وہ ایک خبر 

289

مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کی اہلیہ کلثوم نواز انتقال کرگئیں، ہر انسان کو ایک روز موت کا مزہ چھکنا ہے، اِس دُنیا میں آنے والے ہر مرد و زن کو چاہے وہ صاحبِ ثروت ہو یا غربت و عسرت کی زندگی گزار رہا ہو، بہرحال اپنی ابدی زندگی کی طرف سفر کرنا ہوتا ہے، سو کلثوم نواز بھی کینسر سے لڑتے لڑتے اِس پر روانہ ہو گئیں آج کلثوم نواز گئی ہیں تو کل کسی اور کی باری ہے، یہ قدرت کا نظام ہے جس پر کسی انسان کا زور نہیں، کلثوم نواز کے لیے بہت سی دعائیں کی گئیں، اللہ کو یہی منظور تھا، اُن کی زِندگی کا سفر ختم ہوا وہ بیماری کی کلفتوں سے بھی آزاد ہو گئیں، کلثوم نواز رخصت ہوئی ہیں تو اُنہیں اچھے لفظوں میں یاد کرنے والے بہت ہیں، وہ بھی ایسا کر رہے ہیں، جنہیں کل تک اُن کی بیماری بھی ڈراما معلوم ہوتی تھی۔ اللہ ربّ العزت سب کو معا ف فرمائے۔
نواز شریف جب تک اقتدار میں رہے اس وقت تک کسی کو علم نہیں تھا کہ کلثوم نواز کسی موذی مرض میں مبتلا ہیں جب قومی اسمبلی کے حلقہ این اے ایک سو بیس میں ضمنی انتخاب ہوا تو کلثوم نواز اگرچہ امید وار تھیں، لیکن کینسر کے علاج کے لیے بیرون ملک چلی گئیں تب ہر کسی کو معلوم ہوا کہ وہ بیمار ہیں، وہ اس مرض میں اچانک مبتلا نہیں ہوئیں ایک عرصے سے ان کی ہیلتھ کا ایشو چل رہا تھا تاہم شریف خاندان نے ان کی بیماری بہت عرصے تک چھپائے رکھی۔ شریف خاندان کے ایک نہایت قریبی عزیز، بڑی کاروباری شخصیت سے راقم کے ذاتی تعلقات ہیں، دو ہزار تیرہ کے انتخابات کے وقت انہوں نے کلثوم بھابھی سے کہا تھا کہ اگر میاں صاحب انہیں اپنے علاقے کی قومی اسمبلی کی تیرہ نشستوں کے ٹکٹ دے دیں تو یہ ساری نشستیں جیت کر دوں گا، کلثوم نواز نے انہیں جاتی امراء بلایا اور گھر کے افراد کے ساتھ اس موضوع پر کوئی دو گھنٹے گفتگو ہوتی رہی سیر حاصل گفتگو کے نتیجے میں اور کلثوم نواز کی فرمائش پر تیرہ ٹکٹیں نواز شریف نے اپنے اس عزیز کے حوالے کیں اور انہوں نے تیرہ میں گیارہ نشستیں جیت کر مسلم لیگ (ن) کے حوالے کیں دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات کے کچھ ہی عرصہ بعد ان صاحب سے ایک ملاقات میں بتایا کہ کلثوم بھابھی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے انہیں صحت کے کچھ سنجیدہ ایشوز ہیں میرے لیے یہ بہت بڑی خبر تھی لیکن بعض اوقات بلکہ اخلاقی طور پر یہ بات درست سمجھی جاتی ہے کہ جو بات اعتماد میں لے کر بتائی جائے تو اسے خبر کا موضوع نہیں بنایا کرتے، سو وہ ایک خبر جو میں فائل نہ کرسکا اب وہی خبر اداس کر گئی ہے۔
کلثوم نواز نہایت سلیقہ شعار خاتون تھیں، اخبار روزانہ پڑھتی تھیں اور جب ملک میں ٹی وی چینل نہیں تھے صرف پی ٹی وی تھا، بہت غور سے دیکھتی تھیں ایک روز پی ٹی وی پر کسی نیوز کاسٹر نے خبریں پڑھتے ہوئے سر پر دوپٹا نہیں لیا تھا تو عین خبر نامے کے دوران ہی پروڈیوسر شاہد عمران کو فون کیا اور توجہ دلائی کہ خاتون نیوز کاسٹر کو سر پر دوپٹا لینا چاہیے، وہ بہت ہی شفیق خاتون تھیں، اور سیاسی لحاظ سے نواز شریف کی استاد بھی، جب اکتوبر 1999ء کو حکومت کا تختہ الٹا گیا تو وہ اس وقت کھانے کی میز پر بیٹھی اور کھانا کھا رہی تھیں لیکن انہیں کیا خبر تھیں کہ اسی لمحے کو اپنی ہی گھر میں قید کردی جائیں گی اسی نظر بندی کے دوران ان کے والد کا انتقال ہوا، وہ سخت پہرے میں تھوڑی دیر کے لیے اپنے مرحوم والد کی میت کا دیدار کرنے اپنی ماں کے گھر جاسکیں، پھر چہلم میں انہیں شریک ہونے کی اجازت نہیں مل رہی تو زبر دستی گھر کے گیٹ تک آئیں اور پیدل ہی اپنی ماں کے گھر کی جانب چل پڑیں پیچھے پیچھے سیکورٹی اہل کار، آگے آگے وہ پیدل جارہی ہیں، ایک کلو میٹر کے بعد گھر سے گاڑی آئی اس میں سوار ہوئیں اور اپنی ماں کے گھر گئیں۔
