عاطف میاں قادیانی عمران خان کا پہلی مرتبہ انتخاب نہیں ہے۔ 2013 کی الیکشن مہم کے دوران بھی انہوں نے عاطف میاں کا نام لے کر اسے اپنی کابینہ میں شامل کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ اس پر شور اٹھا تو انہوں نے جواز پیش کیا تھا کہ انہیں عاطف میاں کے قادیانی ہونے کا علم نہیں تھا لیکن اقتدار میں آتے ہی انہوں نے عاطف میاں کو اقتصادی مشاورتی کونسل کا رکن بنادیا۔ ملک بھر میں احتجاج ہوا تو انہوں نے فیصلہ واپس لے لیا۔ عاطف میاں قادیانی کے مسترد کیے جانے کے بعد سیکولر حلقوں میں ایک ہا ہاکار کا عالم ہے۔ دو قادیانی نواز مشیروں نے استعفا دے دیا۔ جو قادیانی نواز نہیں ہیں ان کے ذہن میں بھی یہ خیال گردش کرتا ہے کہ اگر کوئی اپنے آپ کو مسلمان کہہ رہا ہے تو اس میں حرج کیا ہے۔ ایک اعتبار سے یہ تو اچھی بات ہے۔ مسلمانوں اور قادیانیوں کے درمیان اس تنازع کو بین الاقوامی ادارے اور اسلام دشمن لابیاں بھی ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل اپنی سالانہ رپورٹوں میں اکثر پاکستان میں قادیانیوں کی مبینہ انسانی حقوق کی پامالی کا ذکر کرتی رہتی ہے۔ تو کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ قادیانیوں کے بارے میں اس شدت کی محاذ آرائی ترک کرکے اور انہیں مسلمان تسلیم کرکے اسلام دشمن قوتوں کی سازشوں کو ناکام بنادیا جائے۔ اس ضمن میں پہلی بات یہ سمجھ لیجیے کہ آج سے سو برس پہلے مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت کا جو دعویٰ پیش کیا تھا اور نئی وحی کے حوالے سے اپنی جو تعلیمات پیش کی تھیں وہ اسلام کے بنیادی عقیدہ ختم نبوت اور اس کی تیرہ سو سالہ تعبیر سے یکسر مختلف تھا اس لیے امت مسلمہ کے تمام علمی اور دینی حلقوں اور عام مسلمانوں نے اسے انتہائی سختی اور کراہت کے ساتھ مسترد کردیا تھا اور قادیانیوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے کر ان سے مکمل لاتعلقی کا اعلان کردیا تھا۔ دوسری طرف قادیانیوں نے بھی ایسا ہی کیا انہوں نے مرزاقادیانی پر نازل ہونے والی مبینہ وحی پر ایمان نہ لانے والوں کو اپنا ہم مذہب ہی تسلیم نہیں کیا انہیں کنجریوں اور سور کی اولادیں اور نہ جانے کیا کیا کہا۔ ملاحظہ کیجیے ’’کُل مسلمانوں نے مجھے قبول کرلیااور میری دعوت کی تصدیق کی مگر کنجریوں اور بدکاروں کی اولادوں نے مجھے نہیں مانا (آئینہ کمالات ص547مرزا غلام احمد قادیانی)‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ جواس کی جھوٹی نبوت پر ایمان نہیں لائے مرزا ان مسلمانوں کی ماؤں کو کنجریاں اور باپ کو بدکار قرار دے رہا ہے۔ ایک اور جگہ مرزا نے لکھا ہے’’میرے مخالف جنگلوں کے سور ہوگئے اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ گئیں (نجم الہدی: ص 53مرزا غلام احمد قادیانی)‘‘ مطلب یہ کہ وہ مسلمان جو مرزا قادیانی کے مخالف ہیں جنگلوں کے سور ہیں اور ان کی عورتیں کتیائیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر۔ اس کشمکش کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان اور قادیانی دونوں اس نکتہ پر متفق ہوگئے کہ دونوں جماعتیں ایک مذہب کی پیروکار نہیں بلکہ دونوں کا مذہب الگ الگ ہے۔ دونوں میں کوئی نکتہ اتحاد ہے اور نہ قدر مشترک۔ یہ ایک واقعاتی حقیقت ہی نہیں مذاہب کے درمیان صدیوں سے جاری مسلمہ اصول بھی ہے جس کی بنیاد پر مذاہب ہمیشہ ایک دوسرے سے الگ شمار ہوتے ہیں۔ قادیانی ہزاروں برس سے کار فرما اس تسلیم شدہ اصول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بضد ہیں کہ انہیں مسلمان کہا اور تسلیم کیا جائے۔ یہ خلاف ورزی ہی مسلمانوں اور قادیانیوں کے درمیان تنازع اور کشیدگی کی اصل وجہ ہے۔
یہودی سیدنا موسی ؑ کی نبوت اور تورات پر ایمان رکھتے ہیں۔ عیسائی بھی سیدنا موسی ؑ کی نبوت اور تورات پر ایمان رکھتے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ سیدنا عیسی ؑ کی نبوت اور انجیل پر بھی ایمان رکھتے ہیں۔ سیدنا موسی ؑ کی نبوت اور تورات پر ایمان رکھنے کے باوجود عیسائی، یہودی نہیں کہلاتے۔ دونوں الگ الگ مذہب کے پیروکار کہلاتے ہیں۔ اسی طرح مسلمان سیدنا موسی ؑ اور سیدنا عیسی ؑ پر ایمان رکھنے کے علاوہ دیگر تمام انبیا پر بھی ایمان رکھتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ تمام سابقہ کتابوں پر بھی ایمان رکھتے ہیں۔ ان سب کو تسلیم کرنے کے ساتھ ہی مسلمان رسالت مآب محمد ؐ کی نبوت اور قرآن پر بھی ایمان رکھتے ہیں۔ اس لیے وہ یہودی کہلاتے ہیں نہ عیسائی بلکہ ان دونوں مذاہب سے الگ ایک نئے مذہب کے ماننے والے کہلاتے اور تسلیم کیے جاتے ہیں۔ قادیانیوں کے باب میں مسلمانوں کا موقف مذاہب عالم کے اسی تاریخی تسلسل کا حصہ ہے چوں کہ قادیانی مرزا غلام احمد قادیانی اور ا ن پر نازل ہونے والی مبینہ وحی پر ایمان رکھتے ہیں اس لیے وہ عالی مرتبت سیدنا محمد ؐ اور قرآن پر ایمان کے دعوے کے باوجود امت مسلمہ کا حصہ نہیں ہیں۔ بلکہ ایک نئے مذہب کے ماننے والے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قادیانیوں کو نہ امت مسلمہ کا حصہ تسلیم کیا جاسکتا ہے اور نہ انہیں خود کو مسلمان کہنے کی اجازت دی جاسکتی ہے۔
عاطف میاں قادیانی کے نکالے جانے کے بعد سیکولر حلقوں کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ پاکستان میں ریاست میرٹ اور صلاحیت کے بجائے عقائد کی بنیاد پر چلائی جارہی ہے۔ پاکستان کے قابل ترین افراد کو مذہبی تعصب پر قربان کیا جارہا ہے۔ بات یہ ہے کہ ہم دیگر قوموں اور مذاہب کے ماننے والوں سے سائنسی ایجادات مثلاً کمپیوٹر، گھڑیاں، برقی آلات، ایل ای ڈی، موبائل، کیمیکل سائنسز، اناٹومی، آر کیٹکچر اور دوسرے سائنسی علوم اور اشیا تو لے سکتے ہیں کیوں کہ ان کا عقیدے یا آئیڈیالوجی سے تعلق نہیں ہے لیکن ان کے مذہبی شعائرمثلاً صلیب کا نشان یا ان کی عبادت گاہوں میں لگی مقدس تصاویر نہیں لے سکتے کیوں کہ ان کے پس منظر میں ان کا عقیدہ یا آئیڈیالوجی موجود ہیں۔ اس کے علاوہ ہم ان سے قوانین، معیشت کے اصول، پولیٹیکل تھیوری، سائیکو لوجی، سوشیا لوجی اور دیگر سوشل علوم جو ان کے مذہب اور تہذیب سے جڑے ہیں نہیں لے سکتے۔ ان ابواب میں ہم کسی مغربی یا غیر مسلم ایکسپرٹ کی رائے قبول نہیں کرسکتے خواہ وہ قابلیت کے کسی بھی درجے پر فائز ہو۔ دولت کہاں کہاں سے حاصل اور جمع کی جا سکتی ہے، کن کن مدوں میں خرچ کی جاسکتی ہے اس حوالے سے سرمایہ دارانہ نظام کے اپنے اصول ہیں، سوشلزم کے اپنے اور اسلام کے اپنے۔ معاشی مسئلہ کیا ہے اور کیسے حل ہوگا، آزادی ملکیت ہو، سود ہو، کرنسی ہو، امپورٹ ایکسپورٹ ہو، کمپنی اسٹرکچر ہو یا ٹیکسوں کا نظام سب کے الگ الگ فلسفے اور نظریات ہیں۔ نہ مغرب مسلمانوں سے مستفید ہوسکتا ہے اور نہ ہم مغرب سے۔ جب ایک امرکے بارے میں ہمارے پاس اللہ سبحانہ وتعالی کی وحی کے مطا بق احکامات موجود ہیں تو ہم کس طرح سرمایہ دارانہ نظام کے علمبردار کسی ایڈ وائزر کو قبول کرسکتے ہیں جو ان مسئلوں کے وحی کے مطابق حل کو تسلیم ہی نہیں کرسکتا۔
سوال کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں اسلامی نظام نافذ ہوتا تو اس بات پر عمل کیا جاسکتا تھا پاکستانی معیشت سرمایہ دارنہ نظام پر استوار ہے جس کے عاطف میاں ایکسپرٹ ہیں۔ عرض یہ ہے کہ پاکستان کے مسائل حل کرنے کے لیے عاطف میاں کے پاس کون سی ایسی جادو کی چھڑی ہے جو کسی دوسرے ایکسپرٹ کے پاس نہیں ہے۔ وہ بھی وہی حل پیش کرتے جو پروفیشنل حلقوں میں پہلے سے جانے مانے جاتے ہیں مثلاً سرکاری اداروں کو سیاسی مداخلت سے پاک کرنا، ان کے اوپر پرو فیشنل بورڈ آف ڈائر یکٹر مقرر کرنا، ان کی کارکر دگی کو بہتر بناکر انہیں نجی شعبے کے حوالے کرنا، پیداواری لاگت کم کرنا تاکہ ہم بین الاقوامی مارکیٹ میں مسا بقت کی تجارت میں کا میابی حا صل کرسکیں، ہماری برامدات میں اضافہ ہو تاکہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہوسکے۔ نجی شعبے کو ترقی دی جائے، ٹیکس نیٹ کو وسیع کیا جائے، سفارت کاری کے ذریعے نئی مارکٹیں تلاش کی جائیں۔ ان تمام کوششوں کا ہدف یہ ہوتا ہے کہ جی ڈی پی گروتھ سات فی صد تک پہنچائی جائے جس کے نتیجے میں دس برس کے اندر غربت میں بھی کمی آنا شروع ہوجائے گی۔ یہ فارمولا عملی طور پر ناکام ہوچکا ہے کیوں کہ اس نظام میں سپر پاورز کے پاس ایسے لیورز موجود ہیں وہ جب چاہیں کسی بھی ملک کی معیشت کو زمیں بوس کرسکتے ہیں۔ جب ٹرمپ کی ایک ٹویٹ سے ترکی لیرا چالیس فی صد اور ایرانی تومان سو فی صد گرسکتا ہے تو اس نظام اور کسی ماہر معیشت کی کیا اوقات رہ جاتی ہے۔ جہاں تک عاطف میاں کی بات ہے اس سے پہلے ایک قادیانی مرزا مظفر احمد (ایم ایم احمد) بھی قادیانی کمیونٹی سے تھا۔ پاکستانی معیشت آج تک اس کے لگائے ہوئے زخم چاٹ رہی ہے۔ پاکستانی معیشت وہی ماہر معیشت حل کرسکتا ہے جو ہمارے دین، تہذیب اور سماج سے اچھی طرح واقف ہو۔