سرسید اور ان کا تصور فطرت(5)

539

اس امر کا جائزہ لیا جاچکا کہ سرسید جس تصور فطرت کو خدا بنائے بیٹھے تھے اس کا مغرب کے تین عظیم ترین فلسفیوں یعنی سقراط، افلاطون اور ارسطو کی فکر سے کوئی تعلق نہ تھا۔ سرسید عیسائی فکر کے بھی خوشہ چین تھے مگر ان کا تصور فطرت عیسائیت کے دو عظیم ترین مفکرین یعنی سینٹ آگسٹین اور سینٹ ٹامس اکوائناس کے فکر و فلسفے سے بھی کوئی علاقہ نہ تھا۔ چین کی تہذیب چار ہزار سال پرانی تہذیب تھی۔ اس تہذیب میں بھی فطرت کا وہ مفہوم نہیں تھا جو سرسید سر پہ اٹھائے پھرتے تھے۔ عسکری صاحب نے اس ضمن میں ہندو تہذیب کا جائزہ لے کر یہ دکھایا ہے کہ ہندو تہذیب بھی فطرت کے اس تصور سے ناواقف تھی جس کو سرسید کلمہ طیبہ کی طرح بروئے کار لاتے تھے مگر ہندو تہذیب کے بنیادی تصورات کے ذکر سے بات طویل ہوجاتی۔ اسی لیے اب ہم یہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلام، اس کی فکر اور اس کی تہذیب میں فطرت کا تصور کس طرح ظاہر ہوا ہے؟۔ اس حوالے سے عسکری صاحب نے فرمایا ہے۔
مغربی اثرات کے آنے سے پہلے ہمارے یہاں یہ بات بالکل واضح تھی کہ اسلامی علوم میں لفظ فطرت کے کیا معنی ہیں۔ اُلجھاوے خود سرسید نے پیدا کیے۔ فطرت کے اسلامی تصور کو واضح کرنے کے لیے ہم ایک بنیادی کتاب یعنی جرجانی کی ’’کتاب التعریفات‘‘ کا حوالہ پیش کرتے ہیں جس میں اس سلسلے کے الفاظ کا فرق واضح کیا گیا ہے:
طبع: جو انسان پر واقع ہوتی ہے بغیر ارادے کے۔
طبع: جبلت جس پر انسان پیدا کیا گیا ہے۔
طبیعت: وہ قوت جو اجسام میں ساری ہوتی ہے اور جس سے جسم کمال طبعی کو پہنچتا ہے۔
فطرت: وہ جبلت جس کے ذریعے قبول دین کا میلان پیدا ہوتا ہے۔
ان الفاظ کی اصطلاح تشریح بالکل واضح کردیتی ہے کہ سرسید لفظ فطرت کو جن معنوں میں رواج دینا چاہتے تھے وہ معنی ہمارے یہاں کبھی رائج نہ تھے۔ البتہ لفظ طبیعت ان معنوں سے قریب ہے جو سرسید کے ذہن میں لفظ نیچر کے تھے۔ یہ لفظ طبیعت بھی عرب فلسفیوں نے یونانی لفظ Phusis کے ترجمے کے طور پر استعمال کیا ہے جس سے انگریزی لفظ Physical نکلا ہے۔
عربی لفظ فطرت کا مادہ فطر ہے جس کی دو شکلیں ہیں۔ ایک تو ’’فَطَرَ‘‘ جس کے معنی پھاڑنا، اور دوسرے ’’فَطر‘‘ جس کے معنی ہیں بنانا یا تخلیق کرنا۔ اسلامی علوم میں لفظ ’’فطرت‘‘ کے معنی میں مندرجہ ذیل مفاہیم شامل ہیں:۔
(1) اس کا اطلاق کبھی ان کمالات پر ہوتا ہے جو انسان کی تخلیق یا بناوٹ میں رکھے گئے ہیں۔
(2) کبھی اسلام پر ہوتا ہے۔
(3) کبھی قبول اسلام کی استعداد پر۔
(4) کبھی اللہ کی معرفت و توحید پر۔
(5) کبھی انبیا علیہ السلام کی اجماعی سنت پر۔
(6) کبھی استقامت علی الدین پر۔
(7) کبھی طریقہ حقّہ پر۔
(8) کبھی علامات استقامت پر۔
قرآن اور حدیث میں یہی استعمالات شائع ہیں اور ان سب میں لفظ کے اصل معنی ’’وہ حالت جس پر انسان کی تخلیق کی گئی ہے‘‘۔ کسی نہ کسی طرح ملحوظ ہیں۔ اب ہم اپنے بیان کی شہادتیں پیش کرتے ہیں:
قرآن شریف میں
قرآن شریف میں لفظ فطرت صرف ایک بار آیا ہے۔ البتہ لفظ ’’فطر‘‘ اور ’’فاطر‘‘ دس بارہ جگہ آئے ہیں۔ لفظ فطرت سورۂ روم کی آیت نمبر 30 میں آیا ہے جس میں دین اسلام پر مضبوطی سے قائم رہنے کی ہدایت کی گئی ہے:
فاقم وجھلک للدین حنیفاً فطرت اللہ الّتی فطر الناس علیھا لاتبدیل لخق اللہ (سورۂ روم۔ آیت 30)
