چین کی قدیم تہذیب چار ہزار سال پرانی تھی۔ دنیا کی دوسری مذہبی تہذیبوں کی طرح یہ بھی ایک مذہبی تہذیب تھی۔ اہل علم کے مطابق اس تہذیب کا ایک پہلو ماؤ ازم تھا جسے چین میں موجود مذہب کے دائرے میں طریقت کی حیثیت حاصل تھی۔ اس تہذیب کا ایک پہلو کنفیوشزم تھا۔ ماہرین کے مطابق اس کی حیثیت چین میں موجود مذہب کی شریعت کی تھی۔ اگرچہ کمیونسٹ انقلاب سے پہلے یہ تہذیب دم توڑ چکی تھی مگر کمیونسٹ انقلاب نے اس تہذیب کو صفحہ ہستی سے مٹادیا۔ گزشتہ 40 سال سے چین زیادہ سے زیادہ مغربی بننے کے لیے کوشاں ہے۔ چین کے خواب مغربی ہیں، چین کا طرزِ زندگی مغربی ہے، چین کا طرِزِ تعمیر مغربی ہے، چین مغربی لباس اختیار کرچکا ہے، چین مغربی غذائیں نوش جان کررہا ہے، چین کی فلموں پر ہالی ووڈ کے اثرات بڑھ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ چین کی موسیقی بھی مغربی ہوچکی ہے، لیکن یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ چین کی قدیم روایتی تہذیب میں موجود فطرت کا تصور سراسر مقامی اور مشرقی تھا۔ آئیے اس سلسلے میں عسکری صاحب کے علم اور فہم میں شرکت کرتے ہیں۔ عسکری صاحب نے لکھا۔
’’سرسید نے ’’فطرت‘‘ کا جو تصور پھیلانا چاہا وہ اسلامی علوم میں کہیں نظر نہیں آتا، بلکہ پورا مشرق اس تصور سے اس قدر بیگانہ ہے کہ بقول رینے گینوں جن چیزوں کو موجودہ دور میں مغرب والے ’’فطرت‘‘ یا ’’مادہ‘‘ کہتے ہیں ان کے لیے مشرق کی کسی زبان میں کوئی مترادف لفظ موجود نہیں۔
اب ہم مشرقی تصورات کا جائزہ لیتے ہیں اور چین سے بحث کا آغاز کرتے ہیں۔ مغربی فلسفے اور ادب میں عموماً ’’خدا اور فطرت‘‘ (God and Nature) کا فقرہ اس طرح استعمال ہوتا ہے۔ گویا یہ دونوں حقائق لازم و ملزوم ہیں یا ایک دوسرے کا تکملہ ہیں۔ اس تصور سے عقائد کی بہت سی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں اور مابعدالطبیعیات کے لحاظ سے بھی دیکھا جائے تو مہمل نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ رینے گینوں نے تصریح کے ساتھ بتایا ہے کہ اس فقرے میں اگر کوئی صحیح معنی ہیں تو وہ کیا ہوسکتے ہیں۔ پہلی بات تو وہ کہتے ہیں کہ اگر ’’خدا اور فطرت‘‘ کو لازم و ملزوم سمجھا جائے تو یہاں لفظ ’’خدا‘‘ کو نہایت محدود معنوں میں استعمال کرنا چاہیے تا کہ شرک یا مظاہر پرستی کا خطرہ نہ پیدا ہو۔ ان کی مراد یہ ہے کہ یہاں لفظ ’’خدا‘‘ کو صرف صفت خالقیت کا مترادف سمجھنا چاہیے۔ ان معنوں میں خدا تو ظہور کا فاعلی اصول ہو گا اور فطرت انفعالی اصول ارسطو کی اصلاح میں یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ’’خدا ’’فعل‘‘ ہوگا اور فطرت ’’قوۃ‘‘۔ یعنی ظہور کلّی کے اعتبار سے فعل مطلق اور قوت مطلق اور زیادہ محدود و تعینات کی سطح پر آکر فعل اضافی اور قوت یا ارسطو کی اصلاح میں ’’جوہر‘‘ (Essence) اور ’’مادہ‘‘ (Substance)۔ آگے چل کر گینوں بتاتے ہیں کہ اس فاعلی اور انفعالی کیفیت کو ظاہر کرنے کے لیے مغربی فلسفے میں خدا اور فطرت کے دو اور مترادفات استعمال ہوتے ہیں۔ Natura Naturans اور Natura Naturata ’’خدا اور فطرت والے فقرے میں تو Natura سے مراد تھی انفعالی اصول، مگر یہاں اس لفظ سے اشارہ ہے ان دو اصولوں کی طرف جن کے ذریعے ’’شدن‘‘ (Becoming) کا عمل ظاہر ہوتا ہے۔
