کراچی(اسٹاف رپورٹر)کے ایم سی ،پولیس اور بھتہ مافیا گروپس کی ملی بھگت سے فٹ پاتھوں کے بکنے کا عمل گزشتہ کئی برس سے جاری، بینکوں کے سامنے بڑے جنریٹرز،ریسٹورنٹ کی ٹیبل کرسیوں سے آمدورفت میں دشواری کاسامنا،کراچی کے رہائشی علاقوں سمیت تجارتی اور صنعتی علاقوں کے سیکڑوں فٹ پاتھوں پر ہزاروں دکانداروں،ڈھابوں اور ہوٹل والوں کا قبضہ برقرار ہے جسے اب تک ختم نہیں کرایا جاسکا،
پیدل چلنے والے سڑک پر چلنے پر مجبور کردیے گئے ہیں۔ضلعی بلدیات،کے ایم سی ،کنٹونمنٹ بورڈز،ڈی ایچ اے اور دیگر متعلقہ ادارے فٹ پاتھوں سے قبضہ ختم کرانے میں ناکام نظر آتے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق کراچی میں فٹ پاتھ بھی تھانوں کی طرز پر فروخت کیے جاتے ہیں۔محکمہ انسداد تجاوزات کے عملے ،پولیس اور علاقہ بھتہ مافیا گروپس کی مبینہ ملی بھگت سے فٹ پاتھوں کے بکنے کا عمل گزشتہ کئی برس سے جاری ہے۔ان فٹ پاتھوں پر قبضہ کرنے والوں میں چھوٹے پیمانے پر ریسٹورنٹس،چائے سموسے کے ڈھابے ،پان سگریٹ کی دکانیں،کپڑے اور انڈر گارمنٹس کے اسٹالز شامل ہیں جبکہ بڑے پیمانے پر الیکٹرانکس کا سامان اور فرنیچر بھی فروخت کیا جاتا ہے۔
بعض فٹ پاتھوں پر لوڈنگ گاڑیاں تک کھڑی کی جاتی ہیں۔بعض پر اداروں اور بینکوں کے بڑے بڑے جنریٹرز نصب کردیے گئے ہیں۔فٹ پاتھوں پر یہ قبضے ،یونیورسٹی روڈ ،گلستان جوہر،صدر الیکٹرانکس مارکیٹ،ریگل چوک،کوآپریٹو مارکیٹ کی دونوں جانب،صدر پاسپورٹ آفس کے قریبی فٹ پاتھ، طارق روڈ کے فٹ پاتھ،ملیر ٹنکی کی الیکٹرانکس مارکیٹ ،پی آئی بی کالونی،لیاقت مارکیٹ ملیر کی فرنیچر مارکیٹ،غریب آباد،لیاقت آباد کی مارکیٹوں اور فرنیچر مارکیٹوں ،گلشن اقبال کے کمرشل علاقوں کی شاہراہوں ،قائد آباد ، لانڈھی ، کورنگی،کورنگی صنعتی ایریا کی فٹ پاتھوں اور سروس روڈز پر جابجا دیکھے جاسکتے ہیں۔
فٹ پاتھوں پر قبضے کے علاوہ کروڑوں روپے کی لاگت سے تیار ہونے والی یونیورسٹی روڈ پر جامعہ کراچی سے صفورا چورنگی تک پہلی دو لین فروٹ کے ٹھیلوں والوں کا حق بن گئی ہے ،تیسری لین خریداری کے لیے رکنے والی گاڑیوں کی بن جاتی ہے نتیجے کے طور پر چوتھی اور آخری لین میں سست رفتاری کے ساتھ ٹریفک چل رہا ہوتا ہے۔اسی طرح ملیر ٹنکی کی فٹ پاتھ اور سڑک کی پہلی لین پر الیکٹرانک کا سامان رکھا جاتا ہے۔
دوسری لین لوڈنگ گاڑیاں گھیر لیتی ہیں اور روزانہ آر سی ڈی گراؤنڈ سے برف خانے تک اور برف خانے سے لیٹر باکس تک ٹریفک جام معمول بن گیا ہے۔ماڈل کالونی،شاہ فیصل کالونی کے کمرشل علاقوں کا بھی یہی حال ہے۔
دکانداروں کا کہنا ہے کہ وہ ’’منتھلی ‘‘دیتے ہیں تو وصول بھی کریں گے۔طارق روڈ اور صدر کے علاقوں میں بیشتر بڑے دکانداروں نے اپنے ہی لوگوں کے پتھارے لگوائے ہوئے ہیں۔
اسی طرح نارتھ ناظم آباد میں مرکزی اور متصل شاہراہوں پر تجاوزات کی بھرمار ہے۔سر شام ریسٹورنٹ والے فٹ پاتھوں پر ٹیبل کرسیاں لگادیتے ہیں جس سے علاقہ مکین پریشانی کا شکار ہیں۔