حرف وعدہ اور گیس بجلی کی قیمتوں میں اضافہ

241

 

 

شاعرنے کہا تھا
گن رہا ہوں حرف ان کے عہد کے
مجھ کو دھوکا دے رہی ہے یاد کیا
اب تو معمول سا بن گیا ہے۔ دھوکا دینا برائی ہی نہیں رہا۔ چالاکی اور ذہانت کے زمرے میں آنے لگا ہے۔ اہل زمین ہی نہیں اہل فلک بھی دھوکا دیتے ہیں۔ اقبال نے کواکب کی نشاندہی کی تھی کہ وہ بازی گروں کی مانند دھوکا دینے لگے ہیں۔ آسمان والوں کی سادگی کہ انہوں نے اس فن کے لیے بازی گروں سے رجوع کیا انہیں سیاست دانوں سے رابطہ کرنا چاہیے تھا۔ تین چیزیں انسان کو دیکھتے ہی دھوکا دے جاتی ہیں۔ ہنستی ہوئی لڑکی، خاموشی سے بیٹھا ہوا کتا اور وعدے کرتا ہوا سیاست دان۔ اپوزیشن میں ہوں تو سیاست دان جیسا چست اور ہنر مند کوئی نہیں ہوتا لیکن اقتدار میں آنے کے بعد اس کا حال اس بچے جیسا ہوتا ہے جسے ڈھیلی چڈی پہنادی گئی ہو اور وہ ہمہ وقت اقتدار کی اس چڈی کو سنبھالنے میں لگا رہتا ہو۔ ایسے میں کون سا وعدہ اور کس کا وعدہ۔ سچی محبت، میٹھا خربوزہ، قربانی کا سستا جانور اور سیاست دانوں کو وعدے تکمیل کرتے ہوئے دیکھنا سب کے نصیب میں نہیں ہوتا۔
عمران خان اپوزیشن میں تھے تو عوام کی بھوک، بیماری، تنگ دستی اور تاریک مستقبل کی وجہ نواز شریف کی غلط پالیسیوں کو قرار دیتے تھے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد وہ ان ہی غلط پالیسیوں کو بچھڑے ہوئے محبوب کی طرح گلے لگا رہے ہیں۔ لاپتا افراد کا مسئلہ ایک ایسا انسانی المیہ ہے کہ سب ہی اس کی کسک کہیں بہت اندر تک محسوس کرتے ہیں لیکن اقتدار میں آکر نہ نواز شریف کو یاد رہتا کہ انہوں نے اس باب میں کیا وعدے کیے تھے اور نہ اب عمران خان ہی سے کچھ زیادہ امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر آئے دن کہرام بپا رہتا ہے۔ اب تو نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ گھروں میں گھس کر خواتین کو بھی اٹھایا جارہا ہے۔ جو لوگ زد میں ہیں وہ حیران ہیں کہ کس سے فریاد کریں کس سے منصفی چا ہیں۔ اس معاملے میں ایجنسیوں کو مورد الزام ٹھیرایا جاتا ہے۔ ہمیں سمجھ میں نہیں آتا کہ ایجنسیاں ایسا کیوں کریں گی۔ ایجنسیوں کو اس حوالے سے اپنی پوزیشن کلیر کرنی چاہیے۔ اگر کسی نے کوئی جرم کیا ہے تو اسے گرفتار کرنے کے ضابطے موجود ہیں۔ ضرور اٹھائیں لیکن عدالتوں میں تو پیش کریں۔ یہ اچھی بات نہیں ہے کہ آئے دن ان ایجنسیوں کے بارے میں جو ملک کی اولین دفاعی لائن ہیں عوام میں شکوک وشبہات پیدا ہوں۔ لوگ ان سے نفرت کا اظہار کریں۔ اقتدار میں آنے سے پہلے وزیراعظم عمران خان انتہائی جوش وخروش سے ناٹو سپلائی لائن کاٹنے کی نہ صرف بات کرتے تھے بلکہ انہوں نے ناٹو سپلائی لائن کے روٹس پر دھرنے بھی دیے تھے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد یوں چپ ہیں کہ دور تک سناٹا ہی سناٹا ہے۔ لگتا ہے اپنے ہی افغان بھائیوں کو مارنے کے لیے امریکی اسلحہ اور دیگر فوجی سامان نہیں افغان ٹرانزٹ ٹریڈکا سامان جارہا ہے۔ الیکشن سے پہلے حلف نامے میں ختم نبوت کے حوالے سے ترمیم کرنے پر تحریک انصاف نے نواز حکومت کو خوب رگڑے لگائے تھے۔ الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے عمران خان نے خود کو ختم نبوت کے محافظ کے طور پر پیش کیا تھا لیکن اقتدار میں آنے کے بعد پندرہ دن کے اندر ہی ایک قادیانی کو اقتصادیات کمیشن کا مشیر بنا دیا۔ ثابت یہ ہوتا ہے کہ سیاسی قائدین کو عوام کے جذبات کی پروا نہیں بلکہ اس سے بڑھ کرانہیں اللہ اور اس کے رسول ؐکی بھی کوئی پروا نہیں۔