(ترجمہ:۔ سوتم یک سوہو کر اپنا رخ اس دین کی طرف رکھو۔ اللہ کی دی ہوئی قابلیت کا اتباع کرو جس پر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اس پیدا کی ہوئی چیز کو جس پر اس نے تمام آدمیوں کو پیدا کیا ہے بدلنا نہ چاہیے۔ (ترجمہ ازاشرف علی تھانوی)
اس آیت کا مفہوم بالکل واضح ہے اور اس میں اشتباہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ مگر کمال یہ ہے کہ سرسید نے اس آیت کے اجزا کو ایک دوسرے سے الگ کرکے انہیں اپنے معنی پہنانے کی کوشش کی ہے اور اس پر اصرار کیا ہے کہ قرآن شریف کی رو سے قوانین فطرت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ اس آیت پر ایک نظر ڈالنے سے ہی ظاہر ہوجاتا ہے کہ یہ جملہ انشائیہ ہے، خبر یہ نہیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایک حکم دیا ہے، کوئی واقعہ نہیں سنایا۔ سرسید نے آیت کا پہلا فقرہ تو چھوڑ دیا اور باقی فقروں کو خبر یہ بنادیا۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے اپنے تشریحی ترجمے میں دراصل سرسید کی غلط بیانی ہی کا رد کیا ہے۔ اب رہا یہ سوال کہ مولانا تھانوی کی تفسیر کو کیوں تسلیم کیا جائے اور سرسید کی تفسیر کو کیوں رد کیا جائے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث شریف میں سیدنا ابن عباسؓ سے یہی منقول ہے کہ فطرت کے معنی دین اسلام ہیں۔ آگے چل کر ہم دوسری حدیثیں پیش کریں گے۔ ان سے واضح ہوجائے گا کہ حدیث سے بھی ’’فطرت‘‘ کا وہ مفہوم برآمد نہیں ہوتا جو سرسید برآمد کرنا چاہتے تھے۔ لیکن خود قرآن شریف میں بھی سیدنا ابن عباسؓ کی تائید میں ایک بین دلیل ملتی ہے۔ قرآن شریف میں جہاں کہیں لفظ ’’فطر‘‘ یا ’’فاطر‘‘ آیا ہے اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی واحدانیت پر ایمان لانے اور کسی کو اس کا شریک نہ بنانے کی ہدایت کی گئی ہے یا اللہ تعالیٰ کی خالقیت کی عظمت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
انی وجھت وجھی للذی فطر السمٰوات والارض حنیفا (سورۂ انعام۔ 79)
ومالی لااعبدالذی فطرنی والیہ ترجعون (یٰسین۔ 22)
الّاالذی فطرنی فاءِ نہٗ سیھدین (الزخرف۔ 27)
قُل اَغَیرَ اللہِ اتخذ ولیا فاطر السمٰوات والارض (انعام۔ 13)
قالت رسلھم افی اللہ شک فاطر السمٰوات والارض (ابراہیم۔ 10)
قل اللھم فاطر السمٰوات والارض عالم الغیب والشھادۃ (الزمر۔ 46)
الحمدللہ فاطر السمٰوات والارض جاعل الملائکۃ رُسُلاً (فاطر۔ 1)
اذا السماء انفطرت(الانفطار۔ 1)
غرض قرآن شریف میں سرسید والی فطرت یا قوانین فطرت کا کوئی نشان نہیں ملتا۔ جتنی آیات ہم نے پیش کی ہیں ان میں یہی کہا گیا ہے کہ آسمان اور زمین اور ان کے درمیان جو کچھ ہے وہ سب اللہ نے بنایا ہے، اس حقیقت کو سمجھو، تسلیم کرو اور کسی کو اللہ کا شریک نہ ٹھیراؤ۔ اس کے علاوہ یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر دین اسلام کو قبول کرنے کی اہلیت رکھ دی ہے جس کا نام فطرت ہے۔ انسان کو اس اہلیت سے کام لینا چاہیے اور اس کے خلاف نہ چلنا چاہیے۔ ساتھ ہی یہ بھی بتادیا ہے کہ کوئی انسان اپنی فطرت پر چلے گا یا نہیں چلے گا اس کا انحصار بھی اللہ پر ہی ہے۔ انسان کو اللہ نے بنایا ہے اور ہدایت بھی اس کی طرف سے ہے۔
حدیث شریف میں
