یکم محرم 61 ہجری کو کربلا شروع ضرور ہوئی مگر ختم کب اور کہاں؟ اس سوال کا جواب تو آج کربلا اور بغداد کے پاس بھی نہیں‘ آج سری نگر میں نوحے ہیں‘ بغداد میں خون بہہ رہا ہے‘ عالمِ اسلام ہو کہ غیر عالمِ اسلام، ڈیڑھ ہزار برس پہلے کے برعکس بے خبری تک حقیقی وقت میں یہاں سے وہاں پہنچتی ہے‘ تو پھر ماریطانیہ سے انڈونیشیا تک ایک بڑا سا کوفہ کیوں نظر آرہا ہے؟ یہ ایک ایسی کربلا ہے جو سری نگر سے ہوتی ہوئی بغداد تک آج بھی جاری ہے۔ حلب، موصل، بغداد، قندھار اور عدن جیسے کتنے شہر ہیں جو صدیوں کے تہذیبی آثار پلو میں سمیٹے سفید پوشی نبھاتے نبھاتے ہماری آنکھوں کے آگے دیکھتے ہی دیکھتے ہلاک کر دیے گئے۔ اکیسویں صدی میں جتنی سَستی زندگی کلمہ گو کی کلمہ گو کے ہاتھوں ہے خدا باقی صدی میں کسی کی نہ کرے، جس قدر بے حسی آج ارزاں ہے‘ ظلم ہر جگہ ہے اس کے سامنے قانون سمٹ رہا ہے اور انسان سسک رہے ہیں‘ ظالم ہر جگہ طاقت ور ہے‘ عدالتوں میں بھی وہ مظلوم دھکے کھا رہے ہیں جن کے گھروں‘ پلاٹوں پر قبضہ مافیا نے قبضہ کر رکھا ہے‘ غلط اور بے بنیاد دستاویزات کی بنیاد پر ماتحت عدالتوں سے حکم امتناعی مل رہے ہیں۔ لاہور کے ایکسائز ڈیپارٹمنٹ کے اہل کار اس دھندے میں ملوث ہیں‘ ان کے سامنے حق دار پریشان ہیں‘ ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے‘ سیاسی جماعتوں کو دھاندلی کمیشن سے فرصت نہیں‘ گورنر بن جانے والے اس بات پر خوش ہورہے ہیں کہ دروازے عام آدمیوں کے لیے کھول دیے ہیں‘ مگر جن کے پلاٹوں پر قبضے ہورہے ہیں انہیں مافیا سے کون محفوظ بنائے گا؟
ہم پوچھتے ہیں کہ ظلم کیوں ختم نہیں ہورہا‘ فلک دیکھ رہا ہے کہ آج بھی انسان آنسوؤں کو آستین سے پونچھ کر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں یزید کسی فرد کا نام ہوتا تو کلیجہ ٹھنڈا ہو جاتا مگر یہ تو ایک کیفیت ہے جس کے عقیدے، رنگ، نسل اور نظریے کے بارے میں کوئی بھی اٹکل لڑانا ایک بے معنی مشق ہے۔ ہوا، پانی، آگ ہے ویسے ہی حق اور باطل کی تیغ بھی ہم سب کی زندگیوں میں سائے کی طرح آزو بازو، اوپر تلے، اندر باہر چل رہی ہے ممکن ہے ڈیڑھ ہزار برس پہلے اشیاء اور خیالات واقعی سیاہ و سفید ہوتے ہوں پر آج کی دنیا میں ایسا کچھ نہیں، سب گرے ہے، سب مٹیالا ہے‘ پوشیدہ حق کی رمق اور باطل کی لہر میں سے کس وقت کیا غالب ہو جائے اور کب دونوں کیفیات اندر ہی اندر خلط ملط ہو کر پھر الگ الگ ہو جائیں؟ میں کب ظالم سے مظلوم اور مظلوم سے ظالم میں بدل جاؤں؟ ڈیڑھ ہزار برس پہلے جب پیغام رسانی تیز رفتار قاصدوں کی محتاج تھی تب بھی خالص سچائی جاننے کی عیاشی محض اشرافیہ کو میسر تھی۔ آج کی طرح اس وقت بھی پہلی اطلاع خواص کے دیوان خانے میں پیش کی جاتی اور پھر اسے رعایا کے لیے عام فہم، زود ہضم بنانے کا عمل ہوتا اور پھر یہ ملاوٹی اطلاع عام آدمی کو آہستہ آہستہ خاص فکری جوشاندے میں ملا کر فراہم کی جاتی تاکہ اپھارا نہ ہو جائے۔
