پچھلے ماہ مسلمانانِ عالم کی ایک قابل ذِکر تعداد نے دین اسلام کا پانچواں رکن یعنی حج کا فریضہ ادا کیا ہے اور اب یہ تمام لوگ آہستہ آہستہ اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں۔ سعودی عرب کے اعداد و شمار کے ادارے ’’جنرل اتھارتی فور اسٹیٹکس کے مطابق سال 2018ء میں کل عازمین حج کی تعداد 23 لاکھ 71 ہزار جن میں 17 لاکھ 60 ہزار غیر ملکی اور 6 لاکھ 12 ہزار مقامی تھے۔ مسلمانوں کو حج ادا کرنے کی قرآن و حدیث میں بہت تائید کی گئی ہے۔ مثلاً سورۂ آل عمران میں خدائے بزرگ و برتر نے فرمایا ہے ’’اور لوگوں پر خدا کا حق ہے کہ جو اس کے گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہے وہ اس کا حج کرے اور جو اس حکم کی پیروی سے انکار کرے اسے معلوم ہونا چاہیے کہ خدا سارے جہاں والوں سے بے نیاز ہے‘‘۔ اسی طرح ایک حدیث میں آپؐ نے حج نہ کرنے والوں کو سختی سے خبردار کیا ہے ’’جس شخص کو کسی بیماری نے یا کسی واقعی ضرورت نے یا کسی ظالم و جابر حکمران نے نہ روک رکھا ہو اور پھر بھی وہ حج نہ کرے تو چاہے وہ یہودی مرے یا نصرانی‘‘۔ سیدنا عمرؓ نے فرمایا ’’جو لوگ قدرت رکھنے کے باوجود حج نہیں کرتے میرا جی چاہتا ہے کہ اُن پر جزیہ لگادوں۔ وہ مسلمان نہیں ہیں وہ مسلمان نہیں ہیں‘‘۔
نماز، روزہ اور زکوٰۃ کے مقابلے میں حج ایک مختلف قسم کی عبادت ہے جس کا آغاز 8 ذی الحج کو منیٰ کے خیموں کے قیام سے شروع ہوتا ہے۔ 9 ذی الحج کو میدانِ عرفات کو روانگی ہوتی ہے، چند گھنٹے ٹھیرنے کے بعد غروب آفتاب کے وقت وہاں سے واپسی اور مزدلفہ کا سفر شروع ہوجاتا ہے، رات میں کھلے آسمان تلے قیام کے بعد 10 ذی الحج کو جمرات پہنچنا ہوتا ہے، جہاں رمی کرنا ہوتی ہے یعنی شیطان کو کنکر مارنے کا عمل کیا جاتا ہے، اس کے بعد عازمین حج بال کٹواتے ہیں یا سر منڈواتے ہیں اور اس سے پہلے قربانی لازمی کرنا ہے، اس کے بعد حجاج کرام احرام کھول کر عام لباس میں آجاتے ہیں لیکن اس کے بعد مزید دو دن رمی کرنا ہوتی ہے اور بیت اللہ کے دو طواف حج کا حصہ ہیں۔ پہلا طواف، طواف زیارت اور دوسرا طواف وداع کہلاتا ہے۔ یہ پورا حج کا عمل ایک محنت، مشقت اور برداشت سے عبارت ہے، میلوں چلنا عام سی بات ہے آرام کی قربانی، نیند کی قربانی، کھانے پینے کی قربانی مناسک حج کا لازمی جزو ہے لیکن اس کے برعکس حقیقت یہ بھی ہے کہ آج حج جتنا آسان ہے بیس پچیس سال پہلے اتنا آسان نہیں تھا۔ مثلاً آپ منیٰ کے خیمے میں ہیں جو فائر اور واٹر پروف ہیں، اُن میں ائرکنڈیشنز اور واٹر کولر اور ٹھنڈی ہوا گزرنے کا معقول انتظام ہے، سونے کے لیے قالین بچھے ہیں اور اُن پر فوم کے گدے بھی۔ سڑکوں اور راستوں پر گزرتے ہوئے اُونچے اُونچے کھمبوں سے ٹھنڈے پانی کی بارش آپ پر ہورہی ہے، تمام راستوں پر واٹر کولر لگے ہیں اور آپ کے سر اور چہرے پر پانی کا چھڑکاؤ کیا جارہا ہے۔ کھانے پینے کی، ٹھنڈا پانی، شربت، کولڈ ڈرنگ کی بہتات ہے، راستوں پر پانی، کھانا اور پھل مفت تقسیم کیا جارہا ہے۔ اس بابرکت اور پُرنور فضا میں انسان کا دل بے اختیار اپنے ربّ کی طرف رجوع کرتا ہے بلکہ قریب ہوجاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہر طرف اللہ کی رحمت اور برکت کی بارش ہورہی ہے۔ ایک سکون اور اطمینان کی فضا پھیلی ہوتی ہے، مَرد و خواتین، بوڑھے، معذور اور بیمار سب اللہ کی طرف لو لگاتے ہیں۔ یہ کیفیت ہر جگہ ہوتی ہے چاہے آپ خانہ کعبہ کا طواف کررہے ہوں یا وقوف عرفات میں ہوں، یا مسجد نبوی میں روضہ رسول پر حاضری دے رہے ہوں۔ نماز پڑھ رہے ہوں، ذکر و اذکار میں مشغول ہوں یا تلاوت قرآن کررہے ہوں، ہر رنگ، ہر نسل، مختلف ممالک اور مختلف زبانیں بولنے والے سب ایک ہی کیفیت میں ڈوبے نظر آتے ہیں۔
