پہلے ملک میں موجود لٹیروں کا تو احتساب کرلیں

338

چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے دعویٰ کیا ہے کہ کرپٹ لوگ دنیا کے کسی حصے میں چھپ جائیں نکال لائیں گے۔ انہوں نے اسلام آباد میں تاجروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جن کے پاس موٹر سائیکلیں تھیں ان کے دبئی میں ہوٹلز ہیں اور ٹاورز کھڑے ہیں، اس کے بارے میں پوچھا تو کیا بُرا کیا۔ احتساب سب کا ہوگا جو کرے گا بھرے گا۔ کوئی جتنا بھی طاقتور ہو ان کا اثر ہمارے دفتر کے باہر ختم ہوجاتا ہے، مجھے خریدنے کی کوشش ناکام ہوگئیں انہوں نے عزم ظاہر کیا کہ زندگی کی آخری اننگز یاد گار بناؤں گا۔ زندگی کی آخری اننگز کے بارے میں تو کوئی پیشگوئی نہیں کرسکتا کہ وہ کب تک چلے گی اور کب ختم ہوجائے گی لیکن چیئرمین نیب نے جو بات کہی ہے کہ کرپٹ لوگ دنیا کے کسی حصے میں چھپ جائیں نکال لائیں گے۔ یہ وہ دعویٰ ہے جس پر جنرل ضیا سے جنرل پرویز تک اور آج کل کے طاقتور ترین چیف جسٹس صاحب میاں ثاقب نثار بھی عمل نہ کرسکے۔ جنرل ضیا کے دور کا کرپٹ آدمی مرتضیٰ بھٹو قرار پایا تھا لیکن وہ اسے واپس نہیں لاسکے۔ جنرل پرویز جن لوگوں کو کرپٹ قرار دیتے تھے ان کے ساتھ این آر او کیا گرفتار نہیں کرسکے اور الطاف حسین پردرجنوں مقدمات کے باوجود وہ بھی اسے نہیں لاسکے۔ اور خود درجنوں مقدمات کے باوجود ملک سے باہر اب جبکہ حکومت عمران خان کی ہے، عدلیہ جسٹس ثاقب نثار کے پاس ہے اور نیب جسٹس جاوید اقبال کے ہاتھ میں سب ایک صفحے پر ہیں اور نیب کا عزم یہی ہے کہ دنیا بھر سے لوٹ کا مال واپس لائیں گے۔ ڈیم بنائیں گے، قرضے اتاریں گے، ملک سنواریں گے۔ اسی مال سے بجلی گھر بھی بنیں گے اور ترقیاتی کام بھی ہوں گے۔ چیئرمین نیب کا اشارہ غالباً پاکستان کی سیاسی شخصیات کی جانب ہوگا کہ جن کے پاس موٹر سائیکل تھی ان کے دبئی میں ہوٹل اور پلازہ ہیں۔ اس کے بارے میں پوچھ لیا تو کیا ہوا۔ بات تو ٹھیک ہے لیکن دنیا میں کہیں بھی چھپے ہوئے کرپٹ لوگوں پر ہاتھ ڈالنے سے قبل پاکستان میں دندناتے پھرنے والے کرپٹ لوگوں پر ہاتھ ڈالنے میں کیا رکاوٹ ہے۔ جن کے پاس 120 گز کا گھر تھا ان کے دبئی میں ہوٹل اور پلازہ ہیں اور وہ میئر بنے ہوئے ہیں۔ جس کے پاس رہنے کے لیے گھر نہیں تھا اس کے پاس کراچی اور دبئی میں زمینیں ہیں وہ ایک پاک صاف پارٹی چلا رہا ہے۔ باہر سے کسی کو لانا تو سراسر دشوار گزار کام ہے جو لوگ اس ملک میں موجود ہیں جیلوں میں ہیں یا اسپتالوں میں آرام کررہے تھے ان کے مقدمات کھلی کتاب کی طرح ہیں ان کا فیصلہ نہیں ہو پارہا تو باہر سے کیا لایا جائے گا۔ ابھی تو پونے چھ ارب کرپشن کا معاملہ شہد، زیتون اور شراب کے فیصلے میں جھول رہا ہے۔ میاں نواز شریف کی جائداد کے بارے میں جو باتیں یہاں کی جارہی ہیں ان کا بین الاقوامی قانون سے کوئی تعلق نہیں۔ برطانوی قانون کے مطابق حکومت پاکستان کو سرکاری طور پر برطانیہ میں نواز شریف کی جائداد کی ملکیت کے دستاویزی ثبوت پیش کرنے ہوں گے۔ پھر یہ ثابت کرنا ہوگا کہ جس دولت سے یہ جائداد خریدی گئی ہے وہ غیر قانونی طور پر برطانیہ پہنچی تھی۔ اگر بینک کے ذریعے بینک سے انتقال ہو اسے تو کیس ہی نہیں بنے گا۔ اس کے بعد برطانوی حکومت یا ادارہ اپنی عدالت میں مقدمہ داخل کرے گا کہ اس جائداد کے بارے میں فیصلہ کرنا ہے پھر یہ کہ اس جائداد کی مالیت کا غالباً 25 فیصد عدالت میں جمع کرانا ہوگا۔ وہ یہ کام کیوں کریں گے ۔ پھر اگر عدالت نے فیصلہ دیا تو حکومت برطانیہ غور کرے گی کہ اس کا کیا فیصلہ کیا جائے، اگر مناسب سمجھا تو پاکستان کے حوالے کیا جاسکتا ہے۔ یہ ہے پاکستان کا سب سے بڑا مقدمہ جس میں سابق وزیراعظم قید ہیں۔ تو پھر اومنی گروپ اور دیگر مقدمات کا کیا ہوگا۔ ؟؟؟؟ یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ طاقتور لوگوں کا اثر نیب کے دفتر کے باہر ختم ہوجاتا ہے لیکن ایسا بھی تو ہوسکتا ہے کہ خود طاقتور کے دفتر جا کر ہدایات لی جائیں۔ جسٹس جاوید کا معاملہ بھی اس حوالے سے سوالات کی زد میں ہے کہ انہیں وزیراعظم سے ان کے دفتر جا کر ملاقات کرنی چاہیے تھی یا نہیں۔ یقیناًجو کوئی جتنا بھی طاقتور ہو اس کی طاقت وزیراعظم کے دفتر کے باہر ختم ہوجاتی ہے۔ اسی طرح سارے طاقتور لوگوں کی طاقت جی ایچ کیو کے باہر ختم ہوجاتی ہے۔ لہٰذا جاوید اقبال صاحب یہ بات نہ کریں اور اگر ایسا ہی ہے تو پاکستان میں بہت سے ایسے طاقتور لوگ اسی طرح گھومتے پھر رہے ہیں جیسے ان کا سسرال ہو ان کو کوئی ہاتھ تک نہیں لگا سکتا۔ جسٹس جاوید اقبال نے یہ بھی کہا ہے کہ مجھے خریدنے کی کوششیں ناکام ہوگیں۔ وہ روانی میں یہ بات کہہ گئے ہیں یاقصداً کہی لیکن اس سے یہ سوال ازخود اُبھرتا ہے کہ اچھا۔۔۔ تو کیا قیمت لگی تھی کس نے کوشش کی تھی اور ایسا خیال خریدار کے ذہن میں کیوں آیا کہ جسٹس جاوید اقبال کو بھی خریدا جائے۔ پھر سب سے بڑی بات یہ کہ اس خریدار کے ساتھ یا انہیں خریدنے کی کوشش کرنے والے کا کیا بنا۔ اس کے خلاف کیا کارروائی کی گئی، یہ بہت اہم سوال ہے تمام کرپٹ لوگوں کو چھوڑ کر سب سے پہلے ان لوگوں کو نشان عبرت بنانا ضروری ہے جو نیب جیسے ادارے کے معزز چیئرمین کو خریدنے کی کوشش کریں۔ چلیں یہ تو اچھی بات ہے کہ یہ کوشش ناکام ہوگئی۔ لیکن کوشش کرنے والوں کے نام اور ان کے حشر سے قوم واقف ہونا چاہے گی۔ ہم ایک مرتبہ پھر توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ پہلے ان لوگوں پر ہاتھ ڈالا جائے جو آپ کی دست برد ہیں۔ جو کام دوسرے ملکوں کے قانون کا محتاج ہو اس کے بارے میں کوئی بات دعوے سے نہیں کہی جاسکتی۔