نواز شریف اب کیا کریں گے؟

465

 

سب کچھ قوانین کے مطابق ہی ہوتا ہے۔ بدھ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کپتان صفدر کی ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا بھی قانون کے تحت معطل کی گئی ہے۔ مگر تبصرے اور تجزیے دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا حق ہے۔ اسی طرح عام لوگوں کو بھی اپنے رائے کا اظہار کرنے کی پوری آزادی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے بھی ردِ عمل سامنے آگیا۔ جس میں وفاقی وزیرِ اطلاعات اور پارٹی کے سیکرٹری اطلاعات فواد چودھری کا کہنا تھا کہ ’’پاکستان میں عدالتیں آزاد ہیں اور ہم عدالتوں کا مکمل احترام کرتے ہیں، ابھی معاملہ مزید آگے بڑھے گا اور قانون یقیناًاپنا راستہ بنائے گا‘‘۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’پہلے عدالتی فیصلوں کی طرح آج کے فیصلے کا احترام بھی واجب سمجھتے ہیں‘‘۔ دوسری طرف طرف شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کی سزا معطلی کے فیصلے کے بعد لیگی رہنماؤں کی جانب سے جشن منایا جارہا اور مٹھیاں تقسیم کی جارہی ہیں۔ تاہم تادم تحریر مسلم لیگ کے کسی رہنما کی طرف سے اس حوالے سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔
میرا تبصرہ یہ ہے کہ ایون فیلڈ ریفرنس پر احتساب عدالت کی جانب سے دی گئی سزاؤں کے فیصلے کو ابھی اسلام آباد ہائی کورٹ نے معطل کیا ہے۔ کالعدم قرار دیا ہے اور نہ ہی ختم کیا ہے۔ ابھی نیب کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ سے رجوع کرسکتی ہے۔ اور یقین ہے کہ قومی احتساب بیورو ایسا ہی کرے گا کیوں کہ یہ اس کی ساکھ کا مسئلہ ہے۔ اگر نیب اس فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ میں اپیل دائر نہیں کرے گا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ نیب نے اس مقدمے کو لڑنے میں اپنے کمزوریوں کو تسلیم کرلیا۔ اگر ایسا کیا گیا تو نیب کے وجود اور اس کے مستقبل پر سوال اٹھنے کے ساتھ نیب میں زیر تفتیش تمام مقدمات پر بھی اثر ہوسکتا ہے۔ اس لیے قوی امکان ہے کہ نیب جلد ہی عدالت عظمیٰ میں اس فیصلے کو چیلنج کرے گا۔ ایسی صورت میں میاں نواز شریف سمیت ایون فیلڈ کے تینوں رہا ہونے والی شخصیات کے پاس مستقبل کے لیے دو ہی راستے نظر آتے ہیں۔ وہ یہ ہیں کہ وہ جلد ہی کسی بھی طرح ملک سے باہر چلے جائیں یا پھر دوبارہ اڈیالہ جیل جانے کے لیے تیار رہیں۔ مسلم لیگ کے عام کارکنوں کی خوشی کے برعکس رہنماؤں کے چہروں کی ’’غیر یقینی‘‘ کیفیت بھی اس بات کا عندیہ دے رہی ہے کہ وہ اس فیصلے سے مطمئن نہیں ہیں۔ خیال ہے کہ مسلم لیگی رہنماؤں کو توقع تھی کہ ہائی کورٹ کی جانب سے سزاؤں کے فیصلے کو ختم کردیا جائے گا اور سزائیں کالعدم ہوجائیں گی۔
نواز شریف پر آنے والے برے ایام کے حوالے سے یہ تاثر مستحکم ہے کہ وہ ملک سے باہر نکلنے کو ترجیح دیا کرتے ہیں۔ پرویز مشرف کے دور میں بھی دس سال کی سزا کے بعد انہوں نے مبینہ طور پر ڈیل کرکے سعودی عرب میں پناہ لے لی تھی۔ ایسا کرتے ہوئے وہ اپنے ساتھی اور مسلم لیگی رہنما جاوید ہاشمی سمیت متعدد کارکنوں کو جیل ہی میں چھوڑ گئے تھے۔ اس لیے ممکن ہے کہ اس بار بھی وہ ایسا ہی کریں گے۔ ویسے بھی میاں نواز شریف ملک کی سیاست کے کسی بھی عہدے کے لیے زندگی بھر کے لیے نااہل ہوچکے ہیں اور سعودی عرب سمیت کسی بھی عرب ملک کی طرف سے ان کی ’’سپورٹ‘‘ کا کوئی امکان نہیں ہے۔ یہ اس لیے کہا جارہا ہے کہ اس بار عمران خان کے سعودی عرب سے بہتر نہیں بلکہ بہترین تعلقات کے شواہد نظر آنے لگے ہیں۔ خیال یہ بھی ہے کہ نیب عدالت عظمیٰ سے رجوع کرے گا اور عدالت عظمیٰ احتساب عدالت کے فیصلے کو درست قرار دے کر سزا بحال کردے گی۔ ایسا اگر ہوا تو مسلم لیگ کی تینوں اہم شخصیات کو دوبارہ جیل جانا پڑے گا۔ چوں کہ آصف زرداری اور ان کی بہن کے خلاف منی لانڈرنگ اور کرپشن کے الزامات میں تحقیقات جاری ہے اس لیے یہ بھی امکان پیدا ہورہا ہے کہ جلد ہی سیاست کے چمپئن بھی جیل جاسکتے ہیں۔ ایسی صورت میں پھر عام لوگ یہی کہیں گے کہ ’’سیاست کے دو کھلاڑی ہوئے جیل کے قیدی‘‘۔