آئین میں اردو کو قومی زبان کا درجہ حاصل ، تو پھر نفاذ پر شرمندگی کیوں؟ 

117

لاہور(وقائع نگار خصوصی) اردو کو بین الصوبائی تہذیبوں کے درمیان نہ صرف پُل کا مقام بلکہ اسے اپنی رسم الخط اور حروف کے حوالے سے بھی بے پناہ قوت حاصل ہے ۔ جو قومیں اپنی زبان بھول جاتی ہیں وہ ہمیشہ گونگی بہری رہتی ہیں ۔ ہمیں اپنی زبان پر نادم رہنے کے بجائے اس پر فخر کرنا چاہیے تاکہ دنیا میں اس کی حیثیت متعین ہوسکے ۔ زبان اور تشخص کا تحفظ نہ ہونے کی وجہ سے اردو اقلیتی زبان بن کررہ گئی ہے ۔ان خیالات کا اظہارامیر جماعت اسلامی پنجاب و چیئرمین غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ پنجاب میاں مقصود احمد نے گزشتہ روز غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے زیر اہتمام ’’یوم قومی زبان‘‘ کی مناسبت سے منعقدہ خصوصی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ تقریب میں ڈائریکٹر جنرل پنجاب ہائیر ایجوکیشن کمیشن شاہد سرویا اور سابق وزیر تعلیم میاں عمران مسعود مہمان خصوصی تھے ۔ تقریب سے خطاب ہوئے میاں مقصود احمد نے مزیدکہاکہ بچے کے سیکھنے کے عمل میں زبان بنیادی کردار ادا کرتی ہے لیکن انہیں حصول تعلیم کے دوران ماحول کی زبان میں تعلیم نہیں دی جاتی جس کی وجہ سے اسے مشکل پیش آتی ہے حالانکہ بچہ اپنی ماحول کی زبان میں زیادہ بہتر انداز میں تعلیم حاصل کر سکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم پرائمری سطح پر بچوں کو اپنی زبان میں تعلیم سے محروم کر کے انہیں ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ نجی شعبہ میں یہ غلط تاثر جنم لے چکا ہے کہ اچھی تعلیم صرف انگریزی میں ہی دی جا سکتی ہے مگر اس امر کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ انگریزی میڈیم تعلیمی اداروں میں بھی بچوں کے ساتھ ابلاغ اردو میں ہی ہوتا ہے ۔ ہمارے ملک میں اردو کی حیثیت ایک تہذیبی زبان کے طور پر بدستور موجود ہے تاہم سرکاری زبان کے طور پر اس کی راہ میں انگریزی زبان برابر حائل ہے ۔ اس موقع پر صدر پاکستان قومی زبان تحریک عزیز ظفر آزاد ، ڈاکٹر طاہر سراج ، اوریامقبول جان ، ڈاکٹر عارفہ صبح خان ، تجزیہ کار سلمان عابد ، مذہبی سکالر ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی ، سینئر صحافی سید سجاد کاظمی، ایڈووکیٹ اللہ بخش لغاری ، ماہر تعلیم اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر ٹرسٹ سید عامر جعفری اور دیگر مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ کسی زبان کو سرکاری اور دفتری زبان ہونے کا مقام صرف ان حالات میں دیا جاتا ہے جب درس و تدریس کے نظام میں اس زبان کو مرکزی حیثیت حاصل ہو جبکہ صورتحال یہ ہے کہ لازمی ذریعہ تعلیم کے طور پر انگریزی زبان کو ایسی مرکزی حیثیت طویل عرصہ سے حاصل رہی ہے کیونکہ ہمیں یہ زبان اساسی اور بنیادی زبان کے طور پر ورثہ میں ملی ہے ۔ لہٰذا جب تک اس مقام میں ردوبدل نہیں ہوگا اردو زبان کی دشواریاں دور نہیں ہو سکتیں ۔ ڈاکٹر عارفہ صبح خان ، سلمان عابد ، سجاد کاظمی اور سعد اللہ شاہ نے کہا کہ ہمارے ہاں قومی اور سرکاری زبان کا تضاد نمایاں ہے ۔ یہ تضاد محض دو زبانوں کا تضاد نہیں بلکہ ہماری تہذیب کے اندر موجود رویوں کا تضاد ہے ۔ عزیز ظفر آزاد ، ڈاکٹر طاہر سراج ، میاں مقصود احمد اور دیگر نے مسئلہ کے حل کیلیے انگریزی زبان کو ثانوی زبان کا درجہ دینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ انگریزی کی افادیت سے انکار نہیں بلکہ اس کی بالادستی پر اعتراض ہے ۔ انہوں نے کہا کہ انگریزی لسانی جبر ہے ، اس کی بالادستی ختم کرکے اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دیا جائے ۔ تقریب میں قومی زبان کے تحفظ اور اس کے عملی نفاذ کے حوالے سے شرکاء نے اپنی اپنی تجاویز دیں اور کہا کہ پاکستان کے آئین میں کہا گیا ہے کہ اردو پاکستان کی قومی زبان ہوگی ، تو پھر اس کے نفاذ کے معاملے میں شرمندگی کیوں محسوس کی جاتی ہے ۔ اردو کو یتیم کرنے کا تماشا اب بند ہونا چاہیے ۔ اس ضمن میں انہوں نے اردو کے فروغ کیلیے کتب کے اردو تراجم کی ضرورت پر بھی زور دیا اور کہا کہ یہ اردو کی بڑی خدمت ہوگی ۔