روشن قندیلیں

397

چند دنوں کے اندر تحریک اسلامی کے دو انمول ہیرے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ پہلے ’’عارفہ قمر‘‘ محترم اسامہ رضی بھائی کی زوجہ جن کی پوری زندگی ربّ کی اطاعت کا بہترین نمونہ تھی۔ دین کی آبیاری کے لیے اپنی زندگی کا ہر لمحہ مصروف عمل رہیں پھر جب شدید بیماری کی حالت میں بستر کی ہوئیں تو اس کیفیت میں بھی زبان پر شکر کا کلمہ رہا۔ پھر خرم مراد کے صاحبزادے ’’حسن صہیب مراد‘‘ جو تعلیمی معاملے کے لیے ہی سفر پر نکلے تھے تو واپسی میں فرشتہ اجل نے اُچک لیا۔ راستے میں مسافر کی موت پائی۔ شہادت کی ایک قسم حاصل کی۔ اللہ تعالیٰ اُن کی شہادت قبول فرمائے، جانا تو سب کو ہے، جب اور جس لمحے بلاوا آتا ہے کوئی ایک لمحے کی تاخیر نہیں کرسکتا ہے، نہ کیوں؟ کیسے؟ کا سوال کرسکتا ہے۔ لیکن بڑے قیمتی ہوتے ہیں وہ لوگ جن کی رخصتی پر ایک دُنیا افسردہ ہوتی ہے۔ جن سے محبت رشتوں ناتوں سے ماورا ہوتی ہے۔ علاقوں قومیتوں ہی سے نہیں ملکوں کی سرحدوں سے بھی آگے لوگ انہیں یاد کرتے ہیں۔ اُن کی جدائی پر دل کے اندر درد اُٹھتا ہے۔ آنکھوں کے دریا ٹوٹ کر بہتے ہیں۔ حسن صہیب مراد ایسے ہی تھے، ان کی رخصتی صرف ان کے خاندان کا نقصان نہیں پاکستان کا نقصان ہے بلکہ امت مسلمہ کا نقصان ہے۔
تعلیم کے ذریعے انقلاب ان کے مقاصد میں سے ایک مقصد تھا، اداروں کو بنانا اور تھوڑے ہی عرصے میں انہیں کامیاب ترین کردینا۔ یہ تو ابھی لوگوں کو سیکھنا تھا۔ نئی نسل کے لیے ان کا کردار کیسی مقناطیسی کشش رکھتا تھا، ظاہر ہے عظیم آدمی کا عظیم بیٹا، کم وقت میں بڑا کام کرگیا۔ میں تو سوچتی رہ گئی کہ ’’لمعت چچی‘‘ کو کیسے بتایا گیا ہوگا۔ لمعت چچی خرم مراد کی اہلیہ، ہم سے ان کا چچی بھتیجی کا رشتہ نہیں ہے لیکن اسامہ مراد بھائی اور مشعل رہبر کے بچے جب لمعت چچی اور خالدہ چچی (مسلم سجاد کی اہلیہ) کو یوں پکارا کرتے تھے تو ہماری زبان پر بھی یہی چڑھ گیا تھا۔ آہ ایک ماں کے لیے اولاد کا دُکھ کیسا جان لیوا ہوتا ہے پھر صہیب جیسا نیک فرمانبردار اور قابل بیٹا۔ بہرحال صبر اور بہترین صبر اس خاندان کا خاصہ ہے۔ صبر اُمید کا ایک انداز ہے اور شکر گزار مومن عافیت سے قریب تر ہوتا ہے۔ خرم مراد کی سب سے چھوٹی بہن شیما آپا سے ہماری اپنی شادی سے قبل بھی بہت اچھی ملاقاتیں تھیں جب بھی بنگلادیش سے آتی تھیں، مشعل ریبی کے ہاں ان سے ملاقات رہتی تھی، میرے لیے وہ ایک مثال تھیں ایک بالکل مختلف معاشرت میں رہنا اور بسنا اور ساتھ ساتھ جماعت اسلامی کام کرنا۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ سسرال میں زور آوری سے نہیں خاموشی سے بات ماننا کام آتا ہے۔ قربانی دے کر ہی جگہ بنتی ہے، عزت بنتی اور بڑھتی ہے۔ ہمایوں صاحب بنگالی تھے، مشرقی پاکستان میں جمعیت (شاترو شنگھو) اور جماعت اسلامی کے رہنما تھے، خرم مراد جب مشرقی پاکستان میں تھے۔ تو ان کی شادی ہوئی، پاکستان سے بنگلادیش بننے کے بعد انہوں نے بنگالی ہونے کے باوجود بڑی صعوبتیں اٹھائیں، قید و بند جھیلی، مالی خسارے برداشت کیے۔
