کراچی میں بلدیہ فیکٹری کو آگ کی لپیٹ میں آئے چھ برس بیت گئے۔ زندہ جل جانے والے ڈھائی سو افراد کے اہلخانہ آج بھی انصاف کے منتظر ہیں۔
کیس عدالتوں میں زیرسماعت ہے۔ اب تک کسی ملزم کو سزا نہیں ہو سکی۔
متاثرین کے زخم اس وقت مزید گہرے ہوگئے تھے جب 2015 میں یہ معلوم ہوا کہ فیکٹر ی میں آگ لگی نہیں تھی بلکہ لگائی گئی تھی۔
عدالت میں جمع کروائی جانے والی رینجرز رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ بیس کروڑ روپے بھتہ نہ دینے پر سیاسی جماعت نے فیکٹر ی میں آگ لگوائی تھی۔
مقدمہ میں تین دسمبر 2016 کو اس وقت اہم موڑ آیا جب اہم ملزم عبدالرحمان عرف بھولا کو بنکاک سے گرفتار کیا گیا۔
وکلا کا کہنا ہے کہ سانحہ کی تفتیش سست روی کا شکار ہے، جس کی وجہ سے انصاف کی فراہمی میں تاخیر ہو رہی ہے۔
سانحہ بلدیہ کو چھ برس گزر گئے مگر260 افراد کو زندہ جلانے والے سفاک قاتل انجام تک نہ پہنچ سکے۔ پولیس کی نااہلی نے مقدمہ کو پیچیدہ بنا دیا۔ دو ملزمان گرفتار تو ہوئے مگرپانچ سو گواہوں کا بیان باقی ہے۔
گیارہ ستمبر دوہزار بارہ کو کراچی میں260افراد کوزندہ جلا دیا گیا۔ بھرپور کوشش کی گئی کہ سانحے کوحادثہ قرار دیا جائیاور فائل بند کردی جائے۔ واقعے کی جے آئی ٹی بنی تو ہولناک دہشتگردی کا انکشاف ہوا۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ فیکٹری میں آگ لگائی گئی تھی۔
رینجرز کے ہاتھوں ایم کیوایم کے کارکن عبدالرحمان بھولا، زبیر چریا سمیت کچھ ملزمان کوگرفتارکیاگیا۔ ایم کیوایم رہنماء رؤف صدیقی سمیت نو ملزمان پر فرد جرم عائد کردی گئی۔ رینجرز کے پراسیکیوٹر ساجد محبوب مطمئن ہیں کہ قاتلوں کو سزا دلوانے کیلئے کافی شواہد ہیں۔
مقدمے کے اہم ملزم حماد صدیقی کو اشتہاری قرار دیا جاچکا ہے،عدالت کے حکم کے باوجود ملزم کو پاکستان لانے کیلئے اقدامات نہیں کئے گئے۔