جلال الدین حقانی مرحوم۔۔۔ ایک عظیم مجاہد

504

 

 

افغانستان میں سابق سوویت یونین اور امریکا کے خلاف ’’افغان جہاد‘‘ کے مرکزی کردار ممتاز عالم دین، عظیم مجاہد اور مشہور زمانہ ’’حقانی نیٹ ورک‘‘ کے بانی مولانا جلال الدین حقانی کئی سال کی طویل علالت کے بعد انتقال کرگئے۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔ یوں تو ان کے انتقال کی افواہ گزشتہ تین سال کے دوران کئی بار اُڑائی گئی لیکن ہر بار اس کی تردید ہوتی رہی، اب کی دفعہ ان کے انتقال کی تصدیق خود افغان طالبان کی قیادت نے کی ہے اور اس کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’نہایت افسوس کے ساتھ اطلاع دی جاتی ہے کہ معروف جہادی شخصیت ممتاز عالم دین، مثالی جنگجو، جہادیوں کے پیش رو، اسلامی امارات افغانستان میں سرحدی امور کے وزیر اور قائد کونسل کے رکن محترم الحاج مولائی جلال الدین حقانی اب اس دُنیا میں نہیں رہے۔ ان کے لیے پوری امت مسلمہ بالخصوص مجاہدین سے دعائے مغفرت کی اپیل ہے۔ بیان میں اگرچہ ان کے انتقال کی تاریخ اور تدفین کا ذکر نہیں ہے لیکن بتایا گیا ہے کہ افغانستان کے شہر خوست میں ان کی تدفین عمل میں آئی اور نماز جنازہ میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ مولانا جلال الدین حقانی 1939ء میں افغانستان کے صوبے پکتیا میں پیدا ہوئے، ابتدائی دینی تعلیم اپنے گاؤں کے مدرسے میں حاصل کی، پھر اعلیٰ دینی تعلیم کے لیے مولانا عبدالحق حقانی کے مدرسے دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک پاکستان کا رُخ کیا۔ افغانستان میں دینی مدارس یوں تو بہت سے تھے لیکن اعلیٰ دینی تعلیم کا کوئی بندوبست نہ تھا اور افغان طلبہ بالعموم پاکستان خاص طور پر دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کا رخ کرتے تھے جہاں مولانا عبدالحق حقانی کی زیر سرپرستی نہایت معیاری دینی تعلیم دی جاتی تھی اور اسے ایک اسلامی یونیورسٹی کا درجہ حاصل تھا۔ مولانا جلال الدین اس ادارے سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد اس کی نسبت سے حقانی کہلائے۔ وہ افغانستان واپس جاکر دعوت و تبلیغ کے کام میں منہمک ہوگئے۔ افغانستان میں ظاہر شاہ کے بعد سابق سوویت یونین کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا اور سوویت حکمران افغان حکومتوں کے بناؤ بگاڑ میں براہ راست حصہ لینے لگے۔ اس کے ساتھ ہی نوجوان افغان نسل میں کمیونسٹ خیالات تیزی سے پھیلنے لگے تو اسلامی جذبے سے سرشار جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں میں کمیونسٹ اثر و رسوخ کے خلاف مزاحمت کا جذبہ پیدا ہوا اور ایک نوجوان انجینئر حکمت یار نے حزب اسلامی کے نام سے تنظیم قائم کرکے افغانستان میں سوویت اثر و رسوخ کے خلاف مزاحمت کا اعلان کردیا۔ ابھی سوویت یونین افغانستان پر براہ راست حملہ آور نہیں ہوا تھا کہ اس کے خلاف مزاحمت کی تحریک شروع ہوچکی تھی اور اس تحریک کی قیادت انجینئر حکمت یار کررہے تھے۔ مولانا جلال الدین حقانی اور دیگر افغان علما نے بھی اپنا وزن حزب اسلامی کے پلڑے میں ڈال دیا تھا۔ 1979ء میں سوویت فوجیں براہ راست افغانستان میں داخل ہوگئیں اور سوویت جنگی طیارے افغان بستیوں پر تابڑ توڑ حملے کرنے لگے تو باقاعدہ جنگ چھڑ گئی اور افغان عوام غیر ملکی حملہ آور کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے۔ ایسے میں مولانا جلال الدین حقانی نے ایک عظیم مجاہد کی حیثیت سے سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد کو منظم کرنے میں ناقابل فراموش کردار ادا کیا۔