اس مقام پر گینوں حاشیے میں ایک اور ضروری تشریح کرتے ہیں جسے سرسید کے نظریۂ فطرت پر بحث کرتے ہوئے یاد رکھنا لازمی ہے۔ اگر محض لفظ Natura بغیر کسی اضافے کے استعمال کیا جائے تو اس سے عموماً مراد ہوتی ہے Natura Naturata مگر بعض دفعہ اس اصطلاح میں Natura Naturans اور Natura Naturata دونوں کا مفہوم شامل ہوتا ہے۔ اس صورت میں Natura کا کوئی تکملہ نہیں ہوسکتا۔ کیوں کہ اس سے باہر یا تو اصل الاصول ہے یا ظہور۔ اس کے برخلاف پہلی صورت میں ’’خدا فطرت اور انسان‘‘ والے مثلث کی Natura مراد ہوتی ہے۔ لاطینی کے لفظ Natura اور یونانی کے لفظ Phusis دونوں میں ’’شدن‘‘ (Becoming) کا تصور لازمی طور سے موجود ہے۔ یعنی ظہور میں آنے والی ’’فطرت‘‘ وجود مطلق نہیں رکھتی بلکہ وہ چیز ہے جو ’’وجود میں آتی ہے‘‘ (that which becomes) اس ’’فطرت‘‘ سے جن اصولوں کا تعلق ہے یہ وہ ہیں ’’جو چیزوں کو وجود میں لاتے ہیں‘‘۔
مندرجہ بالا اصول تو وہ ہیں جو ہر روایتی نظریہ فطرت کو سمجھنے کے لیے لازمی ہیں تا کہ مغربی نظریوں سے انہیں الگ کیا جاسکے۔ اس کے بعد رینے گینوں انہی اصولوں کو چینی روایت کے حوالے سے سمجھاتے ہیں۔ چینی روایت کے نزدیک تمام موجودات کی تشکیل یانگ اور ین (yang and yin) یا آسمان اور زمین کرتے ہیں اور ظہور پزیر عالم میں ’’ان دو اصولوں یعنی یانگ اور ین کی حرکت ہی تمام چیزوں پر حکمرانی کرتی ہے‘‘۔ لہٰذا چینی روایت میں تخلیق کا تصور کچھ اس طرح ہے۔ پہلے تو وجود قدیم (Tai-ki) میں وجود کی ان دو کیفیات یعنی یانگ اور ین کا امتیاز پیدا ہو۔ پھر ان دونوں کی حرکت شروع ہوگئی جس سے کائنات ظہور میں آئی۔ ین کی حقیقت ساکن انفعالیت ہے اور اس کی ٹھوس شکل زمین ہے۔ یانگ کی حقیقت بار آور فاعلیت ہے، اور اس کی ٹھوس شکل آسمان ہے۔ زمین کی انفعالیت نے اپنے آپ کو آسمان کے سامنے پیش کیا تو آسمان کی فاعلیت نے زمین پر اپنا عمل کیا اور اس طرح ان دونوں نے تمام موجودات پیدا کیں۔ آسمان اور زمین کا عمل اور ردعمل ایک ایسی طاقت ہے جو حواس کے ذریعے ادراک میں نہیں آسکتی۔ اور یہی طاقت موجودات کو ظہور میں لاتی ہے اور ان میں تبدیلی رونما کرتی ہے۔
آسمان (جوہر)
انسان کامل (ظہور)
زمین (مادہ)