حج کے ایام میں ٹرانسپورٹ، کھانا پینا، مشروبات، چھوٹے بڑے ہوٹلوں، تسبیح، جاء نماز، ٹوپیاں، کھجور اور منرل واٹر کا کاروبار چمک اُٹھتا ہے۔ مکہ کی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے مطابق پرائیویٹ سیکٹر کا 30 فی صد کاروبار حج اور عمرہ کے باعث ہے۔ سعودی عرب کی مجموعی قومی پیداوار سالانہ (GDP) 546 ارب ڈالر ہے یعنی پاکستان کا دوگنا۔ جب کہ فی کس آمدنی 20 ہزار امریکی ڈالر جو پاکستان سے 10 گنا زیادہ ہے۔ یہاں کی معیشت کی بنیاد تیل کی پیداوار اور تیل کی برآمدات ہیں۔ سعودی عرب میں دنیا کا دوسرا بڑا تیل کا ذخیرہ ہے جب کہ پانچواں بڑا گیس کا ذخیرہ ہے۔ حج کے موقع پر عارضی طور پر 60 ہزار ملازمتیں پیدا ہوتی ہیں اور حج کی آمدنی سعودی عرب کی مجموعی قومی پیداوار کا 3 فی صد ہے اور اس طرح حکومت کو 20 ارب ڈالر کی آمدنی حاصل ہوتی ہے۔ لیکن دوسری طرف مناسک حج کو آسان بنانے اور راستوں کو مختصر کرنے کے لیے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی جارہی ہے۔ مسجد الحرام کی توسیع و تزئین کا کام مسلسل جاری رہتا ہے، اسی طرح مکے کے پہاڑوں کو کاٹ کر سرنگیں بنائی گئی ہیں جن میں سے سڑکیں نکالی گئی ہیں، اس طرح منیٰ اور العزیزیہ سے جمرات کے راستے مختصر ہوگئے ہیں مکہ اور مدینہ کے درمیان سفر مختصر کرنے کے لیے ٹرین چلائی گئی ہے۔ اسی طرح منیٰ کے دور دراز خیموں سے رمی کے لیے آنے والوں کے لیے پہاڑوں کے اوپر ٹرین چلائی گئی ہے، ان تمام کاموں کی تعمیر اور وسعت کے لیے اربوں ڈالر کا ایک فنڈ قائم ہے۔ منیٰ کے خیموں میں آگ لگنے کے بعد اب خیمے ایسے میٹریل سے بنائے گئے ہیں جن میں سے نہ تو پانی گزر سکتا ہے اور نہ انہیں آگ پکڑ سکتی ہے۔ بالکل یہی معاملہ عرفات کے خیموں کا بھی ہے، وہاں بھی ائرکنڈیشنز لگے ہیں، قالین بچھے ہیں اور کثرت سے واش روم بنائے گئے ہیں۔
سیروسیاحت (Tourism) اور نقل و حمل (Logsties) کے ماہرین کا کہنا ہے کہ لاکھوں افراد کو مختصر وقت میں ایک جگہ سے دوسری اور وہاں سے تیسری اور وہاں سے چوتھی جگہ منتقل کرنا ایک بھرپور منصوبہ بندی، کنٹرول اور نگرانی کے بغیر ممکن نہیں۔ مزید یہ کہ 10، 11، 12 ذی الحج کو لاکھوں کی تعداد میں خانہ کعبہ کا رُخ کرنا جہاں وہ طوافِ زیارت کرتے ہیں وہاں چھوٹی سی غلطی یا لاپروائی کسی بھی حادثے، افراتفری اور بھگدڑ کا باعث بن سکتی ہے لیکن وہاں سیکڑوں کی تعداد میں سرکاری اہلکار اور اُن پر نگران تعینات کیے جاتے ہیں جنہیں مجمع کنٹرول کرنے کی سخت تربیت دی جاتی ہے۔ چناں چہ چاہے حرم ہو یا مسجد نبویؐ لاکھوں کا مجمع پُرسکون اور منظم انداز میں حرکت کررہا ہوتا ہے۔
پاکستان سے ہر سال عازمین حج کی بڑی تعداد اِن مقامات مقدسہ کا رُخ کرتی ہے۔ سعودی حکومت کی طرف سے پاکستان کو جو کوٹا دیا گیا ہے اس کا نصف سرکاری انتظام سے حج کرتا ہے اور باقی نصف نجی شعبے کے ذریعے حج کا فریضہ انجام دیتا ہے۔ اب جب کہ پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت ہے جس کا نعرہ ہی تبدیلی ہے اس کو چاہیے نجی شعبے کا حصہ کم کرے اور حج کے تمام انتظامات اپنے ذمے لے۔ مثلاً سرکاری حج اخراجات میں کمی کی جائے جو اس وقت بھارت سے بھی زیادہ ہیں، دوسرے حج کے سفر کے لیے نجی ائرلائنز کو بھی موقع دیا جائے، حج کو پی آئی اے کی آمدنی کا ذریعہ نہ بنایا جائے، اس سال پی آئی اے کی ناقص کارکردگی سے حجاج کرام کو سخت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ مکہ اور مدینہ میں وزارت حج کی جانب سے حج کے موقع پر مخلص، بے لوث اور فعال افراد پر مشتمل حج سہولتوں کے مراکز قائم کیے جائیں، اگر حاجیوں کی دعائیں آپ کے ساتھ ہوں گی تو اللہ تعالیٰ آپ کی حکومت کو آسانیاں فراہم کرے گا اور پاکستان ایک مضبوط، مستحکم اور اسلامی ریاست میں تبدیل ہوسکے گا۔