وہ عمران خان جو اپوزیشن میں رہتے ہوئے گزشتہ بائیس برس سے غربت اور افلاس کے خاتمے کو اپنی حکومت کی آمد سے مشروط کررہے تھے ان کی حکومت کے قیام کو ابھی ایک ماہ بھی نہیں ہوا کہ انہوں نے گیس کی قیمتوں میں 46فی صد اور بجلی کی قیمتوں میں دو روپے فی یونٹ اضافہ کردیا ہے۔ اس کا جواز یہ قرار دیا جاتا ہے کہ حکومت گیس نکالنے والی کمپنیوں سے گیس 650 روپے فی MMBTU خرید کر عوام کو 350 روپے فی MMBTU فراہم کررہی ہے۔ نئے پا کستان میں حکومت کے لیے اس سلسلے کو جاری رکھنا ممکن نہیں لہٰذا اضافہ نا گزیر ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ تحریک انصاف ہو یا پاکستان کی کوئی اور سیاسی جماعت اس قسم کے مسائل کے لیے سرمایہ دارانہ نظام تین تجاویز بطور حل پیش کرتا ہے۔ اول: قیمتوں میں اضافہ کردیا جائے۔ دوم: قیمتوں کو برقرار رکھا جائے اور حکومت زرتلافی یا سبسڈی کی صورت اس کا ازالہ کرے۔ اس زرتلافی کی حقیقت یہ ہے کہ یہ زر تلافی بھی دیگر ٹیکسوں کی صورت بالآخر عوام سے ہی وصول کیا جاتا ہے۔ سوم: حکومت قرض لے کر قیمتوں کو برقرار رکھے جیسا کہ نواز حکومت ماضی میں کرتی رہی ہے لیکن یہ قرضہ بھی بہرحال عوام کو ہی چکانا پڑتا ہے۔ اس صورتحال کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ آئل اینڈ گیس ڈولپمنٹ اتھارٹی (OGDC) گیس کمپنیوں سے گیس خرید کر عوام تک اس کی ترسیل کے عوض100ارب سے اوپر کا منافع کمارہی ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت بجلی کے پیداواری یونٹ اور گیس کے ذخائر نجی کمپنیوں کی ملکیت ہیں۔ بجلی اور گیس کی مہنگائی میں یہ نجی کمپنیاں کیا کردار ادا کررہی ہیں اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ 90 کی دہائی میں واپڈا بجلی کا جو یونٹ 37پیسے سے لے کر ایک روپے تک بنا رہا تھا بے نظیر اور نواز شریف نے وہی بجلی بنانے کا انتظام نجی کمپنیوں کے سپرد کرکے ان سے 15 سے 20سینٹ فی یونٹ خریدنے کے معاہدے کرلیے اور عام آدمی کو 18روپے اور بزنس مینوں کو 25روپے فی یونٹ فروخت کرنا شروع کردیے۔ بے نظیر اور نواز حکومت کے اس مجرمانہ عمل کے نتیجے میں ایک طرف عوام ظلم کی چکی میں پسے دوسری طرف حکومت کی صورتحال یہ ہے کہ 1150 ارب روپے کی گردشی قرضے کی صورت میں ان کمپنیوں کی مقروض ہے۔ یوں پاکستان کے غریب عوام کی جیبوں پر ڈاکا ڈال کر، ان کی جیبوں سے پیسے نکال کر پاکستان کی ہر حکومت ملکی اور غیر ملکی سرمایہ داروں کی جیبوں میں ڈال رہی ہے۔ عمران خان کی حکومت نے بھی آتے ہی اس کارخیر میں اپنا حصہ ڈالنا شروع کردیا۔
اس مسئلے کے حل کے لیے اوپر بیان کردہ تین صورتوں میں سے نواز حکومت سبسڈی کی تجویز پر عمل کررہی تھی اور اب عمران حکومت براہ راست قیمتوں میں اضافے کی حکمت عملی پر عمل کررہی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں اس مسئلے کا اور کوئی حل موجود ہی نہیں ہے۔ اس مسئلے کا حل اسلام کے پاس ہے۔ سید المرسلین میرے آقا محمد ؐ کا فرمان ہے: مسلمان تین چیزوں میں شریک ہیں پانی، چراگا ہیں اور آگ (احمد) اس حدیث میں آگ سے مراد توانائی کی وہ تمام اقسام ہیں جن میں بجلی گیس کوئلہ شامل ہیں۔ اس وقت کیوں کہ بجلی اور گیس کی پیداوار نجی شعبے کے سپرد ہے جن سے منہ مانگے یا بین الاقوامی نرخ پر خریدنے اور آگے فروخت کرنے پر حکومت مجبور ہے۔ لیکن اس حدیث کے مطابق چوں کہ یہ تمام چیزیں عوام کی ملکیت ہیں اس لیے حکومت انہیں نجی شعبے کے حوالے نہیں کرسکتی۔ یوں اسلام اس جڑ کو ابتدا میں ہی کاٹ دیتا ہے جو بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ناروا اضافے اور عوام پر ناقابل برداشت بوجھ کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ اسلامی احکامات پر عمل کرنے سے عوام کو بجلی اور گیس مناسب داموں دستیاب ہوں گی۔ ہماری مصنوعات بین الاقوامی مارکیٹ میں دوسرے ممالک کی مصنوعات کا مقابلہ کرسکیں گی۔ یوں صرف اس ایک حکم پر عمل کرنے سے پاکستان کی معیشت میں انقلاب آجائے گا۔