اگرچہ حزب اسلامی بھی یہی کام کررہی تھی اور وہ اُس وقت افغانستان کی سب سے بڑی جہادی تنظیم تھی لیکن مولانا جلال الدین حقانی نے جہادی مصلحت کے تحت حزب اسلامی سے الگ ہو کر اپنے انداز میں مسلح مزاحمت کو آگے بڑھایا اور مجاہدین کا حقانی گروپ قائم کیا جسے بعد میں امریکیوں نے ’’حقانی نیٹ ورک‘‘ کا نام دے دیا۔ امریکا تو سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد میں اُس وقت شامل ہوا جب اس نے دیکھا کہ افغان مجاہدین تو ایک سپر پاور کو ناکوں چنے چبوارہے ہیں اور وہ میدان سے دور کھڑا تماشا دیکھ رہا ہے۔ حالاں کہ اس سپر پاور کا اصل حریف تو وہ ہے چناں چہ امریکا بھی اپنی انگلی میں لہو لگانے کے لیے میدان میں کود پڑا اور اپنے خزانے اور اسلحہ خانے کے منہ کھول دیے۔ پھر امریکا کی شہ پر تمام عرب ممالک بھی افغان مجاہدین کی پشت پر آکھڑے ہوئے اور مولانا جلال الدین حقانی سب کے ہیرو بن گئے۔ وہ امریکا کی دعوت پر واشنگٹن گئے تو صدر ریگن نے ان کی راہ میں آنکھیں بچھادیں۔ جلال الدین حقانی ہفت زباں عالم تھے وہ عربی، فارسی، پشتو، اردو، پنجابی اور دری کے علاوہ انگریزی پر بھی قدرت رکھتے تھے، اس لیے عربوں اور امریکیوں سے مکالمہ کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی تھی۔ وہ پاکستان کے سچے بہی خواہ تھے۔ حج و عمرہ کی غرض سے سعودی عرب گئے تو سعودی حکمرانوں نے ان کے اکرام میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ’’حقانی نیٹ ورک‘‘ سمیت تمام جہادی قوتوں کی مشترکہ کوششوں سے حملہ آور سوویت یونین کو ذلت و رسوائی کے ساتھ پسپا ہونا پڑا۔ افغانستان میں مجاہدین کی حکومت قائم ہوئی تو اس میں بھی مولانا حقانی کو اہم ذمے داری سونپی گئی۔ خانہ جنگی کے نتیجے میں کابل حکومت ناکام ہوگئی تو ملا محمد عمر کی قیادت میں افغان طالبان نے ملک کا کنٹرول سنبھال لیا۔ مولانا جلال الدین حقانی حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے ملا عمر کے ہاتھ پر بیعت کرکے ان کے سپاہی بن گئے۔ طالبان حکومت میں انہیں وزیر سرحدی امور کی ذمے داری سونپی گئی۔ وہ اپنی اسی حیثیت میں 2001ء میں پاکستان کے سرکاری دورے پر تھے کہ امریکا نے افغانستان پر حملہ کردیا۔ مولانا حقانی افغانستان واپس جانے کے بجائے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں روپوش ہوگئے اور مجاہدین کو منظم کرکے امریکا کے خلاف جہاد کا اعلان کردیا اور ’’حقانی نیٹ ورک‘‘ ایک بار پھر میڈیا کی شہ سرخیوں کا عنوان بن گیا۔ اب کی دفعہ وہ امریکا کے مدمقابل تھا اس لیے اسے دہشت گرد گروپ قرار دے دیا گیا تھا اور امریکا نے مولانا حقانی کے سر کی قیمت لگادی تھی۔
17 سال گزر گئے افغانستان میں امریکا کے خلاف جہاد جاری ہے اور امریکا کھربوں ڈالر خرچ کرنے اور فوجی طاقت کا وحشیانہ استعمال کرنے کے باوجود لہو تھوکنے پر مجبور ہے اور حقانی نیٹ ورک بدستور اس کے اعصاب پر سوار ہے۔ پاکستان سے بھی اس کا واحد مطالبہ یہی ہے کہ وہ حقانی نیٹ ورک کے خلاف موثر کارروائی کرے لیکن پاکستان کا اس سے کیا واسطہ؟ یہ نیٹ ورک تو افغانستان میں سرگرم عمل ہے۔ مولانا جلال الدین حقانی پانچ سال پہلے ایک امریکی ڈرون حملے میں زخمی ہونے کے بعد قبائلی علاقے سے افغانستان واپس چلے گئے تھے، علاج معالجے کی سہولت نہ ملنے کے سبب ان کا جسم بھی مفلوج ہوگیا تھا، اسی حال میں وہ مالک حقیقی سے جاملے۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔ ان کے پانچ بیٹے تھے جن میں سے چار بیٹے انہوں نے جہاد کی نذر کردیے، ایک بیٹا آج بھی جہاد کا پرچم اُٹھائے ہوئے ہے۔ امریکا اب حقانی نیٹ ورک سے مذاکرات کی بھیک مانگ رہا ہے۔
جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے