کلثوم نواز کا انتقال

280

سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی اہلیہ کلثوم نواز منگل کو لندن میں انتقال کر گئیں ۔ ان کے انتقال کے ساتھ ہی شریف خاندان کو پیرول پر جیل سے رہا کر دیا گیا وہ جاتی امر پہنچ گئے ۔ شہباز شریف میت لانے کے لیے لندن چلے گئے ۔ اس کے ساتھ ہی نواز شریف خاندان کا ایک دور ختم ہو گیا ۔ خصوصی طور پر یہ بات کی جاتی ہے کہ بیگم کلثوم نواز نے جنرل پرویز کے دور میں مسلم لیگ ن کو زندہ رکھا اور اس کے لیے تحریک چلائی اپنے شوہر کی غیر موجودگی میں ان کی وطن واپسی کے لیے بھی راہ ہموار کی ۔ یہ بات درست ہے کہ اس کام میں انہیں جاوید ہاشمی کی معاونت حاصل تھی بلکہ سیاسی کارکن تو جاوید ہاشمی کو ہی اس تحریک کا روح رواں قرار دیتے ہیں لیکن بہر حال کلثوم نواز کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔ انتخابات کے موقع پر یہ خبر عام کی گئی تھی کہ بیگم کلثوم کا انتقال ہو چکا ہے اور انتخابات سے چند روز قبل انہیں وینٹی لیٹرسے الگ کر کے موت کا اعلان کیا جائے گا اور میت پاکستان لا کر ہمدردی کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔ اس خبر سے کم از کم اس پروپیگنڈے کی تردید تو ہو گئی ۔ اگر یہ کام مصنوعی تھا تو انتخابات سے قبل ہی کیا جاتا ۔ نواز شریف خاندان کیلئے میاں شریف کے انتقال کے موقع پر پیدا ہونے والی صورتحال ایک بار پھر آموجود ہوئی ہے۔ اس وقت جنرل پرویز میاں نواز شریف کو جنازے میں شریک ہونے سے روکنا چاہتے تھے اور آج اگر جنازہ اور تدفین لندن میں کی جائے تو نواز شریف ،مریم اور کیپٹن صفدر کا جانا مشکل ہوگا ۔ اور پاکستان میں تدفین کی صورت میں دونوں بیٹے محروم رہیں گے ۔ بہر حال نواز شریف خاندان کے لیے کلثوم نواز کا انتقال ایک صدمہ ہے اللہ انہیں اسے برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