کیا انٹرپول اسحق ڈار کو گرفتار کریگی؟

288

نئی حکومت پرانی حکومت کے دور میں ہونے والی دھاندلیوں کا پردہ چاک کرنے میں مصروف ہے اس حوالے سے عدالت عظمیٰ کے حکم پر سابق وزیر خزانہ اسحق ڈار اور ان کی اہلیہ کا پاسپورٹ منسوخ کرنے کا حکم جاری کردیا گیا ہے حکومت نے اسحق ڈار کی گرفتاری کے لیے انٹرپول سے رابطہ کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ ایف آئی اے نے اس سلسلے میں سرگرمی بھی شروع کردی ہے انٹرپول کو عدالتی احکامات اور منی لانڈرنگ کیس سے متعلق آگاہ بھی کردیا گیا ہے۔ اس فیصلے کا فوری اثر تو یہ ہوگا کہ فی الحال اسحق ڈار اور ان کی اہلیہ محفوظ ہوگئے ہیں کیونکہ ان کا پاسپورٹ منسوخ ہوچکا ہے اور وہ کہیں بھی سفر نہیں کرسکتے۔ خود تو وہ پاکستان آئیں گے نہیں اور انٹرپول کے ذریعے کسی کو لانا مونگ پھلی خریدنے کا سودا تو نہیں۔ پاکستان کی سول اور فوجی حکومتیں سابق آرمی چیف اور آئی ایس آئی آج تک الطاف حسین کو وطن واپس نہیں لاسکے جس کے غدار ہونے کے سرٹیفکیٹ ہو ادارے نے جاری کررکھے ہیں۔ اسحق ڈار نئی حکومت کا مسئلہ ہیں یا کسی مقدمے میں ماخوذ، انٹرپول اتنی آسانی سے لوگوں کی گرفتاری میں مدد نہیں دیتی۔ دوسرے یہ کہ اسحق ڈار کے خلاف جس طرح وقفے وقفے سے کارروائی ہورہی ہے اس کے نتیجے میں وہ لندن میں سیاسی پناہ کی بھی درخواست کرسکتے ہیں۔ لندن وہ مقام ہے جہاں دنیا بھر کی حکومتوں کے خلاف سازشیں ہوتی ہیں یہاں پر پناہ لینے والے اپنے ملکوں کے بارے میں علی الاعلان باتیں کرتے ہیں۔ الطاف حسین پاک فوج، آئی ایس آئی اور ڈی جی رینجرز کیخلاف بھی باتیں کرتا تھا اور بھارت سے مدد کی درخواست بھی کرچکا ہے آج تک پاکستان نہیں لایا جاسکا۔ عمران خان جب وزیراعظم نہیں تھے تو الطاف حسین کے خلاف ثبوتوں کے تھیلے لے کر لندن جانے والے تھے لیکن شاید کنٹینر کی مصروفیات کے سبب نہیں جاسکے اورتھیلے کہیں رکھ دیے تھے اب وہ یہ تھیلے بھی تلاش کریں اور اسحق ڈار کے خلاف بھی ثبوت لے کر لندن جائیں۔ پاکستان میں سازشیں کرنے والے لندن میں پناہ اسی لیے لیتے ہیں کہ وہاں ان کی پناہ کا بھرپور انتظام ہوتا ہے ان لوگوں کو پناہ دینے والے بھی ان سے کام لیتے ہیں۔ لہٰذا اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ انٹروپول اسحق ڈار کو پاکستان واپس لانے میں آسانی سے تعاون کرے۔ اس بات کا خدشہ ہے کہ نئی حکومت اسی قسم کی کارروائیوں کا ڈھنڈورہ پیٹ کر میڈیا کی زینت بنی رہے اور جس طرح مسلم لیگ پیپلزپارٹی کے خلاف اور پیپلزپارٹی مسلم لیگ کے خلاف کئی کئی برس اس قسم کے مقدمے چلاتے رہے۔ کبھی سرے محل اور کبھی سوئس اکاؤنٹس لیکن دونوں نے فرینڈلی اپوزیشن کا بھرپور کردار ادا کیا۔ ہمارے خیال میں اسحق ڈار، نواز حکومت اور شریف خاندان کے خلاف مقدمات اور تحقیقات کی کارروائی کو تحقیقاتی اور عدالتی اداروں کے سپرد ہی رکھے اگر حکومت خود سرگرمی دکھائے گی تو اسے انتقامی کارروائی قرار دے کر مظلوم بننے کی کوشش کی جائے گی، ویسے بھی حکومت کو تبدیلی کے ایجنڈے اور مدینہ جیسی ریاست کے قیام کے لیے کام کرنا ہے اگر انتقامی کارروائیوں میں الجھ گئے تو اپنے اصل ایجنڈے پر کام نہیں کرسکیں گے۔ یہ بات درست ہے کہ ملک کی دولت لوٹنے والوں کا احتساب اولین چیز ہے لیکن یہ احتساب میڈیا کے ذریعے کیا گیا تو اس کا حشر بھی ویسا ہی ہوگا جیسا زرداری اور نواز شریف کے احتساب کا ہوا۔ اس وقت حکومت کو جو معاشی چیلنجز درپیش ہیں ان کی روشنی میں وہ محاذ آرائی کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ اسے پارلیمنٹ کی کارروائی کو رواں رکھنے اور پارلیمنٹ میں معاملات طے کرنے کی روایت برقرار رکھنی ہوگی۔