اور سیدنا ابوبکرؓ کی آرزو تھی مگر وحی نے تائید سیدنا عمرؓ کی رائے کو مہیا کی۔ سیدنا ابوبکرؓ کے عہد میں ایک قبیلے نے زکوٰۃ کو دینے سے انکار کیا، سیدنا ابوبکرؓ نے طاقت استعمال کی اور زکوٰۃ وصول کی۔ یہودی رسول اکرمؐ کے عہد مبارک ہی سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کررہے تھے مگر ان کو برداشت کیا جاتا رہا۔ یہاں تک کہ انہوں نے سیدنا عمرؓ کے عہد میں بھی اپنا سازشی کردار جاری رکھا۔ چناں چہ سیدنا عمرؓ نے یہودیوں کو اسلامی ریاست سے نکال باہر کیا۔ قادیانی ماضی کے غداروں سے بڑھ کر اسلام کے غدار ہیں۔ وہ ختم نبوت کے منکر ہیں، انہیں ایک جھوٹے نبی کی نسبت پر اصرار ہے۔ وہ پوری امت کو کافر اور گمراہ سمجھتے ہیں اور وہ ایک اسلامی ریاست میں اپنے جھوٹے مذہب کی تبلیغ کررہے ہیں۔ اصولی اعتبار سے تو انہیں ریاست بدر کردیا جانا چاہیے مگر ہماری دینی غیرت اتنی کم ہوچکی ہے کہ اس بات کا خیال بھی کسی کو نہیں آتا۔ لیکن بہرحال اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ قادیانیوں کو پاکستان پر مسلط کیا جائے اور ان کے لیے ’’انسانی ہمدردی کی آڑ‘‘ میں اسلام پر کلہاڑی چلائی جائے۔
جہاں تک قادیانیوں کے پاکستان دشمن ہونے کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں ملک کے سب سے مشہور قادیانی نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام کا واقعہ سب کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔ یہ واقعہ پاکستانی ایٹم بم کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر خان اپنے کالم میں تحریر کرچکے ہیں۔ واقعے کے مطابق پاکستان کے سابق وزیر خارجہ صاحب زادہ یعقوب خان امریکا کے دورے پر گئے تو امریکیوں نے ان سے کہا کہ پاکستان ایٹم بم بنارہا ہے، صاحب زادہ یعقوب خان نے اس کی تردید کی۔ چناں چہ امریکی صاحب زادہ یعقوب خان کو ایک مخصوص کمرے میں لے گئے اور انہوں نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی انتہائی خفیہ معلومات ایک فلم اور تصاویر کی صورت میں صاحب زادہ یعقوب خان کے سامنے رکھ دیں۔ صاحب زادہ یعقوب یہ دیکھ کر حیران بھی ہوئے اور انہیں خیال آیا کہ یہ معلومات اندر ہی کے کسی آدمی نے امریکا کو مہیا کی ہیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر کے بقول صاحب زادہ یعقوب بریفنگ سے فارغ ہوئے اور ایک کوری ڈور سے گزرتے ہوئے انہوں نے محض اتفاقاً مڑ کر دیکھا تو ڈاکٹر عبدالسلام ایک کمرے سے نکل کر کہیں جارہے تھے۔ اس سے صاحب زادہ کو معلوم ہوا کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے انتہائی خفیہ راز امریکیوں تک کیسے پہنچے۔ اگر ڈاکٹر عبدالسلام جیسے ’’پاکستانی‘‘ کا یہ عالم ہے تو پھر ڈاکٹر میاں عاطف قادیانی جیسے پاکستانی کی ’’پاکستانیت‘‘ کا کیا عالم ہوگا؟۔ جاوید چودھری نے اپنے کالم میں ماتم کیا ہے اگر ہم ڈاکٹر میاں عاطف سے مفت مشورہ بھی نہیں لے سکتے تو آخر ہم کیا کرنا چاہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ عمران کی 18 رکنی مشاورتی کمیٹی سے اگر ایک میاں عاطف نکل جائیں گے تو کون سی قیامت آجائے گی۔ آخر ملک اور دنیا میں ماہرین معاشیات کی کیا کمی ہے۔ عمران خان ان کے وزیر خزانہ اسد عمر، فواد چودھری یا کسی خلائی مخلوق کو اگر قادیانیوں سے زیادہ ہی عشق ہے تو وہ ڈاکٹر میاں عاطف سے ہر روز ٹیلی فون پر مشورے مانگ لیا کرے۔ روزنامہ امت کی خبر کے مطابق ڈاکٹر میاں عاطف مرزا غلام احمد قادیانی کے پڑپوتے ہیں۔ اگر یہ اطلاع درست ہے تو مرزا غلام احمد قادیانی اپنے پڑپوتے کی صورت میں پاکستان کے ریاستی ڈھانچے کا حصہ بن چکے ہیں۔ اگر ڈاکٹر عاطف مرزا غلام احمد قادیانی کے پڑپوتے نہیں ہیں تو بھی ان کے جھوٹے نبی کا ایک ارشاد عمران خان، اسد عمر، فواد چودھری، ایاز صادق اور احسن اقبال کی خدمت میں عرض ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے ’’فرمایا‘‘ ہے۔
’’سچا دین قادیانیوں کا اور اسلام (معاذاللہ) جھوٹا ہے۔ میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھ سے زیادہ بیزار اس مذہب سے کوئی نہ ہوگا۔ میں ایسے مذہب کا نام شیطانی مذہب رکھتا ہوں اور ایسا مذہب جہنم کی طرف جاتا ہے‘‘۔
(اداریہ روزنامہ جسارت۔ 6 ستمبر 2018)
اسی اداریے کا ایک اور فقرہ عمران خان، اسد عمر، فواد چودھری، ایاز صادق اور احسن اقبال کی نذر۔
’’فواد چودھری کو معلوم نہیں کہ قادیانی فتنے کے بانی غلام قادیانی نے تمام مسلمانوں کو رنڈی کی اولاد قرار دیا ہے‘‘۔
اس فقرے کے تناظر میں عمران خان، اسد عمر، فواد چودھری، جاوید چودھری، ایاز صادق اور احسن اقبال کی مذہبی، اخلاقی، علمی، تہذیبی، سیاسی، لبرل اور سیکولر ’’ذمے داری‘‘ یہ ہے کہ وہ ڈاکٹر میاں عاطف سے استفادے اور ان کی حمایت سے قبل ان سے پوچھ لیں گے کہ مسلمانوں کی حیثیت سے آپ ہمارے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر میاں عاطف میں جرأت ہوگی تو وہ اپنے جھوٹے نبی کی رائے دہرانے سے گریز نہیں کریں گے۔