اعلیٰ تعلیم یافتہ نئے پولیس افسران کیا کچھ کریں گے ؟

389

 

 

لانڈھی کے علاقے فاروق ولاز سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان طارق سمیت دیگر افراد نامعلوم ملزمان کے ہاتھوں 3 ماہ قبل اس وقت لٹ گئے تھے۔ جب وہ لاندھی پولیس اسٹیشن کے قریب واقع میڈیکل اینڈ جنرل اسٹور پر ادویات خرید رہے تھے۔ ملزمان طارق سے رقم اور موبائل وغیرہ چھین کر لے گئے۔ یہ واقعہ رواں سال کی 14 جون کا ہے۔ ڈاکوؤں کے ہاتھوں لٹ کر طارق تھانے پہنچا اور ایف آئی آر درج کرانے کے لیے ایس ایچ او سے رابطہ کیا۔ انہوں نے ایف آئی آر کے بجائے معمول کے مطابق تحریری درخواست کی کاپی ریسیو کرکے مہر لگا کر دیدی۔ عموماً پولیس ایسا ہی کرتی ہے۔ عام اور سادے لوگوں کی بڑی تعداد اس طرح کی کارروائی ہی کو فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) سمجھتے ہیں اور مطمئن ہوکر گھر چلے جاتے ہیں۔ حالاں کہ اس طرح کی تحریر وصول کرنے کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ پولیس نے درخواست وصول کی۔ ایسی درخواستوں پر عموماً مزید کوئی کارروائی نہیں کی جاتی اور نہ ہی ان کی کوئی قانونی حیثیت ہوتی ہے۔ یہ پولیس کے الفاظ میں ’’نان کاک‘‘ رپورٹ بھی نہیں ہوتی۔ نان کاک رپورٹ کی پھر قانونی حیثیت ہوتی ہے اگر وہ پولیس اسٹیشن کی ڈائری یا روزنامچہ میں درج کی جائے اور اس کی نقل مدعی کو فراہم کی جائے تو۔ مگر کراچی کے بعض تھانوں میں شکایات کرنے والوں کو رپورٹ درج کرنے کا جھانسا دینے کے لیے جعلی روزنامچہ بھی پہلے ہوا کرتے تھے ممکن ہے کہ اب بھی وہ ہوتے ہوں۔
مدعی طارق واردات کے ملزمان کی گرفتاری اور باقاعدہ ایف آئی آر درج کرانے کے لیے پولیس سے اصرار کرتا تو ایس ایچ او سمیت تمام متعلقہ افسران یہی کہتے کہ ’’ایف آئی آر کا کیا کروگے؟‘‘ یہ جملہ اکثر و بیش تر پولیس اہلکار اپنے روایتی لہجے اور بدن بولی (باڈی لینگویج) کے ساتھ ادا کیا کرتے ہیں جس سے عام آدمی ڈر جایا کرتا ہے۔
طارق سمیت ایسی وارداتوں کے متاثرین کی خوش قسمتی کہ ایڈیشنل آئی جی کراچی کی حیثیت سے سینئر ڈی آئی جی ڈاکٹر عامر شیخ کا تقرر ہوا۔ ڈاکٹر عامر شیخ اس سے قبل ڈی آئی جی ٹریفک اور ڈائریکٹر ایف آئی اے بھی رہ چکے۔ وہ اپنے فرائض دیانت داری اور دلچسپی کے ساتھ ادا کرنے کے حوالے سے مشہور ہیں۔ ان کے حوالے سے پولیس افسران کے تقرر و تعیناتی اور حمایت کے لیے ’’تحفے تحائف یا لفافے‘‘ لینے کی بات بھی نہیں کی جاتی گو کہ وہ ایک ایماندار پولیس افسر بھی ہیں۔ عامر شیخ نے اپنے تقرر کے بعد اپنے اعلامیے میں شہریوں سے کہا کہ اگر انہیں پولیس کے حوالے سے کسی قسم کی شکایات ہو تو ان کے واٹس ایپ نمبر پر تفصیلات پوسٹ کردی جائے۔ اس پریس نوٹ پر طارق نے بھی اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعہ اور پولیس کی جانب سے ایف آئی آر درج نہ کرنے کی روداد واٹس ایپ کردی۔ طارق کا کہنا ہے کہ واٹس ایپ میسج کے چند گھنٹے بعد ہی ایڈیشنل آئی جی کے پی ایس کا فون آگیا جنہوں نے تفصیلات معلوم کرکے طارق کو فوری لانڈھی تھانے جاکر ایف آئی آر کٹوانے کا مشورہ دیا جس پر طارق لانڈھی پولیس اسٹیشن پہنچا اور ایس ایچ او سے ملاقات کرکے اے آئی جی کے ہی فون کا حوالہ دیا۔ اس طرح پولیس نے مقدمہ درج تو کیا لیکن مدعی طارق کی طرف سے یہ لکھ دیا گیا کہ 14 جون کو ورادات ہوئی تھی مگر وہ خود مصروفیت کی وجہ سے ایف آئی آر نہیں کٹوا سکا تھا۔ حالاں کہ طارق نے فوری مقدمہ درج کرانے کی کوشش کی مقدمہ درج نہ ہونے پر بار بار تھانے کے چکر لگانے کے بعد مایوس ہوکر خاموش ہوگیا تھا۔ میں قارئین کو یہ بتانے کی کوشش کررہا ہوں کہ اگر پولیس کے ذمے دار افسران چاہیں تو پورا پولیس کا نظام درست ہونے کے ساتھ پولیس اور عوام میں دوستانہ رشتہ بھی پیدا ہوسکتا ہے۔ اس طرح جرائم کی سرگرمیوں کے سدباب کے لیے عام لوگ بلا خوف پولیس کے ساتھ تعاون کے لیے تیار بھی ہوسکتے ہیں۔ عام لوگوں میں پولیس کا منفی تاثر ختم کرنے کے لیے ایڈیشنل آئی جی عامر شیخ نے طارق کی ایف آئی آر تاخیر سے درج کرنے پر ایس ایچ او اور ہیڈ محرر کا تبادلہ بھی کردیا۔ جو قابل تعریف عمل ہے۔