’’چینی روایت کہتی ہے، آسمان ڈھکتا ہے اور زمین بوجھ سنبھالتی ہے‘‘۔ یہ فقرہ وضاحت کرتا ہے کہ ان دونوں منسلکہ اصولوں کے عوامل کیا ہیں۔ یہ فقرہ رموزی انداز میں یہ بھی بتاتا ہے کہ دس ہزار ہستیوں، یعنی ظہور کلی کی مناسبت سے ان دو اصولوں میں سے ایک کی حیثیت تو اعلیٰ ہے اور دوسرے کی ادنیٰ۔ یعنی ایک طرف تو آسمان یا پرش کے فعل کی بے عملی کی نوعیت بتائی گئی ہے اور دوسری طرف زمین یا پرا کرتی کی مفعولیت جو دراصل ظہور کے لیے محض ایک معاون کا کام کرتی ہے۔
’’مشرق بعید کی روایت اور خصوصاً اس کا نظریہ کائنات دو اصولوں کو خاص اہمیت دیتا ہے جن کے نام یانگ اور ین رکھے گئے ہیں۔ ہر چیز جو فاعل یا مثبت ہو یا جس میں مردانگی کا رنگ پایا جائے وہ یانگ ہے۔ جو چیز مفعول یا منفی یا نسائیت کا رنگ لیے ہو وہ ین ہے۔ رموزی اعتبار سے ان دو اصولوں کو نورا اور ظلمت سے متعلق کیا جاتا ہے۔ ہر چیز میں اس کی روشن جہت کو یانگ کہا جاتا ہے اور تاریک جہت کو ین۔۔۔ یانگ وہ چیز ہے جو آسمان کی حقیقت سے پیدا ہوتی ہے اور ین وہ چیز ہے جو زمین کی حقیقت سے پیدا ہوتی ہے۔ کیوں کہ زمین اور آسمان ایک دوسرے کا تکملہ ہیں اور اس قسم کا پہلا جوڑا ہے جس سے اسی طرح کے اور سب مخصوص جوڑے نکلتے ہیں جو ایک دوسرے کا تکملہ ہوں۔ موجودات کی یانگ جہت ان کی جوہری یا روحانی حقیقت سے ہم آہنگ ہے۔ دوسری طرف ین جہت کے ذریعے موجودات کا تعلق مادہ سے قائم ہوتا ہے۔ مادہ اپنی اصلی حالت میں محض ایک صلاحیت ہے اور اس کے اندر کوئی امتیاز نہیں پایا جاتا۔ اس لیے مادہ بنیادی طور پر غیر معقول ہے۔ چناں چہ ہم مادہ کو وجود کی تاریک اصل کہہ سکتے ہیں۔ اس نقطہ نظر سے ارسطو کے فلسفے اور ازمنہ وسطیٰ کے فلسفے کی اصلاح میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ یانگ ہر وہ چیز ہے جو بالفعل یعنی In act ہو اور ین ہر وہ چیز ہے جو بالقوہ (In power) ہو۔ کیوں کہ جو چیز بھی ظہور میں آئے یہ دونوں جوانب اس میں لازمی طور پر موجود ہوتی ہیں اور ازسرنو ایک دوسرے سے مل جاتی ہیں۔ چناں چہ آسمان کلی طور پر یانگ ہے اور زمین کلی طور سے ین۔ اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ جو ہر خالص فعل ہے اور مادہ خالص قوت‘‘۔
’’ ین خارجی ہے اور یانگ داخلی یعنی حواس کے ذریعے ادراک صرف زمینی اثرات کا ہی ہوسکتا ہے جو ین ہے۔ آسمانی اثرات یانگ ہیں اور حواس کے دائرے سے باہر ہیں۔ وہ صرف عقلی صلاحیتوں کے ذریعے گرفت میں آسکتے ہیں۔ اسی لیے چین کی روایتی کتابوں میں عموماً ین کا نام یانگ سے پہلے لیا جاتا ہے اور ظہور کے ادنیٰ پہلو کو اعلیٰ پہلو سے آگے رکھا جاتا ہے۔ ایک خاص قسم کے کائناتی نقطہ نظر کی خصوصیت ہے کہ ان دو اصولوں کو جو ایک دوسرے کا تکملہ ہیں اس طرح ذکر کیا جائے کہ ادنیٰ اعلیٰ سے پہلے آئے۔ ہندو روایت میں یہ بات سانکھیا درشن میں ملتی ہے جہاں تتّوا (Tattwas) کے شمار میں پرا کرتی سب سے پہلے آتی ہے اور پرش سب سے بعد میں۔ دراصل ایسے نظریوں میں ایک قسم کا عروجی عمل ملتا ہے یعنی جس طرح عمارت کی تعمیر بنیاد سے شروع ہوتی ہے اور چوٹی پر جا کر ختم ہوتی ہے۔ یہ عمل بھی اس چیز سے شروع ہوتا ہے جو براہِ راست اور فوری طور پر گرفت میں آسکے تا کہ وہاں سے اس چیز کی طرف بڑھ سکیں جو سب سے زیادہ مخفی ہے۔ یعنی یہ عمل خارج سے داخل کی طرف یا ین سے یانگ کی طرف چلتا ہے۔ اس اعتبار سے کائناتی نقطہ نظر مابعد الطبیعیات نقطہ نظر سے بالکل متضاد ہے جو اصول سے شروع کرکے نتائج کی طرف بڑھتا ہے، اور پہلے نقطہ نظر کے برخلاف داخل سے خارج کی طرف چلتا ہے۔
یہ دو نقطہ نظر حقیقت کے دو مختلف مراتب سے مناسبت رکھتے ہیں۔ عیسوی روایت میں اس کی مثال یہ ہے کہ کائناتی عوامل یا ظلمتیں آغاز میں ہیں اور روشنی اس انتشار میں ترتیب پیدا کر کے کائنات کو ظہور میں لاتی ہے وہ ظلمتوں کے بعد ہے۔
’’بہت سی دوسری روایتوں کی طرح مشرق بعید کی روایت بھی یہی کہتی ہے کہ ابتدا میں آسمان اور زمین الگ الگ نہیں ہوئے تھے۔ درحقیقت ان دونوں کا مشترک اصول، تائی کی، (Tai-Ki) جس کے اندر یہ دونوں لازمی طو رسے متحد ہیں اورایک دوسرے سے امتیاز نہیں رکھتے۔ لیکن ظہور کے نمودار ہونے کے لیے لازمی ہے کہ وجود اپنے اندر جوہر اور مادے کی دو جہتیں پیدا کرے۔ ان دو متعلقہ اصولوں کو آسمان اور زمین کہا جاتا ہے، اور دو جہتیں پیدا ہونے کے عمل کو الگ الگ ہونا کہا جاتا ہے۔ کیوں کہ ظہور انہی دونوں اصولوں کے درمیان یا ان دونوں کے فصل کے درمیان وقوع پزیر ہوتا ہے۔
مغرب کے روایتی تصورات ہیں تین اصولوں کا ذکر ملتا ہے جنہیں فلسفے میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی خدا، انسان اور فطرت، ان اصلاحات کا تعلق ایک ایسے قسم کے عمل سے ہے جو خالصتاً مابعد الطبیعیات نہیں۔ اس کے برخلاف چینی روایت میں تین اصول ہیں۔ آسمان، انسان اور زمین۔
مغربی تصورات میں جس اصول کو خدا کہا جاتا ہے اسے بنفسہ اصل الاصول کے مترادف قرار نہیں دیا جاسکتا۔ پھر ہم نے جن تین مغربی اصولوں کا ذکر کیا ان سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ ان تینوں کے درمیان ایک متلازم ارتباط ہے بلکہ خدا اور فطرت کے درمیان ایک ایسا رشتہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کا تکملہ ہیں۔ اس سے لازمی یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ خدا کا مغربی تصور تنزیہی (Transcendental) نہیں بلکہ سریانی (Immanence) ہے۔ علاوہ ازیں خدا کے اس نظریے کا تعلق اس چیز سے ہے جسے قدیم یونانی فلسفی ’’عقلی الٰہیات‘‘Theology Rationalکہتے ہیں تاکہ اسے وحی پر مبنی الٰہیات سے الگ کیا جاسکے لیکن جو چیز ’’عقلی‘‘ ہو اس کا تعلق انسان کی انفرادی صلاحیتوں کے استعمال سے ہے۔جس کے ذریعے خود اصل الاصول تک نہیں پہنچا جاسکتا۔ صرف اتنی بات ادراک میں آسکتی ہے کہ کائنات سے اس کا رشتہ کیا ہے۔
اگر ہم یہ تصریح ذہن میں رکھیں تو کہہ سکتے ہیں کہ جس چیز کو مغرب میں خدا کہا جاتا ہے اس کا نام مشرق بعید کی روایت میں آسمان ہے۔ کیوں کہ اس روایت کے نزدیک ظہور میں آنے والی کائنات کے اصول تک صرف آسمان کے ذریعے پہنچ سکتے ہیں کیوں کہ ’’آسمان اصل الاصول کا آلہ کار ہے‘‘۔
