دینی مدارس وجامعات کا مسئلہ

332

وزیر اعظم عمران خان نے مختلف شعبہ جات کے لیے ٹاسک فورسز بنائی ہیں، اُن میں سے ایک وزیرِ تعلیم جناب شفقت محمود کی سربراہی میں ’’نیشنل ٹاسک فورس فار ایجوکیشن‘‘ ہے۔ 10ستمبر کو اُس کا اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوا اور مجھے ’’ہائر ایجوکیشن کمیشن‘‘ کراچی کے دفتر سے وڈیو لنک کے ذریعے اس میں شمولیت کی دعوت ملی۔ آپ جانتے ہیں کہ ایسی ٹاسک فورسز میں اندرونِ ملک وبیرونِ ملک سے نامور ماہرین کو شامل کیا جاتا ہے۔
میں نے اپنی گفتگو میں کہا: ’’اس وقت پاکستان میں پلے گروپ اور نرسری سے لے کر یونیورسٹی کی سطح تک پرائیویٹ سیکٹر میں تعلیم سب سے بڑی نفع بخش صنعت ہے، اعلیٰ اور معیاری تعلیم اُن کے لیے ہے جو اسے مارکیٹ ریٹ پر خرید سکیں، غریبوں کے لیے اس کے دروازے بند ہیں۔ حکومت کا ان پر کنٹرول ہے نہ ان اداروں میں ’’میڈاِن پاکستان‘‘ نسل تیار ہورہی ہے، ان کی نصابی کتابیں سنگا پور، ہانگ کانگ، برطانیہ اور امریکا سے آتی ہیں یا اُن کا چربہ ہوتی ہیں۔ بیش تر ادارے او لیول اور اے لیول کے امتحانات دلواتے ہیں، اُن کی امتحانی فیسیں زرِ مبادلہ کی شکل میں ادا کی جاتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت کے زیرِ انتظام قائم سیکنڈری اور انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن بورڈز کے نظامِ امتحان پر اُن کو اعتبار نہیں ہے، ہر سال پرچے آؤٹ ہونے، نقل اور چنیدہ امیدواروں کے پرچوں کی اسپیشل مارکنگ کی خبریں میڈیا میں آتی رہتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں قوم کے غریب اوربے وسیلہ ذہین وفطین بچوں کا حق مارا جاتا ہے اور جوہرِ قابل ضائع ہوجاتا ہے۔ ان بورڈز کے امتحانات پر عدمِ اعتماد کا ثبوت یہ ہے کہ انٹر میڈیٹ کے بعد میڈیکل، انجینئرنگ اور یونیورسٹیوں کے مختلف شعبہ جات میں داخلے کے لیے ’’انٹری ٹیسٹ‘‘ منعقد کیے جاتے ہیں، اُن کے پرچے بھی آؤٹ ہونے کے واقعات ریکارڈ پر ہیں۔ 19اگست کو پختونخوا میں میڈیکل کا انٹری ٹیسٹ منعقد ہوا، طلبہ نے داخلہ فیس بھری، امتحان دیا، لیکن بعد میں پیپر آؤٹ ہونے کے شواہد سامنے آنے پر یہ ٹیسٹ کالعدم قرار دیا گیا، اب کسی آئندہ تاریخ کو دوبارہ منعقد ہوگا‘‘۔
میں نے کہا: ’’امریکا ویورپ سمیت دنیا کے ہر ملک میں کوئی اعلیٰ تعلیم کے کسی بھی شعبے میں جائے، اُسے اپنے ملک کی تاریخ ضرور پڑھنی پڑتی ہے۔ اس کے برعکس اول تو ہماری قومی تاریخ متفق علیہ نہیں بلکہ متنازع ہے، مزید یہ کہ تاریخ پڑھائی ہی نہیں جارہی، آپ مطالعہ پاکستان کا نصاب اٹھا کر دیکھ لیجیے، اس میں آپ کو اپنے ملک کی تاریخ کے بارے میں کچھ نہیں ملے گا۔ پس ’’میڈاِن پاکستان‘‘ نسل کہاں سے تیار ہوگی، نئی نسل کی ذہن سازی تو تعلیمی اداروں میں ہوتی ہے۔ برطانیہ میں جنرل سرٹیفکیٹ آف سیکنڈری ایجوکیشن اور امریکا میں اسکول گریجویشن کی سطح تک یکساں نصاب پر مبنی لازمی تعلیم ریاست کی ذمے داری ہے، اُس کے بعد ہر کوئی اپنی پسند کے شعبے کا انتخاب کرتا ہے اور کالج ویونیورسٹی کی سطح تک جاتا ہے‘‘۔