اور ہم نے فطرت کا جو مفہوم بیان کیا وہ احادیث سے بالکل واضح ہوجاتا ہے۔
’’الاسلام دین الفطرۃ‘‘ (اسلام دین فطرت ہے)
’’کل مولودیولدعلی الفطرۃ‘‘ (ہر بچہ فطرت پر پیدا کیا جاتا ہے)
’’مامن مولود الایولدعلی الفطرۃ فابواہ یھودانہ، اوینصوانہ اویمجسانہ‘‘
(ہر شخص بس فطرت کے اوپر پیدا کیا جاتا ہے۔ پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی بنادیتے ہیں یا نصرانی بنادیتے ہیں یا مجوسی بنادیتے ہیں)۔
ان تین حدیثوں کو ملا کر پڑھیں تو روشن ہوجاتا ہے کہ فطرت کے معنی دین اسلام کے سوا اور کچھ نہیں۔ مگر یہاں دین اسلام کے معنی وہ دین سمجھنا چاہیے جسے لے کر انبیا آتے رہے اور جس کی آخری شکل شریت محمدیؐ ہے۔ یہ فطرت وہ میثاق ہے جو روز ازل تمام انسانوں کی روحوں سے لیا گیا تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان سے پوچھا ’’الست بربکم‘‘۔ اور انہوں نے جواب میں ’’بلیٰ‘‘ کہا۔ اب چند حدیثیں اور دیکھیے۔
’’لایزال امتی بغیر اوقال علی الفطرۃ مالم یوخروالمغرب الی ان نشتبک النجوم‘‘
(مشکوٰۃ شریف۔ باب تعجیل الصلوٰۃ)
(ہمیشہ رہے گی امت میری ساتھ بھلائی یا فرمایا فطرت پر یعنی طریقہ اسلام پر جب تک کہ نہ دیر کریں گے۔ مغرب کو یہاں بہت ہوں ستارے)
’’عن شفیقؓ قال ان حذیفۃؓ رای رجلالایتم رکوعہ ولاسجودہ نلما قصیٰ صلوٰۃ رعاہٗ فقال لہ حذیفۃ ماصلیت قال واحسبہ، قال ولومت مت علی غیر الفطرۃ التی فطر اللہ محمداً صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ (مشکوٰۃ شریف۔ باب الرکوع)
(روایت ہے شفیقؓ سے کہ تحقیق حذیفہؓ نے دیکھا ایک شخص کو کہ نہیں پورا کرتا رکوع اپنا اور نہ سجدہ اپنا۔ پس جب پڑھ چکا وہ نماز اپنی بلایا اس کو اور کہا اس کو حذیفہؓ نے نہیں نماز پڑھی تونے یعنی پوری۔
کہا شفیقؓ نے اور گمان کرتا ہوں حذیفہؓ نے اس شخص کو یہ بھی کہا اور اگر مرے یعنی بغیر توبہ کے تو مرے گا اوپر غیر فطرت کے یعنی غیر طریقہ اسلام کے، وہ طریقہ کہ پیدا کیا اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو)
’’عن عائشۃؓ قالت قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشرمن الفطرۃ‘‘۔ (مشکوٰۃ شریف۔ باب السواک)
(روایت ہے کہ سیدہ عائشہؓ سے کہا فرمایا رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے دس چیزیں ہیں فطرت سے یعنی دین کی باتیں۔ ایک تو کم کرنا لبوں کا اور بڑھانا ڈاڑھی کا اور مسواک کرنا اور ناک میں پانی دینا اور ترشوانا ناخنوں کا اور دھونا جگہ جوڑوں کی کو اور دور کرنے بال بغلوں کے اور مونڈنے بال زیر ناف کے اور کم کرنا پانی کا یعنی استنجا کرنا ساتھ پانی کے)۔
ان تین حدیثوں میں فطرت کے مطابق عمل کرنے کے معنی ہیں احکام شریعت کی پوری پابندی کرنے کے۔ آخری حدیث میں فطرت کو طریقہ ابراہیمی کے مترادف بتایا گیا ہے۔ یہاں سرسید والے قوانین فطرت کا کوئی ذکر نہیں آیا۔ قرآن شریف اور حدیث شریف سے فطرت کے جو معنی برآمد ہوتے ہیں اس پر مسلمانوں کے تمام فرقوں اور جماعتوں کا اتفاق رہا ہے۔ اختلاف ہے تو بس اتنی سی بات میں کہ طبعی کائنات کی نوعیت اور کیفیت کیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ فطرت کے معنوں پر تو سب کا اتفاق ہے، البتہ طبیعت کی کیفیت پر اختلاف ہے اس کی بھی چند مثالیں ہم پیش کیے دیتے ہیں۔