کراچی میں پلاسٹک سے سمندر کا دم گھٹ رہا ہے

644

جن شہریوں کے لئے یہ سب سے زیادہ مفیدہے وہی شہری ، وہی انسان جانے انجانے میں ایک عام، معمولی مگر ’انتہائی خطرناک ہتھیارپلاسٹک ‘سے اس کا گلا گھونٹ رہا ہے۔

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی سب سے اہم انفرادیت ہے۔کسی اور شہر کے ساحل پر جہازوں اور انسانوں کی اتنی زیادہ آمدورفت نہیں جتنی کراچی کے ساحل پر ہے۔لیکن دور دور تک پھیلے اور برسوں سے ٹھاٹھے مارتے اس سمندر کا اب دم گھٹنے لگا ہے۔

کلفٹن، کیماڑی، سینڈزپٹ، پیرا ڈائز پوائنٹ یا سنہری بچ کہیں بھی چلے جایئے پلاسٹک کی تھیلیاں اور بوتلیں ہر جگہ بکھری نظر آتی ہیں۔ ہر روز انگنت لوگ یہاں پکنک منانے آتے ہیں اور اپنے ساتھ لائے ہوئے پلاسٹک سے بنے شاپنگ بیگز، بوتلیں اور دیگر اسی نوعیت کی اشیاء یوں ہی زمین پر بکھری چھوڑ جاتے ہیں۔ اس سے سمندری آلودگی تو بڑھ ہی رہی ہے ،سمندری حیات بھی فنا ہونے لگی ہے۔ سمندری مخلوق کی تباہی کا یہ سلسلہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہی چلا جارہا۔

پلاسٹک زمین سے حاصل ہونے والے ’فوسل فیول‘ سے تیار کیا جاتا ہے اور لاعلمی میں اسے یوں ہی چھوڑ دیا جاتا ہے۔کچھ ہی عرصے بعدجگہ جگہ اس کے ڈھیر لگنا شروع ہو جاتے ہیں جو زمین سے اْگنے والی خوراک کو بھی زہریلا بنارہے ہیں۔

ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق دنیا میں ہر سال 500 ارب پلاسٹک کے تھیلے یا شاپنگ بیگز استعمال کیے جاتے ہیں جو سمندری آلودگی ، آبی حیات اور انسانوں کی خوراک کو زہریلا بنانے کا سب سے بڑا سبب بن رہے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق دنیا کے تمام سمندروں میں ہر سال 8.8 ملین ٹن پلاسٹک کاکچرا یوں ہی پھینک دیاجاتا ہے۔ اگر صورتحال کنٹرول نہ کی گئی تو 2025ء تک سمندروں میں مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک کا کچرا پایا جائے گا۔

پاکستان میں سن 2013 میں پلاسٹک کی تھیلیوں کے استعمال پر پابندی عائد کی گئی تھی لیکن اس کے باوجودناصرف ان کا استعمال تاحال بلاخوف و خطر جاری ہے بلکہ اس میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔

پاکستان کی ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے ایک جائزہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں پلاسٹک کی تھیلیوں کے استعمال میں ہر سال 15 فی صد اضافہ ہو رہا ہے۔ حد یہ ہے کہ ایک سال کے دوران استعمال ہونے والے ان تھیلیوں کی تعداد 55 ارب تک پہنچ گئی ہے۔

پلاسٹک کی تھیلیاں سمندرہی نہیں فضاء کو بھی آلودہ کررہی ہیں۔ یہ پانی سے بھی نہیں گلتیں جس سے سیوریج لائنیں بند ہوجاتی ہیں اور نکاسی آب رک جاتا ہے۔ انہیں کھلے عام جلانے کا بھی رواج ہے حالانکہ جلانے کی وجہ سے ان سے زہریلی گیسوں کا اخراج بھی ہوتا ہے جو متعدد بیماریوں کا سبب ہے۔

رپورٹ کے مطابق ملک میں پلاسٹک کی تھیلیاں بنانے والے کارخانوں کی تعداد آٹھ ہزار سے زائد ہے اور ان میں ہر ایک اوسطاً روزانہ 250 سے 500 کلو گرام پلاسٹک کی تھیلیاں بنا رہا ہے۔

پلاسٹک کے استعمال کے حوالے سے عالمی صورتحال یہ ہے کہ یورپی یونین 2030ء تک ایسا پلاسٹک لانے کا منصوبہ رکھتی ہے جو بار بار ری سائیکل کیا جاسکے گا۔اس طرح ایک بار ری سائیکل کے قابل پلاسٹک پر مکمل طور پر پابندی عائد کردی جائیگی۔

برطانیہ نے پلاسٹک بیگ، اسٹرا، کٹلری اور کاٹن بڈ پر پابندی لگانے لگادی ہے۔ آسٹریلیا نے ایک بار ری سائیکل ہونے والی تمام پلاسٹک مصنوعات پر مرحلہ وار پابندی کا آغاز کردیا ہے جبکہ پڑوسی ملک بھارت میں ممبئی سمیت کئی شہروں میں پلاسٹک بیگ اور دیگر پلاسٹک مصنوعات پرپابندی عائد کردی گئی ہے۔ کینیا اور روانڈا میں بھی پلاسٹک مصنوعات کے استعمال کو جرم قرار دیا جاچکا ہے۔

اب پاکستان کو بھی شاپنگ بیگز اور دیگر پلاسٹک اشیاء کے استعمال کو قابل سزا جرم قرار دینا ہوگا ورنہ خدشہ ہے کہ انسانوں کو بھی اس سے ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔

اس سے قبل کہ انسانی خوراک اور غذا بھی زہریلی ہوجائے حکومت پاکستان کو ترجیحی بنیادوں پر اس کا حل تلاش کرنا ہوگا۔