جنابِ شفقت محمود نے میرے موقف سے اتفاق کرتے ہوئے کہا: ’’آپ درست کہتے ہیں، ہم یہی چاہتے ہیں کہ میڈاِن پاکستان نسل تیار ہو، ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ ہماری قومی تاریخ مسخ کردی گئی ہے، اب ہم اس کو صحیح ٹریک پر ڈالنا چاہتے ہیں‘‘۔ میں نے کہا: ’’دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ قومی معیارِ تعلیم کے عکاس LUMS اور NUST ایسے ممتاز تعلیمی ادارے نہیں، بلکہ پبلک سیکٹر میں حکومت کے زیرِ انتظام پرائمری سے لے کر یونیورسٹیوں کی سطح تک قائم ادارے ہوتے ہیں اور دونوں کے معیار میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ جنابِ عمران خان 2013 میں بھی یکساں نصابِ تعلیم کے نعرے پر آئے تھے، لیکن پختون خوا میں اس خواب کو تعبیر نہ مل سکی، صرف اتنی پیش رفت ہوپائی کہ سرکاری تعلیمی اداروں میں حاضری کا معیار بہتر ہوا اور اساتذہ کی کمی کافی حد تک پوری ہوئی‘‘۔
میں نے کہا: ’’2000 سے مدارس کے موضوع پر مختلف حکومتوں کے ساتھ دینی مدارس وجامعات کی پانچ نمائندہ تنظیموں کے الائنس ’اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان‘‘ کا سلسلۂ مذاکرات جاری ہے، ابتدائی مرحلے میں کافی حوصلہ افزا پیش رفت ہوتی ہے، غالب کی زبان میں ہمیں یہ تاثر ملتا ہے:
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
لیکن آخر میں جب ہم اپنے آپ کو منزل کے قریب سمجھتے ہیں توکہیں نہ کہیں جاکر کمند ٹوٹ جاتی ہے اور سانپ سیڑھی کے کھیل کی طرح ننانوے سے واپس ایک پر آجاتے ہیں، شاعر نے کہا ہے:
قسمت تو دیکھ، ٹوٹی ہے جا کر کہاں کمند
کچھ دور اپنے ہاتھ سے جب بام رہ گیا
اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاسی قیادت کا عزم نہیں ہوتا، وقتی دباؤ کے تحت پیش رفت ہوتی ہے اور پھر نوکر شاہی کے شاطر ساری پیش رفت کو کالعدم (Undo) کردیتے ہیں، پھر جب نیا دور آتا ہے تو صفر سے آغاز ہوتا ہے، اطہر نفیس نے کہا تھا:
اطہرؔ تم نے عشق کیا کچھ تم ہی کہو کیا حال ہوا
کوئی نیا احساس ملا، یا سب جیسا احوال ہوا
الغرض ہمیشہ منزل تک رسائی کے بجائے ماضی جیسے احوال کا سامنا کرنا پڑا۔ جنابِ عمران خان نے اپنے خطاب میں کہا: ’’ہم چاہتے ہیں کہ مدارس کے طلبہ فوج میں جائیں، جنرل بنیں، انجینئر بنیں، ڈاکٹر بنیں‘‘۔ ایسی ہی دلکش تقریر ہمیں جنرل پرویز مشرف بھی سنایا کرتے تھے، اُن کے حواری اُن کو یہ نہیں بتاتے تھے کہ ہوائی باتیں نہ کریں۔ حقیقتِ حال یہ ہے کہ ہمارے نظامِ تعلیم میں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ سے فیکلٹی جدا ہوجاتی ہے، یعنی پری میڈیکل، پری انجینئرنگ، کامرس، اکاؤنٹنگ اینڈ آڈٹنگ، سائنس وٹیکنالوجی، فائن آرٹس، فنون وادبیات اور علم البشر وغیرہ۔ پری میڈیکل کا طالب علم ریاضی کے مضامین پاس کیے بغیر انجینئرنگ میں نہیں جاسکتا، انجینئرنگ کا طالب علم حیاتیات اور حیوانیات کے مضامین پاس کیے بغیر میڈیکل میں نہیں جاسکتا۔ آرٹس اور ہیومنٹیز گروپ میٹرک سے ہی الگ ہوجاتا ہے اور اس فیکلٹی کے طلبہ میڈیکل، انجینئرنگ، سائنس وٹیکنالوجی اور کامرس کے شعبے میں اعلیٰ سطح تک نہیں جاسکتے، اسی طرح آئی ٹی اور کمپیوٹر سائنس کا شعبہ الگ ہے اور اب تو ہر شعبے کے کئی ذیلی شعبے وجود میں آچکے ہیں۔ کراچی میں ’’مستقبل کی تشکیل‘‘ کے سلوگن پر ’’لبرل آرٹس اینڈ سائنس ایجوکیشن‘‘ کے لیے ایک یونیورسٹی قائم ہے۔
دینی مدارس کے طلبہ بھی بعض عصری مضامین کی شمولیت کے ساتھ آرٹس فیکلٹی میں پی ایچ ڈی کی سطح تک جاسکتے ہیں۔ گزشتہ حکومت کے اختتامی دور میں مشیر برائے قومی سلامتی جنرل ناصر جنجوعہ صاحب نے مدارس کی تعلیم کے مسئلے کو ہاتھ میں لیا اور آخری اجلاس میں کہا: ’’مجھے مسئلہ سمجھ میں آگیا ہے، اب ہم فیڈرل بورڈ آف ایجوکیشن اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کے تعاون سے دینی مدارس وجامعات کے امتحانات، اَسناد وشہادات کا مسئلہ اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان کے تعاون واشتراک سے حل کرلیں گے‘‘۔ لیکن پھر سابق حکومت کی بساط لپٹ گئی اور ہم ننانوے سے ایک پر آگئے۔ میں نے جنابِ شفقت محمود سے کہا: ’’بہتر ہوگا کہ آپ ہمارے ساتھ مستقل اجلاس منعقد کریں اور جنرل ناصر جنجوعہ صاحب کو اُس میں بلائیں، دوبارہ صفر سے نہ شروع کریں بلکہ جہاں تک بات پہنچی تھی