شیما آپا سے ہماری اپنی شادی کے بعد بنگلا دیش گھومنے کے موقع پر وہاں بھی ملاقاتیں رہیں، بہت محبت اور مٹھاس ان کے لہجے میں گھلی ہے اور مسکراتا چہرہ۔ کسی مشکل وقت کا ذکر بھی کرتیں تو چہرہ جیسے مسکراتا ہی رہتا۔ ان کی بڑی بیٹی کے سسر مولانا سعیدی بھی بنگلادیش جماعت اسلامی کے ان ’’مجرموں‘‘ میں شامل ہیں جن کو پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے۔ خرم مراد کی والدہ کی تصویر بھی ذہن میں محفوظ ہے اور بچپن کی یادوں کا سرمایہ ہے، ان کے پیر کالونی والے گھر میں جب امی کا ہاتھ تھامے تپتی گرمیوں میں چق (چلمن) اٹھا کر ان کے کمرے میں داخل ہوتے تو جیسے ایک ٹھنڈے سائبان میں آجاتے تھے۔ انتہائی دبلی پتلی لیکن حد درجہ متحرک۔ ہمیشہ انہیں کچھ نہ کچھ کرتے ہی دیکھا۔ کتابیں اور سلائی مشین سرہانے دھری ہوتی اور کچھ نہ کچھ سینے کی تیاری ہوتی یا مطالعے میں مصروف ہوتیں۔ مشعل ریبی کے لیے ولیمہ کا غرارہ انہوں نے خود اپنے ہاتھوں سے سیا تھا۔ غرارے کی گوٹ پر خود ہی بروکیڈ کے پھول بنا کر لگائے تھے۔ ان کا خوبصورت رنگ اور انفرادیت ایسی تھی کہ آج بھی ذہن میں محفوظ ہے۔ خرم مراد جب سقوط ڈھاکا کے بعد قید میں ڈالے گئے ایک ماں کے لیے کیسا بڑا امتحان تھا، لیکن انہیں کبھی امی سے ملاقات کے دوران افسردگی کے عالم میں دیکھنے کی کوئی یاد ذہن میں نہیں ہے۔ یقیناًاللہ نے ان کی بہترین مہمان نواز کی ہوگی پھر ان کا اولاد اور اولاد در اولاد تو ہے ہی ان کے لیے بہترین صدقہ جاریہ ان شاء اللہ۔
وہ ایسی ہی سعید روحیں ہوتی ہیں کہ جب زندہ ہوں تو لوگ اپنے دلوں میں ان کے لیے بے اختیار کشش محسوس کرتے ہیں۔ ان کے وجود صحیح راستے کی طرف راہ نمائی کرنے والی قندیلیں ہوتی ہیں۔ ایک بیش بہا نعمت، ایک قابل دشک شخصیت اور جب دنیائے فانی سے رخصت ہوجاتی ہے تو لوگ انہیں محبت اور عقیدت سے یاد کرتے ہیں۔ ان کی زندگی کو نیکی‘ بھلائی اور بے غرض خدمت کی مثال بنا کر پیش کرتے ہیں۔ عارفہ قمر نے بھی زندگی کے میدانوں میں عمل کے ایسے پھول کھلائے ہیں جو مہکتے رہیں گے اور اپنی خوشبو سے سچے راستے کی طرف رہنمائی کرتے رہیں گے۔ وہ آج کے دور میں خواتین کے لیے دین کے لیے بے پناہ اور بے لوث محبت اور اس کے لیے جدوجہد کی مثال ہیں۔ حسن صہیب مراد قابل فخر باپ کا قابل فخر بیٹا۔ کون کون سے میدانوں میں سرگرم تھا، ابھی تو دنیا کو یہ خبر ہی نہیں ہے، صرف یہ معلوم ہے کہ تعلیم کا شعبہ بنیادی تھا، کتنے ہی خاندان ہیں جو تعلیم، روزگار اور صحت کے لیے اس کے ممنونِ احسان ہیں۔ وہ تعلیمی جدوجہد کے ذریعے آنے والے روشن دنوں کے لیے دروازے کھول گئے ہیں۔ اب ابراہیم مراد اور ان کے نوجوان ساتھیوں کو انہیں مزید روشن کرنے کا اہتمام کرنا ہوگا۔ دعا ہے کہ اللہ ان کے راستے آسان کرے۔ یقیناًمرنا سب کو ہے مگر عزت کی موت تھوڑے لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ یقیناًیہ وہ مومن ہوتے ہیں جو اللہ سے خریدوفروخت کا معاملہ طے کرتے ہیں جن کی خصوصیت سورۂ توبہ میں بیان کی گئی ہے کہ وہ ’’اللہ کی طرف بار بار پلٹنے والے‘ اس کی بندگی بجا لانے والے اس کی تعریف کے گن گانے والے، نیکی کا حکم دینے والے‘ بدی سے روکنے والے اور اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے (اس شان کے ہوتے ہیں وہ مومن جو اللہ سے خریدوفروخت کا یہ معاملہ طے کرتے ہیں) اور اے نبیؐ ان مومنوں کو خوشخبری دے دو۔