خوابوں کی دلدل

285

 

 

وفاقی وزیر شفقت محمود نے وزیراعظم اور گورنر ہاوسز اور سرکاری ریسٹ ہاوسز کو مختلف منافع بخش منصوبوں کے لیے استعمال کرنے کا اعلانِ مکرر کیا ہے۔ اس سے پہلے وزیر اعظم عمران خان نے اپنی پہلی تقریر میں ان قومی املاک وعمارات کو اس انداز سے دوسرے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا اعلان کیا تھا کہ یہ قومی خزانے پر مستقل بوجھ بن کر نہ رہ جائیں۔ حکومت کو اس وقت قلیل المیعاد اور طویل المیعاد قسم کے فیصلوں کی مشکل اور جانگسل مرحلہ درپیش ہے۔ قلیل المیعاد فیصلوں کا تعلق لمح�ۂ موجود سے ہے۔ عام آدمی اور آج کے دور میں جینے والے فرد سے ہے جس میں حکومت کے حامی بھی ہیں اور مخالف بھی اور سیاست سے لاتعلق اور سختی سے پرہیز کرنے والوں کی بہت بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ ان کی اکثریت حکومت کی کامیابی اور ناکامی کا میعار لمحہ موجود یعنی اپنے آج بلکہ ابھی کو بناتی ہے۔ اس کے لیے وہ حکومت ناکام ترین ہوتی ہے کہ جو اس کی جیب آئے روز رنگ برنگے ٹیکسوں کی چھری سے کاٹتی ہے گویا وہ کفن چور کو دیکھ کر اس کے مرحوم والد کی مداح سرائی کرتی ہے جو کفن تو چراتا تھا مگر مردے کی بے حرمتی نہیں کرتا تھا۔ لمحہ موجود میں حکومت اپنا نقش قائم نہ کر سکے تو پھر سطحِ آب پر تیرتی ہوئی ناؤ جیسی ہوکر رہ جاتی ہے۔ پھر کسی بھی حکومت کو اپنا نقش بنانے کے لیے بہت محنت کرنا پڑتی ہے تب بھی یہ خلق خدا پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ اپنی رائے تبدیل کرتی ہے یا نہیں۔
حکومت کے کچھ فیصلے اس عام آدمی کی زندگی میں لمحوں کی تاخیر سے منعکس ہوتے ہیں۔ اشیائے خور ونوش اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوتے ہی اس کا بوجھ عام آدمی پر پڑتا ہے۔ اس فوری فیصلے سے عوام کی رائے بنتی ہے۔ طویل المیعاد فیصلوں کا تعلق آنے والی نسلوں سے ہے۔ ان فیصلوں کا اثر فوری طور عام آدمی کی زندگی پر مثبت اور منفی کسی انداز سے مرتب نہیں ہوتا۔ یہ فی الحقیقت خوابوں کی ایک دلدل ہوتی ہے۔ پاکستان کی تلخ تاریخ میں اجلے دامنوں والے کئی سیاسی کردار اور صاف وشفاف تاریخ کی حامل کئی جماعتوں کو اس دلدل میں دھنستا دیکھا گیا ہے۔ یہ لوگ صاف نیت اور پاک کردار کے حامل ہونے کے باجود اپنے خوابوں کو لمحہ موجود اور زمینی حقیقتوں سے آشنا نہ کرسکے اور وقت کا بے رحم دھارا اور اس وقت کے مخاطب عوام دونوں انہیں خواب نگر میں چھوڑ کر آگے بڑھ جاتے رہے۔ احمد فراز نے اسے شیشوں کے مسیحا کی تلاش کہا ہے۔
تم ناحق ٹکڑے چن چن کر دامن میں چھپائے بیٹھے ہو
شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں کیا آس لگائے بیٹھے ہو
عمران خان بھی بنیادی طور پر خواب دیکھنے والے انسان ہیں۔ ان کی تقریروں میں ماضی کے حوالے اور مستقبل کے خواب اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ یوں اس بات کا امکان موجود ہے کہ وہ ماضی کے کئی کرداروں کی طرح خوابوں کی دلدل میں پھنس کر نہ رہ جائیں۔ وہ آنے والی نسلوں کا سوچتے سوچتے موجودہ نسل کو ناراض ہی نہ کردیں۔ خود ان کے گرد بھی طبقہ اشرافیہ ہی موجود ہے جو ان کی اصلاحات اور مہمات کا بوجھ زیادہ دیر تک اُٹھا کر چلنے کی سکت نہیں رکھتا۔ جاگیردار، خوانین، سرمایہ دار پیٹ پر کتنے پتھر اور کتنی دیر تک باندھے رکھ سکتے ہیں یہ ہم سب کو معلوم ہے۔ یہ سادگی کی قید میں کتنے دن گزار سکتے ہیں؟ یہ بھی دیوار پر لکھا نظر آرہا ہے۔ عمران خان جس کلچر سے لڑنے چل پڑے ہیں وہ کلچر اور اس میں گندھے ہوئے کردار ان کے چہار جانب رقصاں ہیں۔
حکومت کو درپیش طویل المدتی اور قلیل المیعاد دونوں فیصلوں کا تعلق پاکستان کے ستر سالہ ماضی سے ہے۔ اس دور کے وردی اور شیروانی پوش حکمرانوں اور ان کے گرد جمع طبقہ اشرافیہ سے ہے۔ دونوں حکمرانوں کے اقتدار نے پاکستان کو مزید بحرانوں کا شکار کرکے چھوڑا۔ نئے آنے والے چند دن جانے والوں کی پالیسیوں پر تنقید کرکے پھر اسی ڈگر پر چلتے رہے۔ یوں دن گزرتے رہے، چہرے بدلتے رہے اور ایڈہاک ازم پر مبنی اس پالیسی کی قالین تلے نسلوں کو متاثر کرنے اور ملک کو کھوکھلا کردینے والا زوال بڑھتا اور پلتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آیا جب کچھ لوگ کھلے بندوں کہنے لگے کہ پاکستان ایک ناکام ریاست ہے۔ ایک ایسی ناکام ریاست جو موجودہ ہیئت اور انداز سے آگے چلنے کے قابل نہ رہی ہو۔ بیرونی ذرائع ابلاغ اس طرح کی اصطلاحات کو بار بار مختلف انداز سے استعمال کرکے دنیا کو خوف زدہ کرتے رہے۔ دنیا کو خوف پاکستانی ریاست کی ناکامی سے نہیں آتا تھا بلکہ اس کے ایٹمی ہتھیاروں سے آرہا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ ناکام ریاست کے ایٹمی ہتھیار شدت پسندوں اور دہشت گردوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں۔ شاید اس خطرے کو حقیقت بنانے اور بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے لیے عالمی طاقتوں نے پاکستان کے تنزلی کے سفر کو روکنے کے بجائے بڑھانے میں اپنا حصہ ڈالا۔ ملک کے مختلف حصوں میں ایسی ملیشیائیں وجود میں آئیں جنہیں غیر ملکی ایجنسیوں کی معاونت اور سرپرستی تھی۔ ملک میں پیسہ باہر منتقل کرنے والے نیٹ ورکس کو بھی بیرونی سرپرستی حاصل رہی۔ اب حکومت اس ہمہ گیر زوال کو روکنا اور ملک کو دوبارہ اپنی اصل ڈگر پر لانے کا دعویٰ کر رہی ہے تو اس قلیل المیعاد اور طویل المیعاد دونوں فیصلوں میں توازن رکھنا ہوگا۔
ایوان وزیر اعظم اور گورنر ہاؤسوں کے کسی اور استعمال جیسے فیصلوں کا تعلق طویل المیعاد فیصلوں سے ہے۔ اس سے عام آدمی کو کوئی فوری فائدہ ہوگا نہ اس سے زیادہ دلچسپی رکھتا ہے۔ عام آدمی کی دلچسپی یہ ہے کہ اس ریلیف ملے اور زندگی آسان رہے۔ یہی حکومت کی صلاحیتوں اور کارکردگی کا اصل امتحان ہے۔ دونوں باتیں ناگزیر ہیں۔ آنے والے زمانوں اور نسلوں کی بھلائی بھی اہم ہے مگر موجودہ زندہ انسانوں کی زندگیوں میں تلخیاں بھر کر یہ کام بھی نہیں ہوسکتا۔