’’اگرمگر‘‘کے ساتھ ڈیم کی مخالفت؟

271

چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے دیامر بھاشا ڈیم کی اپنی مدد آپ کے تحت تعمیر کی مہم کے مخالفین کو آخری وارننگ دی ہے۔ یہ تنبیہ پیپلزپارٹی کے رہنما سید خورشید شاہ کے اس بیان کے بعد کی گئی ہے جس میں انہوں نے طنز کے انداز میں چیف جسٹس کو اپنی سیاسی جماعت بنانے کا مشورہ دیا تھا۔ خورشید شاہ کے تازہ غصے کی وجہ ڈیم مہم سے زیادہ شاید اسپتال کی سب جیل میں شرجیل میمن کے کمرے پر چھاپا اور ’’شہد وزیتون‘‘ کی دریافت ہے۔ خورشید شاہ تواتر کے ساتھ اس مہم کی مخالفت کرتے چلے آئے ہیں بلکہ ابھی یہ محض تصور اور تجویز ہی تھا کہ خورشید شاہ کے مخالفانہ بیانات آنا شروع ہوگئے تھے۔ بیانات کی بات تو اپنی جگہ مگر سوشل میڈیا پر ایک مخالفانہ مہم جاری ہے۔ کیوں تو پانی کے ذخائر کی کمی اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے مگر بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کے حصے کے پانی پر ہاتھ صاف کرنے نے ملک کو شدید آبی بحران کی دہلیز پر لا کھڑا کر رکھا ہے۔ آبادی میں ا ضافے اور سیاچن گلیشئر پر فوجی سرگرمیوں کے باعث گلیشئر تیزی سے پگھل کر مستقبل کے حوالے سے کئی خوفناک چیلنج کھڑے کر رہے ہیں۔ طرفہ تماشا یہ کہ ملک میں ایک طویل مدت سے پانی کا کوئی ذخیرہ ہی تعمیر نہیں بنایا جا سکا۔ کالاباغ ڈیم کو ملک کی معیشت اور انسانی زندگی کے لیے ناگزیر قرار دیا جاتا رہا مگر کالا باغ ڈیم کو سیاسی فٹ بال بنا کر رکھ دیا گیا اور یوں یہ منصوبہ کاغذوں میں ہی ختم ہوگیا ہے۔ اب یہ حقیقت رفتہ رفتہ کھل کر سامنے آرہی ہے کہ کالا باغ ڈیم کو متنازع بنانے میں بیرونی قوتوں نے درپردہ اپنا کردار ادا کیا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے کہ سی پیک کو متنازع بنانے اور پاکستان کے لیے سود مند بننے سے بچانے کے لیے غیر ملکی طاقتیں بھاری وسائل خرچ کر رہی ہیں۔
تربیلا اور منگلا ڈیموں میں ہر گزرتے دن کے ساتھ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کم ہوتی چلی گئی۔ پاکستان کے حصے کے پانیوں پر ہاتھ صاف کرنے کی بھارتی خواہش اب بھی کم نہیں ہوئی۔ نریندر مودی برملا کہہ چکے ہیں کہ خون اور پانی ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے، اپنے حصے کا پانی کسی کو نہیں دیں گے۔ بھارت نے سندھ طاس معاہدے کو کاغذ کا پرزہ بنا دیا ہے۔ ورلڈ بینک جو اس معاہدے کا ضامن ہے دونوں ملکوں میں ثالثی کرانے میں ناکام ہو رہا ہے۔ عالمی عدالت انصاف کا رویہ بھی معاندانہ ہے۔ یہ عالمی ادارے چوں کہ امریکا کے زیر اثر ہیں اور امریکا پاکستان سے ناخوش اور بیزار اور بھارت پر مہربان اور فریفتہ ہے اسی کے زیر اثر یہ ادارے بھی بھارت کے لیے نرم گوشہ پیدا کیے ہوئے ہیں۔ اس طرح پاکستان کو بے آب وگیاہ بنا کر ختم کرنے کے منصوبے پورے عروج پر ہیں۔ خود پاکستان کی حکومتوں نے اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے کوئی سنجیدہ اور ٹھوس کوشش نہیں کی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے تو کالا باغ ڈیم کے مردے کو مٹی میں دباکر فائل ہی داخل دفتر کر دی۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے بھی طویل المیعاد منصوبہ بندی سے گریز کا راستہ اپنائے رکھا۔ ان حالات میں 2025میں پاکستان کے ایتھوپیا بننے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ پانی نہیں ہوگا تو نہ آبنوشی کا نظام بہتر ہو سکے اور نہ آب پاشی ممکن ہو سکے گی اوریوں ایک زرعی ملک بدترین خشک سالی کے باعث قحط کا شکار ہو سکتا ہے۔ اپنے کواڑ پر وقت کی اس خوفناک دستک کو سن کر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقت نثار نے دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لیے ڈیم فنڈ کا اعلان کیا۔ یوں اپنے وسائل سے ڈیم کی تعمیر کی مہم شروع کر دی گئی۔ عمران خان نے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالتے ہی اس مہم کی حمایت کا اعلان کیا۔
عمران خان ذاتی طور پر عوام کی شرکت سے کئی مہمات سر کرنے کا کامیاب تجربہ رکھتے ہیں اور ایک دیانت دار آدمی کے طور پر ان کی اپیل کی صلاحیت بھی وسیع اور مضبوط ہے۔ عمران خان کی طرف سے چیف جسٹس کی مہم کو اونر شپ دینے سے پاکستان اور بیرونی دنیا میں مقیم پاکستانیوں نے لبیک کہہ کر اپنے وسائل اس مقصد کے لیے وقف کرنا شروع کر دیے۔ اپوزیشن کی بعض جماعتیں جو اس معاملے میں پہلے ہی تساہل اور تغافل کی مرتکب ہوئی ہیں اس پر ناک بھوں چڑھائے ہوئے ہیں۔ کئی ایک تو سوشل میڈیا پر اس مہم کو ناکام بنانے کا اعلان کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس کی مہم کی عمران خان کی طرف سے حمایت نے اس مہم میں زیادہ تیزی پیدا کی ہے۔ اس مہم کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ چیف جسٹس اور وزیر اعظم باقی سب کام چھوڑ کر ایسی ہی مہمات چلاتے رہیں گے۔ ایسا ہورہا ہے نہ ایسا ہوگا۔ کار حکومت وعدالت روایتی بلکہ پہلے سے زیادہ بہتر انداز میں چلتا رہے گا اور عوام ریاست کی مدد کرتے ہوئے اپنے خوش حال مستقبل کی تعمیر کے لیے ایثار کا یہ عمل بھی جاری رکھیں گے ۔ اس مہم کی مخالفت کا قطعی جوا ز نہیں اگر کوئی اس کارخیر میں اپنا حصہ ڈالے تو اچھا ہے مگر ایک اچھے منصوبے کو بھیک اور چندہ کہہ کر ناکام بنانے کی باتیں کسی بھی پاکستانی کو زیب نہیں دیتیں۔ اس طرح کی مہمات کی عمومی طور پر حیثیت علامتی ہوتی ہے۔ ریاست اپنے لوگوں کو متحرک کرنے اور اپنے قریب لانے اور ان کا ملکی معاملات سے بیگانگی کا رویہ کم کرنے کے لیے مہمات چلاتی ہیں۔ یہاں تو ہدف بہت مشکل ہے مگر کچھ عجب نہیں کہ پاکستانی قوم خیر وبھلائی کے کئی دوسرے کاموں کی طرح اس معاملے میں زمانے کو حیران کردے اور ڈیم کی تعمیر کے لیے اچھی خاصی رقم جمع ہوجائے۔ یہ جذبہ برقرار رہے تو اسے ٹیکسوں کی ادائیگی کے رضاکارانہ شعور اور آگہی میں بدلا جا سکتا ہے۔ جب عام آدمی کا ریاست پر کھویا ہوا اعتبار بحال ہو گا اور اسے اندازہ ہوگا کہ ٹیکس دے کر وہ ریاست پر کوئی احسان نہیں کررہا بلکہ اپنا میعار زندگی بلند کرنے میں کردار ادا کرتا ہے تو وہ خوشی خوشی ٹیکس دے سکتا ہے۔ دیامر بھاشا ڈیم کے لیے اس مہم میں ہمیں اپنے دوست ملک چین کی کمپنیوں اور بینکوں کو بھی’’ تھینک یو‘‘ کہنا چاہیے جنہوں نے اور بہت سے دوستوں کی طرح ہمیں خود انحصاری کی راہ پر ڈالنے میں اہم کردار ادا کیا۔ دنیا بھر سے ڈیم کے لیے وسائل حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد آخری چارہ کار کے طور پر حکومت نے جب چینی اداروں سے رابطہ کیا تو قرض اس شرط کے ساتھ دینے پر آمادگی کا اظہار ہوا کہ ڈیم انہی کی ملکیت ہوگا۔ یہ وہ مرحلہ تھا جب اپنے لوگوں کے پاس جانے اور ان سے مدد مانگنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