بھارت کا مسلسل منفی رویہ

463

گزشتہ جمعرات ہی کو وزیراعظم عمران خان کے خط کے جواب میں بھارت نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر دونوں ممالک کے وزراء خارجہ میں ملاقات پر رضامندی ظاہر کی تھی۔ ملاقات ہو جاتی تو یہ دونوں ملکوں کے وزراء کے درمیان 2015ء کے بعد پہلی ملاقات ہوتی۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے دہلی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ستمبر کے اواخر میں نیویارک میں ہونے والے اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی اجلاس کے موقع پر سشما سوراج اور شاہ محمود قریشی میں ملاقات ہوگی۔ بھارتی ترجمان نے یہ وضاحت بھی کی تھی کہ یہ صرف ایک ملاقات ہوگی۔ جسے مذاکرات نہ سمجھا جائے، ہم نے ابھی ملاقات کا ایجنڈا طے نہیں کیا۔ یہ کہنا بھی ضروری سمجھا گیا کہ پاکستان کے حوالے سے بھارت کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ بین الاقوامی سطح پر اس مبینہ ملاقات کے اعلان کو سراہا گیا تھا اور یہ خیال بھی ظاہر کیا جارہا تھا کہ اس سے برف پگھلے گی اور بات چیت سے دونوں ممالک کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی میں کمی آنے کا امکان ہے۔ لیکن اگلے ہی دن بھارت اپنی بات سے مکر گیا اور کسی بھی قسم کی ملاقات سے صاف انکار کردیا۔ بھارت کا یہ متکبرانہ رویہ کوئی نیا نہیں ہے اور آج کل تو امریکا سے اس کی پینگیں اونچی ہواؤں میں ہیں۔ اسے گمان ہے کہ امریکا بھارت کو اس خطے کا تھانے دار بنانے والا ہے چنانچہ ہمسایہ ممالک سے معمول کے تعلقات کے بجائے کشیدگی برقرار رکھنے بلکہ بڑھانے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔ بھارت کا گمان ہے کہ پڑوسیوں پر اس کی دھاک بیٹھے گی تو امریکا خطے میں اسے نیابت دینے میں دیر نہیں لگائے گا۔ اسے معلوم ہے کہ پاکستانی حکومتوں کی قدم بوسی اور امریکی بار بردار ی کے باوجود صدر ٹرمپ پاکستان کو لتاڑ رہا ہے اور نت نئی پابندیاں لگا ئی جارہی ہیں۔ چنانچہ امریکا کی خوشنودی کے لیے ضروری ہے کہ وہ بھی پاکستان سے کشیدگی بڑھائے۔ بھارت روس کو چھوڑ کر ابھی نیا نیا امریکا کی گود میں بیٹھا ہے۔ اسے امریکا کو سمجھنے میں ابھی وقت لگے گا۔ امریکی دانشور ہنری کسنجر بہت پہلے خبردار کرچکے ہیں کہ امریکا کی دوستی اس کی دشمنی سے زیادہ خطرناک ہے۔ پاکستان تو یہ دوستی کب سے بھگت رہا ہے۔ بھارت سے بھی یہ مطالبہ کیا گیاہے کہ وہ ایران سے تیل خریدنا بند کرے۔ بھارت نے فی الوقت تو اس سے انکار کردیا ہے اور چاہ بہار کی بندرگاہ کو فعال کرنے میں سرماری کاری کررہاہے۔ ممکن ہے کہ چانکیہ سیاست پاکستان کے حکمرانوں سے بہتر ثابت ہو کہ امریکا سے مفادات بھی سمیٹے جائیں اور اس کے کچھ مطالبات کو نظر انداز بھی کیا جائے۔ 1965ء میں بھارت امریکاکے مقابلے میں سوویت یونین کے کیمپ میں تھا اور اس کے بھاری اسلحہ کے بل پر پاکستان سے ٹکر لی تھی۔ دوسری طرف پاکستان کے ’’دوست‘‘ امریکا نے دفاعی معاہدوں کے باوجود پاک بھارت جنگ میں بھارت کا ساتھ دیتے ہوئے پاکستان کو اسلحہ کی فراہمی روک دی تھی۔ اسے بھارتی سیاست کی کامیابی کہا جانا چاہیے۔ پاکستان کے نئے وزیر اعظم عمران خان نے خیر سگالی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو خط لکھاتھا کہ تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جاسکتا ہے، دونوں ممالک کو اپنے عوام اور آنے والی نسلوں کے لیے بہتر مستقبل کی جانب بڑھنا چاہیے۔ ایسی ہی خواہش کا اظہار کچھ عرصہ پہلے وزیر اعظم نریندر مودی بھی کرچکے ہیں کہ ہمیں جہالت، بھوک اور بیماری سے مل کر لڑنا چاہیے۔ لیکن ان کے یہ الفاظ بھی کھوکھلے ہیں ۔ خود اپنے ملک میں وہ ریاستی دہشت گردی کو فروغ دے رہے ہیں اور مقبوضہ کشمیر میں تو مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے۔ ایسی ذہنیت رکھنے والوں سے کسی کو بھی خیر کی توقع نہیں ہوسکتی اسی کا ثبوت دیتے ہوئے وزراء خارجہ ملاقات پرآمادگی ظاہر کر کے بھارت 24گھنٹے میں مکر گیا۔ حالاں کہ اس مجوزہ ملاقات کی کوئی بہت زیادہ اہمیت نہیں تھی اور یہ جنرل اسمبلی اجلاس کے دوران میں سائیڈ لائن پر ہونی تھی۔ اس سے صرف اتنا ہوتا کہ وزارتی سطح پر آئندہ ملاقاتوں کا امکان پیدا ہوسکتاتھا اور تعطل ختم ہوجاتا۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ بھارتی حکومت خود بوکھلائی ہوئی ہے۔ چند ماہ بعد بھارت میں عام انتخابات بھی ہونے والے ہیں۔ ممکن ہے کہ مودی سرکاری کو یہ خدشہ ہو کہ پاکستان سے مذاکرات کی بحالی کے امکان پر بی جے پی کا انتہا پسند ووٹر بدک جائے۔ مودی کی پہچان ہی ایک انتہا پسند اور مسلم دشمن کی ہے اسی لیے وہ گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کروا کر وزارت عظمیٰ کے منصب تک پہنچے ہیں۔ انہوں نے گجرات کے قسائی کا اعزاز حاصل کیا اور اسے برقرار رکھتے ہوئے گؤ رکھشا کے نام پر مسلمانوں کو ذبح کیا جارہا ہے۔ اور اب حزب اختلاف کانگریس کے صدر راہول گاندھی نے نریندر کو چور قرار دیا ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے مودی کے نام خط میں خواہش ظاہر کی تھی کہ پڑوسیوں سے اچھے تعلقات ہونے چاہییں۔ اسی لیے انہوں نے مودی کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا جو جھٹک دیا گیا۔ اس کے ساتھ بھارتی فوج کے سربراہ نے پاکستان کو جنگ کی دھمکی بھی دے ڈالی۔ عمران خان نے بھارتی ردعمل کے جواب میں کہا ہے کہ ’’ بھارت کا منفی اور متکبرانہ رویہ باعث افسوس ہے‘‘۔ عمران خان نے نریندر مودی کا نام لیے بغیر کہا کہ ’’ میں نے اپنی زندگی میں ادنیٰ لوگوں کو بڑے بڑے عہدوں پر قابض ہوتے دیکھا ہے، لوگ بصیرت سے عاری اور دور اندیشی سے یکسر محروم ہوتے ہیں ۔ بڑے عہدوں پر تعینات چھوٹے لوگ یہ وژن نہیں رکھتے کہ بڑی تصویر دیکھ سکیں‘‘۔ گو کہ اے این پی کے رہنما اسفند یار ولی نے عمران کے جملوں کو ناشائستہ قرار دیا ہے لیکن بھارت کے مستقل مخاصمانہ رویے پر یہی کہا جاسکتا ہے جو عمران خان نے کہا ہے۔ اس میں کوئی شبہ تونہیں کہ بی جے پی، راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ اور بھگوا جماعتیں دہشت گرد ہیں اور صرف نفرت کی پجاری۔ بھارت نے پاکستان کی میزبانی میں سارک کانفرنس میں یہ کہہ کر شرکت کرنے سے انکار کردیا ہے کہ دہشت گردی اور مذاکرات ساتھ ساتھ نہیں ہوسکتے۔ لیکن بھارت مقبوضہ کشمیر میں جو کررہا ہے اس سے بڑی دہشت گردی اور کیا ہوسکتی ہے۔ بجا طور پر یہ رویہ منفی اور متکبرانہ ہے۔