یہ تو صرف ایک جمعے کی مار ہیں

475

وفاقی وزیر اطلاعات جناب فواد چودھری کے دو کروڑ ووٹ صرف دس لاکھ کے سامنے ڈھیر ہوگئے۔ وہ کہہ تھے کہ قادیانی عاطف میاں کے تقرر پر جو لوگ اعتراض کررہے ہیں وہ انتہا پسند ہیں اور جس انداز میں وہ عاطف میاں کی وکالت کررہے تھے اس سے وہ خود انتہا پسند لگ رہے تھے۔ منہ سے تھوک اچھل رہا تھا چیخ چیخ کر بے سر و پا باتیں کررہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے دو کروڑ ووٹ لیے ہیں دس لاکھ ووٹ لینے والے اور جن کی کوئی سیٹ نہیں وہ لوگ ہمیں ڈکٹیٹ کرارہے ہیں ہم ان کے سامنے سر نہیں جھکائیں گے۔ ابھی تو پہلا جمعہ آیا تھا پوری تحریک انصاف کی ٹیم میں بیشتر لوگ جمعہ ضرور پڑھتے ہوں گے اور کسی گلی کی سو آدمی کی گنجائش والی مسجد سے لے کر ہزاروں افراد کی گنجائش والی مسجد تک، دیوبندی، بریلوی، شیعہ، سنی، اہلحدیث تمام مسالک کے آئمہ کرام نے اس جمعے کو پاکی ناپاکی کے مسائل نہیں بتائے، کسی نے قرآن پڑھنے کی فضیلت اور تہجد کی اہمیت پر روشنی نہیں ڈالی۔ کراچی سے خیبر تک، بلوچستان سے کشمیر تک ہر مسجد میں ایک ہی بات کہی گئی اور وہ تھی کہ ختم نبوتؐ کے مسئلے پر ہم سرکٹواسکتے ہیں لیکن کسی قادیانی کو ملک کے مناصب پر مسلط نہیں کرنے دیں گے۔ فواد چودھری صاحب نے بھی یقیناًکہیں جمعہ پڑھا ہوگا اور ان کے دوسرے ہمنواؤں نے بھی، تو انہیں لگ پتا گیا ہوگا کہ وہ کیا کرنے چلے تھے اور اُمت مسلمہ کا موڈ کیا ہے۔ لگ پتا اس لیے لکھا کہ چودھری صاحب کو یہ جملہ کہنے کی عادت ہے۔ ہاں تو صرف ایک جمعے کی مار ہو بھائی فواد چودھری۔ وہ جو 2002ء کے انتخابات میں مجلس عمل کی 68 نشستیں آگئی تھیں تو اس پر بھی قادیانی عاطف میاں کے ایک اور وکیل شیخ رشید نے بھی اس وقت کہا تھا کہ شکر کریں اگر الیکشن سے قبل ایک جمعہ اور آجاتا تو مجلس عمل حکومت ہی بنالیتی۔ یہ کیا تھا۔ یہ محض طنزیہ جملہ نہیں تھا بلکہ جمعے کی نماز اور اس میں شریک امت مسلمہ اور منبر سے بیان کرنے والے آئمہ کی طاقت تھی۔ شیخ صاحب نے طنز نہیں کیا بلکہ درست کہا تھا۔ ایک جمعہ اور ملتا تو مجلس عمل کی سیٹیں اور بڑھ جاتیں۔ خیر اب تو مجلس عمل میں وہ بات نہیں رہی جو قاضی حسین احمد اور مولانا نورانی کی قیادت میں تھی۔
یہ معاملہ فواد چودھری کا نہیں تھا وہ تو خوامخواہ حکومت کے فیصلے کی اپوزیشن رہنما کی طرح وکالت کررہے تھے۔ ان کا انداز وہی تھا جو گزشتہ کئی برس سے تھا بالکل اسی طرح جس طرح فیاض الحسن چوہان کا تھا۔ چیخنے، دھاڑنے اور دو کروڑ ووٹوں کی دھمکی صرف ایک جمعے میں نکل گئی۔ چلیں اب جب کہ عاطف میاں کا نام مشاورتی کونسل سے واپس لے لیا گیا ہے اور حکومت کی جانب سے واضح کیا گیا ہے کہ ختم نبوت ہمارے ایمان کا حصہ ہے تو اب حکومت پر اس حوالے سے تنقید بند ہوجانا چاہیے۔ لیکن چلتے چلتے حکومت کے لیے خصوصاً عمران خان کے لیے ایک مشورہ ہے وہ وزارت اطلاعات کے حوالے سے خاص معلومات رکھتے ہیں انہیں اس کی اہمیت کا بھی اچھی طرح اندازہ ہے۔ اس لیے اس کی تشکیل نو کے بارے میں مشورے کررہے ہیں تو سب سے پہلے اس حوالے سے ٹیم کے انتخاب میں بہت غور و فکر کے بعد فیصلہ کریں۔ حکومت کے ترجمان کی ایک غلطی پوری حکومت کو لے ڈوبتی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ حکومت کی جانب سے جو کہا گیا ہے کہ ختم نبوت پر ہمارا بھی ایمان ہے یہ بیان درست ہے۔ لیکن پوری مرکزی ٹیم ایک مرتبہ اس موضوع پر کسی بھی مکتبہ فکر کے علما سے ایک دو نشستیں کرلے۔ خان صاحب خود بھی 1974ء کے امتناع قادیانیت کے بل، بھٹو صاحب کی تقریر، علمائے کرام کی جانب سے دیے گئے دلائل، قادیانیوں کے عقاید اور ان کی اصل حیثیت کے بارے میں ضرور مطالعہ کریں۔ یہ فرق پوری ٹیم کے سامنے واضح ہونا چاہیے کہ قادیانی کسی طور بھی عام اقلیت نہیں ہیں، وہ خود کو غیر مسلم تسلیم نہیں کرتے، پاکستان کے آئین کی ان شقوں کو نہیں مانتے جن میں انہیں غیر مسلم قرار دیا گیا ہے۔ وہ خود کو مسلمان کہتے ہیں اور مسلمانوں کو غیر مسلم تو ایسے لوگوں کو عام معنوں میں اقلیت نہیں کہا جاسکتا۔ اور یہ کہ جو لوگ پاکستان کے نظریے، جغرافیے اور ریاست کے مخالف ہوں ان کو کسی طور ریاست کے کسی ادارے کے قریب بھی نہیں پھٹکنے دینا چاہیے۔
ہمیں تو ان بے چاروں کی حالت زار پر افسوس ہورہا ہے جو یہ سمجھے تھے کہ عاطف میاں کا تقرر کسی خلائی مخلوق کا فیصلہ ہے اب حکومت ڈٹ گئی ہے لہٰذا نمبر بناؤ۔ چناں چہ دھڑا دھڑ کالم، تجزیے اور طنزیہ بیانات آنے لگے۔ لیکن ان بے چاروں کو اندازہ نہیں تھا کہ یہ دس لاکھ ووٹوں اور دو کروڑ ووٹوں کا مقابلہ نہیں ہے بلکہ یہ امت کے ایمان کا مسئلہ ہے۔ اور جن دو کروڑ لوگوں کا ووٹ حاصل کرنے کا دعویٰ فواد چودھری نے کیا ہے ان کے دل میں بھی اپنے نبیؐ سے محبت کے وہی جذبات ہیں جو دس لاکھ ووٹ حاصل کرنے والے لوگوں کے دلوں میں۔ چناں چہ جس نے یہ کہا کہ مذہب کا سرکاری منصب سے کوئی تعلق نہیں اسے بھی منہ کی کھانی پڑی اور جس نے منافقوں کے سردارکی مثال دی اسے ہی یہ سرداری نصیب ہو۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ دو دن قبل تک فواد چودھری فرما رہے تھے کہ عاطف میاں کے تقرر کے خلاف اعتراض کرنے والے انتہا پسند ہیں اور ہم انتہا پسندوں کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالیں گے لیکن چودھری صاحب جمعے کی شام کو فرما رہے تھے کہ علما کو ساتھ لے کر چلیں گے۔ گویا وہ بھی انتہا پسند ہوگئے یا انتہا پسندوں کے ساتھ چلنے پر مجبور ہوگئے۔ لیکن یہ انتہا پسندی نہیں ہے امت مسلمہ کے متفق علیہ مسئلے کو محض چند ووٹوں کی طاقت کے بل پر تبدیل کرنے پر اصرار کو انتہا پسندی کہتے ہیں اور صرف ایک جمعے کے خطبات نے انتہا پسندی کا دم نکال دیا۔ لیکن کیا عاطف میاں کا نام واپس لینے اور اعجاز خواجہ اور عمران رسول کے استعفیٰ سے مسئلہ حل ہوگیا۔ نہیں ایسا نہیں ہوا، انتخابی قوانین میں تبدیلی ایوان میں تحریف شدہ مسودہ پیش اور منظور کرانے اور راجا ظفر الحق کمیٹی کی رپورٹ تک ہر معاملے کی تحقیقات ہونی چاہیے اور اس کی بھی کہ عاطف میاں کے بارے میں پی ٹی آئی کی قیادت کو علم ہوگیا تھا پھر بھی اس کا نام مشاورتی کونسل میں کس کے کہنے پر رکھا گیا۔ یہ ضروری ہے۔۔۔ ورنہ قادیانی پھر کہیں سے حملہ کریں گے۔