’’اگر ہم لفظ فطرت یا نیچر (Nature) کو قدیم ترین معنوں میں استعمال کریں، یعنی بمعنی ابتدائی اور بلا امتیاز فطرت کے جو تمام اشیا کی جڑ ہے اور جسے ہندو روایت میں مول پرا کرتی کہتے ہیں، تو ہم نہایت آسانی سے کہہ سکتے ہیں کہ فطرت مشرق بعید کی روایت میں زمین کے مترادف ہے۔ لیکن یہاں ایک پیچیدگی پیدا ہوتی ہے جب ہم فطرت کا ذکر بطور علم کے ایک موضوع کے کرتے ہیں تو اس سے ہمارا مفہوم وسیع تر ہوتا ہے۔ اور اتنا واضح بھی نہیں ہوتا، اور ہم فطرت کو ان تمام چیزوں کے مطالعہ سے وابستہ کرتے ہیں جنہیں ظہور پزیر فطرت (Manifested Nature) کہا جاسکتا ہے۔ یعنی ان تمام چیزوں سے جن پر کائنات مشتمل ہے (مغربی زبانوں میں نیچر کا لفظ دونوں معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ ناگزیر تو ہے لیکن اس سے چند پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اس کے برخلاف عربی میں ابتدائی فطرت کو ’’الفطرۃ‘‘ کہتے ہیں اور ظہور پزیر فطرت کو ’’الطبیعہ‘‘ کہتے ہیں۔ اس لفظ کے معنی کو یوں وسعت دینے کا ایک جواز بھی ہوسکتا ہے، ہم کہہ سکتے ہیں کہ لفظ فطرت کو ان دوسرے معنوں میں استعمال کرتے ہوئے ہمارے مدنظر ’’جوہری‘‘ پہلو نہیں بلکہ ’’مادی‘‘ پہلو ہے، یا جس طرح ہندو سانکھیا درشن میں ہوتا ہے کہ اشیا کی خصوصیت کے ساتھ موجودگی کو پراکرتی کی پیداوار سمجھا جاتا ہے اور پرش کے اثر کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ حالاں کہ اس کے بغیر کوئی چیز صورت پزیر نہیں ہوسکتی، کیوں کہ محض قوت کے ساتھ کوئی چیز بالقوہ سے بالفعل کی حالت میں نہیں آسکتی، غالباً اشیا کے تصور کے اس طریقے میں وہ خصوصیت نمایاں ہوتی ہے جو طبیعیات (Physics) یا فطری فلسفہ (Natural Philosophy) کے نقطہ نظر میں پنہاں ہے۔ (یہاں ہم لفظ Physics کو اس کے قدیم اور اصل معنوں میں استعمال کررہے ہیں۔ یعنی بمعنی ’’علم فطرت‘‘۔ ابتداً انگریزی میں Natural Philosophy کی اصطلاح اس لفظ کے ہم معنی تھی لیکن دور جدید میں کافی عرصے تک یا کم از کم نیوٹن کے زمانے تک ان محدود اور مخصوص معنوں میں استعمال ہوتی رہی ہے جن میں آج کل Physics کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اس سے بھی اچھا ایک اور جواز یہ پیش کیا جاسکتا ہے کہ انسان کی نسبت سے پورے کائناتی ماحول کو ’’خارجی دنیا‘‘ سمجھا گیا ہے۔ جتنی چیزیں ’’خارجی‘‘ ہیں انہیں ’’زمینی‘‘ کہا جاسکتا ہے اور اسی طرح جو کچھ ’’داخلی‘‘ ہو اسے ’’آسمانی‘‘ کہا جاسکتا ہے۔
یہاں کہنے کی ایک بات یہ ہے کہ پوری چینی روایت میں فطرت کا وہ مفہوم موجود نہیں جس کو سرسید اپنی تحریروں میں کھل جا سم سم کے طور پر استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