مسلم لیگ بھی عمران کے راستے پر 

297

پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ شہباز شریف نے اعلان کیا ہے کہ دھاندلی کی تحقیقات کے لیے کمیشن بننے تک حکومت نہیں چلنے دیں گے۔ انہوں نے عین اس روز پریس کانفرنس کر کے حکومت نہ چلنے دینے کا اعلان کیا ہے جبکہ اگلے روز پی ٹی آئی کے نئے صدر عارف علوی حلف اٹھانے والے تھے ۔ گویا حکومت سازی کا عمل مکمل ہونے کے ساتھ ہی شہباز شریف نے حکومت کو پارلیمانی کارروائی نہ چلنے دینے کی دھمکی دے دی ۔ 2013ء کے انتخابات میں عمران خان نے دھاندلی کے الزامات لگا کر احتجاج کا اعلان کیا تھا اور کنٹینر پر چڑھ گئے تھے اس وقت مسلم لیگ ن اور حکومتی اتحادیوں نے اسے پارلیمانی روایات کے خلاف قرار دیا تھا اور جمہوریت دشمنی بھی ۔ عمران خان کئی ماہ تک دھرنے دیتے رہے بالآخر سراج الحق اور دیگر رہنماؤں نے انہیں پارلیمنٹ میں آنے پر راضی کیا تھا ۔ شہباز شریف انتخابات کے حوالے سے شکایات رکھتے ہیں یہ شکایات تنہا مسلم لیگ کی نہیں ہیں بلکہ دیگر جماعتیں خصوصاً ایم ایم اے کوبھی اس حوالے سے شدید تحفظات ہیں لیکن اتنی جلدی پارلیمانی نظام کو مفلوج کرنے کی باتیں غلط ہیں ۔ کچھ بھی ہو اب حکومت سازی کا عمل مکمل ہو گیا ہے پی ٹی آئی کی حکومت بن چکی ہے اور اسے کام کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے ۔ اس کے غلط کاموں پر تنقید ، اعتراض اور کھل کر مخالفت کرنے کا حق ہر ایک کو ہے لیکن جو بات 2013ء میں عمران خان کے لیے غلط تھی وہی بات آج مسلم لیگ کے لیے ٹھیک کیسے ہو سکتی ہے ۔ شہباز شریف صاحب نے اپنی پریس کانفرنس میں جن نکات کو اٹھایا ہے ان میں اہم باتیں ہیں ایک یہ کہ مسلم لیگ ن نے 160 ارب روپے بچائے ، عمران حکومت نے آتے ہی بجلی ، گیس اور کھاد مہنگی کر دی ۔اس کے علاوہ دانش اسکول اورلیپ ٹاپ اسکیم کے حوالے سے بھی انہوں نے تحفظات ظاہر کیے ہیں ۔ شہباز شریف کا دعویٰ ہے کہ مسلم لیگ کی حکومت نے فاضل بجلی پیدا کی تھی ۔ لیکن نئی حکومت نے بجلی بھی مہنگی کر دی ۔۔۔ شہباز شریف صاحب خود بھی پرانے پارلیمنٹیرین ہیں اور ان کی پارٹی بھی جانتی ہے کہ یہ باتیں اسمبلی کے فلور پر کرنے کی ہیں پریس کانفرنس کرنے سے کیا ہو گا ۔ ہم نے ان ہی سطور میں عمران خان کو بھی متوجہ کیا تھا کہ اگر سڑکوں اور کنٹینرز پر احتجاج کر کے بات منوانے کی روایت پڑ گئی تو آنے والے وقتوں میں اگر آپ حکومت میں ہوں گے تو آپ کو بھی یہی مشکل در پیش ہو گی ۔ اور وہ وقت آ گیا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت میں ہے اور مسلم لیگ اپوزیشن میں اب مسلم لیگ بھی پی ٹی آئی کے نقش قدم پر ہے ۔ اسی طرح پی ٹی آئی حکومت نے نواز شریف دور حکومت میں سرکاری فنڈز کی خورد برد اور عیاشیوں کا پردہ چاک کرنے کا فیصلہ کیا ہے گویا وہ بھی مثبت راستہ اختیار کرنے اور عوامی مسائل حل کرنے کے بجائے انتقامی راستے پر چل پڑی ہے ۔ یہ کام احتساب کے اداروں کو کرنے دیں ورنہ ان اداروں کی کیا ضرورت ہے ۔ اس رویے کی دونوں طرف سے اصلاح کی ضرورت ہے ۔ جہاں تک انتخابات میں دھاندلی کا تعلق ہے اس حوالے سے بہت بڑے حوصلے کی ضرورت ہے کیونکہ جس قسم کی دھاندلی ہوئی ہے اس پر صرف الیکشن کمیشن کو الزامات دینے سے کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا ۔ اگر اپوزیشن میں ہمت ہے تو ایک ایک پہلو سامنے لائے اور بتائے کہ کہاں کہاں سے پولنگ ایجنٹ نکالے گئے کہاں کہاں نتیجہ دیے بغیر الیکشن کمیشن کا عملہ چلاگیا ۔ ابھی تو یہ باتیں آسان ہیں بعد میں کسی چیز کا کوئی ثبوت نہیں ہو گا ۔ اپوزیشن پہلے اس حوالے سے مضبوط ہوم ورک کرے ۔ پارلیمانی کارروائی بھی روکی جا سکتی ہے ۔ لیکن ساتھ کوئی ٹھوس چیز بھی ہونی چاہیے ۔