یوم عاشور کا پیغام

512

پاکستان سمیت کئی ممالک میں اثنا عشری برادری دس محرم الحرام کو عزا داری کے طور پر مناتی ہے اور اس روز پاکستان میں ہمیشہ کی طرح عام تعطیل کر کے جگہ جگہ جلوس نکالے جائیں گے۔ امام عالی مقام حسینؓ کی شہادت کے حوالے سے مجالس منعقد ہوں گی ان مجالس میں اس مقصد کا بھی ذکر کرنا چاہیے جس کی خاطر امام نے قربانی دی تھی سید مودودیؒ نے اس حوالے سے لکھا ہے کہ کیا امام تخت و تاج کے لیے اپنے کسی ذاتی استحقاق کا دعویٰ رکھتے تھے اور اس کے لیے انہوں نے سر دھڑ کی بازی لگا دی تھی۔ کوئی شخص بھی جو امام حسین کے گھرانے کی بلند اخلاق ، سیرت کو جانتا ہے وہ یہ گمان نہیں کرسکتا کہ یہ لوگ اپنی ذات کے لیے اقتدار حاصل کرنے کی خاطر مسلمانوں میں خوں ریزی کراسکتے تھے۔ درحقیقت امام کی نگاہیں اس وقت مسلم معاشرے اوراسلامی ریاست کی روح اور اس کے مزاج اور نظام میں کسی بڑے تغیر کو آتا دیکھ رہی تھیں، جسے روکنے کی جدوجہد کرنا ان کے نزدیک ضروری تھا۔ حتیٰ کہ اس راہ میں لڑنے کی نوبت بھی آجائے تو وہ اسے نہ صرف جائز بلکہ فرض سمجھتے تھے۔ وہ کیا چیز تھی جس کا ذکر مولانا نے کیا ہے اس کی خاطر اب کوئی وقت کا حسین کیوں نہیں نکلتا۔ کیا اس راہ میں موت آجائے گی؟ ہاں یہ زیادہ سے زیادہ چیز انسانی زندگی کے لیے کم سے کم ہے۔ لیکن آج ہمارا رویہ وہی ہے جس کا ذکر مولانا مودودیؒ نے کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ امام نے جس مقصد کے لیے جان دی ہم اس کے لیے کچھ نہ کریں بلکہ اس کے خلاف کام کریں تو محض ان کی ذات کے لیے گریہ و زاری کر کے ان کے قاتلوں پر لعن طعن کرکے قیامت کے روز نہ تو ہم امام ہی سے کسی داد کی امید رکھ سکتے ہیں اور نہ یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ خدا اس کی کوئی قدر کرے گا۔ مولانا نے تو علمی بات لکھی تھی لیکن عملاً یہ ہو رہا ہے کہ عزاداروں کی وجہ سے پورا پورا شہر بند کردیا جاتا ہے جس کو عزاداری کرنا ہو وہ دوسروں کو تو تکلیف میں مبتلا نہ کرے۔ ہماری انتظامیہ بھی آنکھ بند کر کے سڑکیں اور راستے بند کردیتی ہے۔ امام کا تو مسئلہ یہی تھا کہ پہلے ان کا راستہ روکا گیا تھا۔ راستہ روکنا تو ہر نبی کے دین میں منع ہے اس کی سخت وعیدیں ہیں لیکن یہاں راستہ روکنا ہی حسینیت سمجھا جارہا ہے اس سے عام لوگوں کو سخت تکلیف ہوتی ہے۔