وہاں سے آگے لے کر چلیں اور اس مسئلے کو انجام تک پہنچائیں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے آپ کی قیادت پر عزم ہو، آپ فیصلے کرنے میں با اختیار ہوں تو ایک سے تین دن میں یہ سارا عمل پایۂ تکمیل تک پہنچ سکتا ہے‘‘۔
جنابِ شفقت محمود نے کہا: ’’ہم زیرو سے شروع نہیں کرنا چاہتے، بلکہ جہاں تک معاملات پہنچے تھے، وہاں سے آگے لے کر چلیں گے اور جنرل ناصر جنجوعہ صاحب کو بھی اجلاس میں بلا لیں گے‘‘۔ پس میرے لیے اُن کا ابتدائی تاثر حوصلہ افزا ہے اور میری دعا ہے کہ وہ اپنے عزم پر قائم رہیں اور قیادت کا اعتماد بھی انہیں حاصل ہو، اجلاس میں با اختیار ہوکر آئیں، قوتِ فیصلہ سے کام لیں، تو ان شاء اللہ مثبت پیش رفت ہوسکتی ہے۔
تبدیلی کا نعرہ ضرور لگائیں، لیکن اس حقیقت کو بھی پیشِ نظر رکھیں کہ پاکستان میں کوئی انقلاب برپا نہیں ہوا، بلکہ آئین کے تحت انتخابات کے ذریعے انتقالِ اقتدار ہوا ہے۔ لہٰذا کوئی بھی تبدیلی آئین وقانون کے دائرے میں قانون سازی کے عمل سے صوبائی اسمبلی یا پارلیمنٹ کی منظوری سے آئے گی۔ اس میں اپوزیشن کا تعاون بھی ضروری ہے، کیوں کہ قومی اسمبلی صرف بجٹ پاس کرسکتی ہے، عام قانون سازی کے لیے سینیٹ کی توثیق ضروری ہے اور سینیٹ میں اپوزیشن کو غلبہ حاصل ہے۔ جنابِ عمران خان کو فواد چودھری صاحب ایسے ترجمانوں کو حدود میں رہنے کی ہدایت کرنی چاہیے۔ وزیر کے لفظی معنی ہیں: ’’بوجھ اٹھانے والا‘‘، لہٰذا وزیروں کو اپنی حکومت کے لیے مسائل پیدا کرنے کے بجائے اُن کے حل کی تدبیر نکالنی چاہیے۔ کابینہ کے پہلے ہی اجلاس کے بعد فواد چودھری صاحب نے کہا: ’’مدارس کی سندیں ختم کردی جائیں گی‘‘، اُن کو معلوم ہونا چاہیے کہ نہ مدارس بند ہوں گے، نہ ختم ہوں گے، ان شاء اللہ چلتے رہیں گے، اس لیے آپ حدود میں رہ کر بات کیا کریں۔
میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں: ’’سیاسی جماعت کی ترجمانی اور بات ہے، اس میں آپ فری اسٹائل کِک لگا سکتے ہیں، لیکن حکومت کی ترجمانی ذمے داری کا تقاضا کرتی ہے، شاید بعض وزرائے کرام کو ابھی تجربہ ہے، نہ منصب کی حساسیت کا ادراک ہے۔ قادیانی عاطف میاں کے مسئلے پر فواد چودھری صاحب نے ترنگ میں آکر کہا: ’’ہم دو کروڑ ووٹ لے کر آئے ہیں، ہم کسی کے دباؤ میں نہیں آئیں گے‘‘، جنابِ والا! سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرکے آپ کو حکمرانی کا استحقاق تو مل جاتا ہے، لیکن اس کی بنیاد پر حق وباطل کا فیصلہ کرنے کا حق آپ کو نہیں دیا جاسکتا، ورنہ کربلا میں عددی برتری تو امام حسینؓ کے مخالف لشکر کو حاصل تھی۔ جنابِ شفقت محمود تجربہ کار ہیں، اس لیے اُن کو میں نے محتاط اور ذمے دار پایا۔ سرِدست ہم توقع رکھتے ہیں کہ معاملہ محاذ آرائی کی طرف نہیں جائے گا، بلکہ تفہیم وتفہّم کے جذبے سے ہم مستقل حل کی طرف پیش قدمی کریں گے، ایک بار گاڑی صحیح ٹریک پر چڑھ جائے تو اس میں بہتری کے امکانات ہر وقت موجود رہتے ہیں، لہٰذا اگر حکومت چاہے تو کامیابی کا سہرا اپنے سر باندھ سکتی ہے۔