جی ایچ کیو میں منعقد ہونے والی یوم دفاع کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے وعدہ کیا کہ پاکستان اب غیروں کی کوئی جنگ نہیں لڑے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ میں کودنے کے خلاف تھے اور اس کے بعد ہی پاکستان میں دہشت گردی کی خوفناک لہر چل پڑی۔ افغانستان میں امن اور دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر ہونے والی لڑائی اول وآخر امریکا کی تھی۔ امریکا افغانستان میں اپنے طویل المیعاد مقاصد کے لیے آنا چاہتا تھا اور نائن الیون نے اس کا جواز اور بہانہ فراہم کر دیا۔ امریکا نے فضاء سے افغانوں پر آتش وآہن کی بارش کی اور طالبان کی حکومت کو گرا کر دم لیا۔ جس کے ردعمل میں طالبان ایک بار پھر حکومت سے ملیشیا کا روپ دھار کر گوریلا جنگ کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ ایک طرف امریکا کی فوج تھی تو دوسری جانب طالبان تھے۔ پاکستان افغان سرحد سے ملحق ہونے کی وجہ سے اس کے برے اثرات سے نہ بچ سکا۔ امریکی وزیر خارجہ کولن پاؤل نے ڈرا دھمکا کر پاکستان کے روشن خیال فوجی حکمران پرویز مشرف کو اس جنگ کی حمایت پر مجبور کیا۔ پاکستان اس سرعت اور تندہی سے اس جنگ میں شرکت پر ہامی بھر لے گا یہ تو خود امریکیوں کو بھی انداز ہ نہیں تھا اور اسی لیے انہوں نے تاجر کے انداز میں بحث وتکرار کی خاطر بارہ مطالبات کی فہرست اس خیال کے ساتھ پیش کی تھی کہ پاکستان آدھے نکات تسلیم کر لے گا مگر یہاں تو حکمران لٹ جانے اور لٹا دینے کو تیار بیٹھے تھے۔
اول اول پاکستان نے اپنی فوج تو براہ راست اس آگ میں نہیں جھونکی مگر اپنی ائر بیسز اور گزرگاہیں اور دوسرے وسائل امریکا کی جھولی میں ڈال دیے۔ جوں جوں طالبان کی مزاحمت منظم ہوتی گئی اور امریکا فضا سے زمین پر اترتا چلا گیا امریکا کا اصرار بڑھتا گیا کہ وہ اپنے علاقے میں فوج کشی کرے۔ پاکستان نے قبائلی رسم ورواج کو مدنظر رکھ کر اس تنازعے کا مقامی اور جرگے کے ذریعے حل نکالنے کی کوشش کی تو اسے بری طرح سبوتاژ کیا گیا۔ پاکستان کے حکمرانوں نے حملہ آور فوجوں کے لیے دیدہ ودل فرش راہ کیا۔ امریکی جہاز ائر بیسز سے اُڑان بھر کر افغانستان پر بمباری کرتے اور پاکستان کے راستوں سے اسلحہ کے کنٹینر افغانستان جاتے اور یہ اسلحہ طالبان کو کچلنے کے لیے استعمال ہوتا۔ کبھی پاکستان خود ان حملوں کی ذمے داری قبول کرتا تو کبھی امریکا کو ٹارزن بننے کا موقع فراہم کرتا۔ اس طرح جنگ میں پاکستان امریکا کا اتحادی بن بیٹھا۔ اس کے ساتھ ہی ایک مشتعل طبقے کو یہ باور کرایا جانے لگا کہ پاکستان اور امریکا کی فوج مسلمانوں کو مل کر قتل کر رہی ہے۔ اس طرح ایک نئی قسم کی پاکستان مخالف شدت پسندی نے جنم لے کر تیزی سے پھیلنا شروع کیا۔ اس کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کی وہ خوفناک لہر چل پڑی کہ نیوزویک میگزین جیسے عالمی ذرائع ابلاغ نے پاکستان کو دنیا کا خطرناک ترین ملک قرار دیا۔ امریکا اور بھارت نے اس پاکستان مخالف شدت پسندی کو گود لے لیا اور یوں طالبان کے متوازی ایک نئی عسکریت شروع کردی گئی۔
پاکستان سترہ برس سے دہشت گردی کے اس عفریت سے لڑرہا ہے۔ اس جنگ میں شریک ہو کر پاکستان نے اپنا معاشی اور انسانی نقصان کیا۔ بظاہر تو یہ جنگ اقوام متحدہ کے قوانین اور چھتری تلے لڑی جا رہی تھی مگر اس کے لیے اقوام متحدہ کو ربر اسٹمپ کے طور پر استعمال کیا گیا۔ روس، چین، جاپان، بھارت، عرب ممالک اور ترکی اس جنگ میں عملی طور پر شریک نہیں تھے۔ یہ امریکا اور اس کے ناٹو اور یورپی اتحادیوں کا کھیل تھا۔ پاکستان میں ایک موثر طبقہ امریکا کی اس جنگ میں پاکستان کو دھکیلنے کا مخالف تھا مگر میڈیا کے ذریعے فوجی حکمران نے دہشت گردی کا ڈھول پیٹ کر حقائق کو گرد آلود کیے رکھا۔ یہاں تک آج ملک کا وزیر اعظم برسرعام اس جنگ کو پرائی کہتا ہے اور دوبارہ ایسی کسی حماقت کے نہ ہونے کا یقین دلاتا ہے۔ پاکستان کے لیے پرائی جنگوں کا معاملہ ابھی ختم نہیں ہوا۔ مشرق وسطیٰ اور ایران کے محاذوں پر امریکا پاکستان سے تعاون کا طلب گار ہے۔ چین کے گھیراؤ اور بھارت کو خطے کا چودھری بنانے کے لیے بھی امریکا کی خواہش ہے کہ پاکستان اس کا ساتھ دے مگر پاکستان کے لیے یہ سب پرائی اور ناقابل قبول جنگیں ہیں۔ دوعشرے ہونے کو ہیں پاکستان ابھی تک پرائی جنگ کے شعلوں میں لپٹا ہوا ہے۔ اس عرصے میں قائم ہونے والی فوجی اور سویلین شہیدوں کے قبریں بار بار یہ یاد دلاتی ہیں کہ پاکستان کو کسی دوسرے کی آگ کا ایندھن اب نہیں بنایا جانا چاہیے وگرنہ یونہی قبرستان آباد ہوتے رہیں گے۔ اس سبق کو ازبر کرتے ہوئے پاکستان کو اپنے مفاد اور مستقبل کو سامنے رکھ کر فیصلے کرنا ہوں گے۔ ایک ٹیلی فون کال پر ڈھیر ہوجانے کی روایت ترک کرنا ہوگی۔ مراعات اور امداد کے بدلے بن سوچے سمجھے اپنا کندھا پیش کرنے کے ماضی سے دامن چھڑانا ہوگا۔