نواز شریف کی رہائی، کھیل اب شروع ہوگا

761

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف ، ان کی بیٹی مریم اور داماد کیپٹن صفدر کی سزائیں معطل کر کے انہیں رہا کردیا ہے۔ میاں نواز شریف کو ایون فیلڈ ریفرنس میں برطانوی جائداد کی ملکیت کے حوالے سے سزا سنائی گئی تھی لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ میں اس سزا کی معطلی کی درخواست پر سماعت کے دوران نیب اس جائداد کی نواز شریف کی ملکیت ثابت نہ کرسکا۔ عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ آپ تفتیش سے نواز شریف کا تعلق نہیں جوڑ سکے۔ کیا ہم فرض کرلیں کہ بچے چھوٹے ہیں تو مالک والد ہی ہوگا۔ اس فیصلے کے بعد تینوں رہنما جاتی امرا پہنچ گئے ہیں مسلم لیگ کے حلقوں میں زبردست خوشی کا مظاہرہ کیا گیا اور ملک بھر میں مٹھائیاں بانٹی گئی ہیں۔پی ٹی آئی کے حلقوں نے کہا ہے کہ یہ سزا برقرارہے صرف معطل کی گئی ہے۔ اور پیپلز پارٹی نے کہا ہے کہ شریف خاندان کو پھر ریلیف مل گیا ہمیشہ انہیں عدالت سے ریلیف مل جاتا ہے۔ ہم تو عدالتوں کا احترام کرتے ہیں۔ پی ٹی آئی کا بھی یہی کہنا ہے کہ عدالتوں کا احترام کرتے ہیں لیکن اپنے اپنے وقت میں عدالتوں کا ان لوگوں نے جس طرح احترام کیا وہ سب کو یاد ہے۔ نیب نے اس فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ جانے کا اعلان کیا ہے۔ فی الحال اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت مقدمے کے فیصلے تک سزا معطل ہے لیکن عدالت کے ریمارکس سے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ فیصلہ بھی اسی قسم کا آئے گا۔ دوسری طرف نیب ثبوت تو نہ لا سکا لیکن اسے سزا معطلی پر اعتراض ہے۔ عدالت عظمیٰ سے بھی اس کی یہی درخواست ہوگی کہ سزا بحال کی جائے۔ لیکن سزا پر اصرار کیوں ہے ثبوت کیوں فراہم نہیں کیے گئے۔ ن لیگ کا دعویٰ ہے کہ یہ سارا معاملہ یعنی نوازشریف کے خلاف مقدمات عمران خان کے لیے فضا سازگار کرنے کے لیے تھا اور اب جو کچھ ہونے والا ہے اس کے بارے میں تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اب مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی اس طرح الجھیں گے جس طرح ہدایت کار پہلے والوں کو الجھاتا رہتا ہے۔ اب مسلم لیگ ن دھاندلی دھاندلی کا شور مچائے گی۔ اپنے دور میں ٹیکس لگانے والی مسلم لیگ اب پی ٹی آئی کے ٹیکسوں کوعوام پر ظلم قرار دے گی۔ مسلم لیگ کے ٹیکسوں کو ظلم قرار دینے والی پی ٹی آئی اپنے ٹیکسوں کو ملک کے لیے ناگزیر قرار دے گی اور یوں پرانا کھیل شروع ہو جائے گا۔ یعنی نواز شریف کی رہائی سے معاملہ ختم نہیں ہوا ہے کھیل شروع ہوا ہے۔ پتلی تماشا لگانے والے تیار ہیں اور عوام کا معاملہ یہ ہے کہ وہ سچ مچ عوام ہیں ان کو جو کہہ لو ان کے ساتھ جو کرلو انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس لیے کہ ان کی عادت ہوچکی ہے یہ سب کچھ دیکھنے اور سہنے کی۔ اب حکومت اور مسلم لیگ الجھتے رہیں گے نئے مقدمات بنیں گے نئے ٹاک شوز کو نئے موضوعات ملیں گے اور سب مصروف ہو جائیں گے۔ صرف ان کو فرصت ملے گی جنہوں نے سارے ڈرامے کی ہدایت کاری کی ہے۔ نیب کی جانب سے معاملے کو عدالت عظمیٰ میں چیلنج کرنے کے حوالے سے یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ کیا نیب عدالت عظمیٰ کے سامنے ثبوت لے آئے گا۔ یا اس کا اصرار ہوگا کہ ثبوت آئے یا نہ آئے سزا جاری رہنی چاہیے۔ اور اگر عدالت عظمیٰ نے سزا بحال کردی تو پھر نئے الزامات لگیں گے جن کا موقع وزیر اطلاعات کے اس بیان سے ملے گا کہ نواز شریف کا جیل آنا جانا لگا رہے گا۔ گویا انہیں کسی جج نے بتا دیا ہے کہ نوازشریف کو جیل بھیجا جائے گا یا پھر جج حکومت کے کہنے پر فیصلے کریں گے۔ بہرحال اس سے الجھن تو بڑھ سکتی ہے لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ پاکستانی قوم کو یہ کھیل دیکھتے ہوئے بھی برسہا برس ہوچکے یں۔ حکومتی ترجمان جو کہتا ہے وہ نتائج سامنے آتے ہیں اور اب فواد چودھری کہہ رہے ہیں کہ ڈیل ہوگی نہ ڈھیل نوازشریف کا ٹھکانہ جیل ہے ایسے بیانات کا مطلب یہی ہے کہ جو کچھ عدالتیں کررہی ہیں وہ حکومت کے اشارے پر ہے۔ وزیر اعظم کو ایسے بیانات کا نوٹس لیناچاہیے۔ اور عدالتوں کو بھی اس تاثر کو ختم کرنا ہوگا کہ وہ ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑی ہیں یا ان کے فیصلے کسی دباؤ کے تحت ہو رہے ہیں ۔