کراچی معاشی و نظریاتی شہہ رگ ہے وفاقی حکومت 500ارب کے پیکج کا اعلان کرے ۔امیر جماعت اسلامی پاکستان

321

سانحہ بلدیہ فیکٹری اور سانحہ 12مئی کے ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچایاجائے ،

کراچی (اسٹاف رپورٹر)امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ کراچی ملک کی معاشی اور نظریاتی شہہ رگ ہے ، ملک کی ترقی وخوشحالی کے لیے کراچی کی ترقی اور خوشحالی ضروری ہے۔ایم کیو ایم پہلے بھی حکومتوں میں شامل رہی ہے اور موجودہ حکومت میں بھی شریک ہے۔پی ٹی آئی کا مینڈیٹ ہے کہ وہ کراچی کے مسائل حل کرے،وزیر اعظم عمران خان کراچی آرہے ہیں وہ اس موقع پر کراچی کے لیے 500ارب روپے کے پیکج کا اعلان کریں ، سانحہ بلدیہ فیکٹری اور سانحہ 12مئی کے ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچانا حکومت کی ذمہ داری ہے ،سانحہ بلدیہ کے متاثرین کو معاوضے کی ادائیگی یقینی بنائی جائے ، کراچی میں سرکاری کواٹروں کے مکینوں کو بے دخل کرنے کے بجائے ان کو مالکانہ حقوق دیے جائیں ، کے الیکٹرک کے بے لگام گھوڑے کو لگام دی جائے اور کرنٹ لگنے سے جاں بحق ہونے والوں کو معاوضہ اور زخمی ہونے والوں کی کفالت کا انتطام کے الیکٹرک سے کروایا جائے ،کے الیکٹرک کو قومی تحویل میں لیا جائے ،کراچی میں پویس اور رینجرز کی موجودگی کے باوجود اسٹریٹ کرائمز میں اضافہ حکومت کے لیے شرمناک ہے ،جامعہ کراچی کو مالی بحران سے نکالا جائے۔ وزیر اعلیٰ سندھ اس حوالے سے اپنی ذمہ داری پوری کریں۔عمران خان ختم نبوت اور توہین رسالت کے حوالے سے عالمی سطح پر اپنا کردار ادا کریں اور قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی اور وطن واپسی کو یقینی بنانے کے لیے امریکہ سے بات کریں ، مسئلہ کشمیر پر کسی بھی حکومت کو پیچھے ہٹنے کا کوئی مینڈیٹ نہیں ہے ، موجودہ حکومت مسئلہ کشمیرپر متفقہ قومی مؤقف کو اٹھائے اور کشمیریوں کو ان کاحق خود ارادیت دلانے کے لے ان کی ترجمانی کرے ، ڈیم ملک کی ضرورت ہیں ، ضرور تعمیر ہونے چاہیئے ،کرپشن کی رقم وصول کرلی جائے تو ملک میں کئی ڈیم بن سکتے ہیں۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے ادارہ نورحق میں ایک اہم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سکریٹری محمد اصغر ، امیر کراچی حافظ نعیم الرحمن ، ڈپٹی سکریٹری و صدر پبلک ایڈ کمیٹی کراچی سیف الدین ایڈوکیٹ ، سکریٹری اطلاعات زاہد عسکری ، جنرل سکریٹری پبلک ایڈ کمیٹی کراچی نجیب ایوبی و دیگر بھی موجود تھے۔ اس مو قع پر انہوں نے بیگم کلثوم نواز کے انتقال پر افسوس اور دکھ کا اظہار کرتے ہوئے شریف فیملی سے اظہار تعزیت کیا۔ سینیٹر سراج الحق نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ ہماری خواہش ہے کہ حکومت اپنے 100دنوں کے ایجنڈے کو مکمل کرے، ایک اندازے کے مطابق صرف سوئز بنک میں پاکستان کے 375ارب ڈالر جمع ہیں تو باقی دنیا میں ہماری کتنی دولت ہوگی ، یہ دولت ملک میں واپس آنی چاہیئے اور احتساب کے عمل اور کرپشن کے خاتمے کو یقینی بنایا جائے۔ انہوں نے کہاکہ گستاخانہ خاکوں کا معاملہ پوری امت کے ایمان اور عقیدے کا معاملہ ہے ، مقدس مقامات اور شخصیات کی عزت اور توقیر کو یقینی بنانے کے لیے بین الاقوامی قانون سازی ہونی چاہیئے اور موجودہ حکومت اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرے۔ امریکی وزیر خارجہ کے آمد کے موقع پر حکومت کوڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کی بات کرنی چاہیئے تھی جو نہیں کی گئی۔اسٹیل مل ،پی آئی اور واپڈا سمیت کسی بھی قومی ادارے کی نج کاری نہیں ہونے دیں گے ، ان اداروں کو تباہ و برباد کرنے والوں کے خلاف کاروائی کی جائے ،اسٹیل مل کے ملازمین کو 6ماہ کی تنخواہیں ادا کی جائیں، قومی اداروں کی بحالی کے ہر مثبت اقدام کی حمایت اور تعاون کریں گے۔سراج الحق نے کہاکہ اس وقت کراچی میں PTI کے 14اور ایم کیو ایم کے 4ارکان قومی اسمبلی ہیں اس طرح کراچی کے 21میں سے 18ارکان ان جماعتوں کے ہیں جن کی وفاق میں حکومت ہے اس لیے کراچی کے مسائل حل کرنے کا ایک بہترین موقع ہے۔انہوں نے کہاکہ کراچی کے مسائل کے حل کے لیے جماعت اسلامی نے ہمیشہ بہت ٹھوس بنیادوں پر کام کیا ہے اوریہاں کے مسائل کے حل کے لیے ہمارے پاس مربوط خصوصی منصوبہ بندی موجود ہے۔کراچی میں عبدالستار افغانی دو مرتبہ او رنعمت اللہ خان صاحب ایک مرتبہ ناظم رہے ،وہ کراچی میں سنہری دور کے طور پر یاد کیے جاتے ہیں اور اب جبکہ جماعت کسی بھی سطح پراختیار اور اقتدار میں نہیں ہے اس کے باوجود بھی بجلی ،شناختی کارڈ ،پانی اور دیگر مسائل کے حل کے لیے بہترین اور ٹھوس بنیادوں پر جدوجہد کررہی ہے اور لاکھوں لوگوں کے مسائل حل کرنے میں کردار ادا کررہی ہے ،لیکن حکومتی سطح پر اقدامات کے بغیر ان کا مکمل حل ممکن نہیں۔انہوں نے کہاکہ کراچی میں ہر قسم کا بلدیاتی نظام تباہ ہے ،سڑکیں ،گلیاں صفائی ،پانی اور سیوریج کا سسٹم غرض ہر نظام بہتری کے بجائے بدترین صورت کی جانب جارہا ہے اورمستقبل میں ان مسائل کے حل کی کوئی امید نظر نہیں آتی ،پانی کی فراہمی کے منصوبہ K۔4اور سیوریج کے منصوبہ S۔3کو فوری مکمل کیا جائے ،ماس ٹرانزٹ سسٹم جونعمت اللہ خان کے زمانے میں عمل درآمد کے مراحل میں تھا اس پر فوری عمل درآمد کیا جائے۔ انہوں نے کہاکہ کے ۔الیکٹرک سرکاری سرپرستی اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے آنکھیں بند کرنے کے نتیجے میں ایک مافیا اور بے لگام گھوڑ ا بن گیا ہے ،اربوں روپوں کی کمائی کرنے والا یہ ادارہ معاہدوں کے مطابق بجلی کے نظام کو بہتر بنانے میں ناکام ہوگیا ہے اور نظام کی خرابی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ ہر بارش میں کرنٹ لگنے سے درجنوں افراد ہلا ک ہوجاتے ہیں اور اب دو بچے ان تاروں کے گرنے کی وجہ سے اپنے ہاتھوں سے محروم ہوگئے ہیں اور گذشتہ دنوں بارشوں میں ایک بچہ کرنٹ لگنے سے اپنی جان سے گیا تھا۔