نواز شریف ان دنوں اٹک قلعہ میں تھے کراچی کی عدالت انہیں سزا بھی سنا چکی تھی، کلثوم نواز اس وقت بھی عدالت میں موجود تھیں۔ کلثوم نواز نے اپنے لیے ایک رول منتخب کیا کہ نواز شریف کو اب جیل سے باہر لے کر آنا ہے ایک گھریلو خاتون کے طور پر زندگی گزار رہی تھیں، لیکن آزمائش کے اِن لمحات میں اُنہیں نواز شریف کے والد محترم میاں محمد شریف نے سیاسی جدوجہد کے میدان میں اپنی صلاحیتوں کے اظہار کی اجازت دی تو دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے سیاست میں اپنا نقش جمانا شروع کر دیا۔ ایک موقعے پر جب وہ ایک جلوس کی قیادت کے لیے باہر نکلیں تو اُنہیں گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا گیا، وہ اپنی گاڑی میں بیٹھ گئیں تو قانون کے رکھوالوں نے اُنہیں گاڑی سمیت لفٹر کے ذریعے سیاسی منظر سے دور لے جانے کا فیصلہ کیا، لیکن وہ اِس حالت میں بھی کئی گھنٹوں تک پورے استقلال کے ساتھ گاڑی میں موجود رہیں، اُن کی جانب سے عزم و حوصلے کے اِس مظاہرے سے حکومتی کارندوں کے حوصلے پست ہوتے ہوئے محسوس کیے جا سکتے تھے اور زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ فوجی حکمران کو درست طور پر محسوس ہوا کہ اگر یہ خاتون اِسی طرح میدان میں ڈٹ کر آگے بڑھتی رہی تو اِس کے راستے کی دیوار بننا مشکل ہو جائے گا، چناں چہ ایسی تدبیریں کی جانے لگیں کہ کسی نہ کسی طرح یہ خاتون سیاسی منظر سے ہٹ جائے۔ یہ موقعہ اس صورت میں میسر آیا کہ سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ کی مداخلت سے ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ پورا خاندان جلا وطن ہو گیا، اور حکومت نے سُکھ کا سانس لیا، کلثوم کو اگر کسی مسلم لیگی نے سہارا دیا تو وہ جاوید ہاشمی تھے، اتفاق کی بات ہے کہ مسلم لیگ (ن) میں جاوید ہاشمی، مشاہد اللہ خان، اور صدیق الفاروق نے ہمت دکھائی تو دانش ور حلقوں میں یہ تبصرہ ہوا کہ وہ مسلم لیگی جن کی تربیت جماعت اسلامی میں ہوئی وہی باہر نکلے ہیں باقی سب ’’نظر بند‘‘ ہیں۔
جن دنوں نواز شریف جیل میں تھے مسلم لیگی رہنماؤں اور کلثوم نواز کے مابین سرد جنگ تھی، مگر وہ خاتون مجال ہے کہ کسی کے بارے میں بات کرتیں، البتہ پرویز مشرف سے جاملنے کی پاداش میں مسلم لیگ (ن) سے چودھری شجاعت حسین، چودھری پرویز الٰہی کو ان کے پانچ ساتھیوں سمیت نکال باہر کیا، یہ فیصلہ کلثوم نواز کا ہی تھا، ایک روز میاں شریف نے راجا ظفر الحق کو جاتی مراء کھانے پر بلایا، ایک طویل نشست کی، اس میں کلثوم نواز بھی کچھ دیر کے لیے شریک ہوئیں، اس نشست میں میاں شریف راجا ظفر الحق کے موقف کے ہامی نکلے، تاہم کہا کہ راجا صاحب، جب یہ بیٹی (کلثوم نواز) روتی ہوئی میرے پاس آتی ہے تو مجھ سے اس کے آنسو دیکھے نہیں جاتے آج وہی کلثوم نواز، اپنے شوہر نواز شریف، اپنی صاحب زادی مریم نواز کی آنکھوں میں آنسو چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوچکی ہیں، کیا عجب اتفاق ہے کہ جب والد کا انتقال ہوا تو کلثوم نواز گھر میں نظر بند تھیں، اور جب خود دنیا چھوڑی تو شوہر جیل میں تھا، جب شوہر کے والد میاں محمد شریف اِس دُنیا سے رخصت ہوئے تو پورا خاندان سعودی عرب میں جلا وطنی کے دن گزار رہا تھا۔آج اُن کے بیٹوں حسن اور حسین نواز کی بھی یہی کیفیت ہے ایسے ماحول میں اس خبر پر کیا پچھتانا جو معلوم ہوتے ہوئے بھی فائل نہ کرسکا البتہ آج شریف خاندان پر آئے ہوئے وقت نے ایک بار پھر جھنجھوڑ دیا ہے کہ اللہ سے ہر چھوٹی بڑی آزمائش سے مکمل پناہ مانگنی چاہیے کہ انسان بہت کمزور ہے۔