کراچی پولیس کے چیف نے تمام پولیس اسٹیشنوں کو ہدایت کی ہے کہ کسی بھی واقعے کی ایف آئی آر درج کرنے میں تاخیر نہیں کی جائے ورنہ سخت کارروائی کی جائے گی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ تمام واقعات پر بلا تعطل مقدمات درج ہونے لگے جس کی وجہ سے کراچی میں اچانک جرائم میں اضافے کی بازگشت ہونے لگی اس سلسلے میں الیکٹرونک میڈیا بھی تصویر کا ایک ہی رخ دکھا کر صورت حال کو تشویشناک بنارہا ہے۔ حالاں کہ پولیس کی طرف سے مختلف وارداتوں کے ملزمان کی گرفتاریوں میں بھی اضافہ بھی ہوا ہے جو ایک خوش آئند امر ہے۔ موجودہ کراچی پولیس چیف سے پہلے کسی بھی رہزنی اور ڈکیتی کی وارداتوں پر فوری مقدمات درج کرنے کا سلسلہ ہی ختم ہوچکا تھا۔ نتیجے میں ریکارڈ پر ایسے واقعات کم ہی نہیں ختم ہوچکے تھے۔
کراچی سمیت پورے صوبے کی یہ خوش قسمتی بھی ہے کہ وفاق کی جانب سے یہاں تعینات کیے جانے والے انسپکٹر جنرل پولیس ڈاکٹر کلیم امام کا کراچی سے گہرا تعلق ہے وہ پیدائشی طور پر کراچی کے شہری ہیں سندھ پولیس کے سربراہ کی حیثیت سے تقرر ان کی دیرینہ خواہش بھی تھی جو پوری ہوئی۔ وہ صوبے میں اب تک خدمات انجام دینے والے پولیس سربراہوں میں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ ہیں۔ ڈاکٹر سید کلیم امام نے سیاست اور بین الاقوامی تعلقات میں پی ایچ ڈی کیا ہوا ہے۔ جب کہ ایل ایل ایم کی بھی ڈگری رکھتے ہیں۔ وہ اس سے قبل ملک کے سب سے بڑے صوبے کی آئی جی بھی رہ چکے ہیں۔ لوگوں کو ڈاکٹر کلیم امام سے توقعات ہیں کہ وہ سندھ پولیس کو ملک کی ماڈل پولیس بنادیں گے۔ دوستانہ پولیس نظام قائم کردیں گے جس سے پولیس اور عوام میں دوریاں ختم ہوجائیں گی۔ لیکن یہ سب اس وقت ہی ممکن ہوسکے گا جب حکومت پولیس افسران کو بغیر کسی دباؤ کے ایمانداری اور دیانتداری سے فرائض انجام دینے کی اجازت دے گی۔
آئی جی ڈاکٹر کلیم امام کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے انہیں آزادانہ فرائض انجام دینے کی ہدایت کی ہے۔ کاش یہ بات درست ہو اور اس پر عمل بھی ہوسکے۔ کیوں کہ یہاں سابق آئی جی اللہ ڈینو خواجہ کو پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے آزادانہ فرائض انجام دینے کا موقع نہیں دیا تھا بلکہ سندھ دھرتی کے چمپئن سیاست دان آصف زرداری کے دوست و نیب کے ملزم انور مجید نے قانون کے مطابق کارروائیوں کی شدید مخالفت کے ساتھ پولیس کے کام میں مزاحمت بھی کی تھی۔
نئے آئی جی نے اگر اس طرح کی مزاحمت کا سخت جواب دے دیا تو یہ صرف ان کی ہی نہیں بلکہ پورے پولیس سسٹم کی کامیابی کہلائے گی۔ امید ہے کہ ڈاکٹر کلیم امام اور اے آئی جی کراچی ڈاکٹر عامر شیخ ٹیم ورک کے طور پر کام کرکے نہ صرف جرائم پیشہ کا بلکہ سیاست کی آڑ میں جرائم کرنے والوں کا بھی سدباب کردیں گے۔ اگرچہ پولیس کو ان دنوں کراچی میں شروع ہوجانے والی بچوں کے اغواء کی وارداتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے لیکن امید ہے کہ ان واقعات میں ملوث ملزمان کا بھی جلد قلع قمع کردیا جائے گا۔ میں آئی جی ڈاکٹر کلیم امام اور ایڈیشنل آئی جی ڈاکٹر عامر شیخ کو یہ مشورہ دینا چاہوں گا کہ وہ قانون اور اپنا خوف ماتحت پولیس افسران پر ترجیحی بنیادوں پر قائم کریں۔ اس مقصد کے لیے اچانک پولیس پیٹرولینگ کے ساتھ اہم مقامات پر تعینات پولیس سیکورٹی کو بھی چیک کریں۔ بہتر ہے کہ تمام سیکورٹی کیمروں کی بھی جانچ کرائی جائے ساتھ پولیس ہیڈ کوارٹر اور ٹریننگ سینٹرز کو بھی چیک کیا جائے۔ ایس ایچ اوز کے تقرر میرٹ پر کیے جائیں نہ کہ سفارش پر۔