ہمارا مطالبہ ہے کہ وفاقی حکومت کے ۔الیکٹرک کی گرفت کرے اور اسے اوور بلنگ اور لوڈ شیڈنگ سے روکے اور ان کے نظام کی خرابی کی وجہ سے اگر کوئی فرد ہلاک یا زخمی ہوتا ہے تو اس کی ایف آئی آر کے ۔الیکٹرک انتظامیہ کے خلاف درج ہونی چاہیے اور اس کے متاثرین کو معقول معاوضہ ملنا چاہیے جو کم از کم پانچ کروڑ ہونا چاہیے۔سینیٹر سراج الحق نے کہاکہ کراچی میں پولیس اور رینجرز کی بڑی تعداد میں موجودگی کے باوجود یہاں پر روز بروز اسٹریٹ کرائمز بڑھتے جارہے ہیں جس کے باعث لوگ روز مرہ کی سرگرمیاں انجام دینے اور کاروباری طبقہ روز کی چوریوں اور ڈکیتیوں سے شدید پریشان ہے جس کے باعث کاروباری سرگرمیاں ماند پڑتی جارہی ہیں۔حکومت کو اس پر فوری توجہ دینی چاہیئے کیونکہ جب تک چوروں ، ڈاکؤوں اور اسٹریٹ کرائمز کرنے والوں کو سخت سے سخت سزا نہیں دی جائے گی یہ معاملہ ختم نہیں ہوگا۔انہوں نے کہاکہ سانحہ بلدیہ کے متاثرین کو انصاف فراہم کیا جائے 6سال گزرنے کے باوجود اب تک مقدمہ تکمیل کو نہیں پہنچا ،جے آئی ٹی کی رپورٹس میں نامزد شدہ ملزمان کو نہ تو گرفتار کیا گیا نہ جے آئی ٹی رپورٹس سامنے لائی جارہی ہیں۔ سانحہ کے شہداء4 کے لواحقین کی مالی امداد اور بحالی کے اقدامات ,جن کا اعلان وزیر اعظم پاکستان اور سندھ حکومت نے کیا تھا وہ وعدے اب تک پورے نہیں کیے گئے ،یہ وعدے فوری پورے کیے جائیں ،جلنے والی فیکٹری سے جرمنی کی 3کمپنیاں مال منگاتی تھی انہوں نے ایک بڑی رقم جو تقریباً 75کروڑ بنتی ہے وہ متاثرین کے اہل خانہ کے لیے دی ہے اس کو تقسیم کرنے کے بجائے سیسی (SESSI)کے اکاؤنٹ میں جمع کرادیا گیا ہے اور معمولی رقم ماہانہ دینے کا اعلان کیا گیا ہے ،اس مکمل رقم کو متاثرین میں فوری طور پر تقسیم کیا جائے ، اس مقصد کے لیے ہم نے متاثرین کی جانب سے عدالت میں مقدمہ بھی کردیا ہے۔انہوں نے کہاکہ قیام پاکستان کے بعد کراچی آنے والے سرکاری ملازمین کو آباد کاری کے لیے کوارٹرز بنا کر دیئے گئے تھے جن میں آج ان کی اولادیں ،بیوائیں وغیرہ رہائش پذیر ہیں ، اب ان کو خالی کرانے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں ،عدالتوں سے غلط بیانی کے ذریعے فیصلے لئے گئے ہیں ،اس مسئلے کو قانونی بھول بھلیوں میں پھنسانے کے بجائے ان لوگوں کو لیز دی جائے ، ان کے سر سے چھت ہر گز نہ چھینی جائے ورنہ 5لاکھ کے قریب لوگوں کے بے گھر ہونے کا اندیشہ ہے ،ہماری تجویز ہے کہ جو 50لاکھ مکانات حکومت کی جانب سے بنا کر دینے کا اعلان کیا گیا ہے ان کوارٹرز کو ان کا حصہ بنادیا جائے۔