کپتان نے سیاست میں کپتانی کی ٹھان کر اپنا 11 نکاتی ایجنڈا پیش کیا تھا اس پر عملدرآمد کے حوالے سے آج تک اپنی حکمت عملی پیش نہیں کرسکے۔ انتخابی منشور کا پہلا نکتہ یکساں نصاب اور ایک نظام تعلیم رکھا گیا ہے‘ صحت اور غریبوں کے لیے بلاتفریق ہیلتھ انشورنش کی بات کی گئی لیکن صحت کے بنیادی مراکز، ’پڑھے لکھے‘ ڈاکٹرز، اسٹاف اور معیاری اسپتالوں کی بھی ضرورت ہے یہ سب کچھ کیے بغیر عوام سے 8 ہزار ارب روپے ٹیکس نکالے جارہے ہیں کرپشن کا خاتمہ ہر کسی کی خواہش ضرور ہے لیکن سیاسی درگت بنانے اور بازو مروڑنے کے ماہر ادارے نیب کو مضبوط بنانے سے پہلے ٹھیک کون کرے گا؟ عوام کو بیروزگار اور نادار کرنے والے زمیندار، صنعت کار اور لٹھ بردار ہاؤسنگ مافیا سب آپ کے ساتھ جڑ گئے ہیں۔ 60 فی صد پڑھے لکھے نوجوانوں کے روزگار اور غریبوں کو 50 لاکھ گھر دینے کا خواب کیسے پورا ہوگا؟ فاٹا کو پختون خوا میں ضم کرنے کا عمل تو شروع ہوچکا ہے کہیں‘ تاہم فاٹا کے غیور عوام کو برابری کی بنیاد پر حقوق کیسے ملیں گے؟۔ جناب وزیر اعظم آپ کا انتخابی ایجنڈا سیاسی اعلانات سے زیادہ نہیں دکھائی دے رہا، کیوں کہ یہ سب تو 1973 کے متفقہ آئین کے وہ بنیادی نکات ہیں جن پر عملدرآمد یقینی بنانا ہر وفاقی وصوبائی حکومت کی آئینی وقانونی ذمے داری ہے۔
حقیقت احوال ہے کہ 80 سے 90 فی صد سیاسی جماعتیں وفاق اور صوبوں میں حکمران ہیں، پانچ سال مکمل ہونے پر کیا ان میں سے کوئی ایک بھی ہے جو اپنی آئینی ذمے داریوں کو پورا کرنے کے بارے میں سچ بولے اور حقائق سامنے لائے گا۔ شاید مشکل ہے کیوں کہ جہاں اقتدار کی غلام گردشوں کے مقیم مال اکٹھا کرنے کی ہوس میں غیر ملک سے وفاداری کا حلف تک اٹھا لیتے ہوں، ان سے عوام اچھی کی توقع کیسے اور کیوں کر کرسکتے ہیں دراصل اصول وضوابط اور آئینی ذمے داریاں محض گفت گو، نعروں اور تقریروں تک محدود ہیں اور ذاتی ایجنڈا قومی ایجنڈا ہے۔ انہی غلطیوں اور کوتاہیوں سے حکمرانوں اور عوام کے درمیان فاصلے بڑھتے ہیں، ادارہ جاتی ویکیوم بنتا ہے جو طاقتوروں کو جواز اور طاقت فراہم کرتا ہے، وہ اپنا کردار ادا کرتے ہیں تو اس کو مداخلت کہا جاتا ہے۔ پھر یہی المیہ جب نااہلی کی صورت وقوع پزیر ہوتا ہے تو ’نیک صفتوں‘ کی تلاش کو ’سیاسی انجینئرنگ‘ کا نام دے دیا جاتا ہے کب تک عوامی طاقت کے چھن جانے اور محرومیوں کا رونا روئیں گے بس یہی کہنا ہے کہ ماضی کی طرح اب بھی ایک اور جمہوری دور مکمل ہو رہا ہے لیکن عوام کی حقیقی رہنمائی کرنے کا دعویٰ کرنے والی ہر سیاسی جماعت کو ’حرم کی پاسبانی کا حساب دینا ہوگا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے صوبے کی پولیس سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں کی پرفارمنس، بجلی کی قلت دہشت گردی کے بعد دوسرا سنگین مسئلہ ہے، پہاڑی اور قدرتی ڈھلوانوں سے فائدہ اٹھا کر بجلی کے لگائے گئے منصوبے اور اب تک کی پیداوار کرپشن کے خاتمے کے نیب کے صوبائی محکمے سمیت دیگر اداروں کے بیلاگ احتساب کی قائم کردہ مثالیں اور پکڑے گئے اسکینڈلز تعلیم اور صحت کے شعبے میں وفاق کے اعلان سے ہٹ کر اضافی صوبائی بجٹ سے لائی جانے والی انقلابی تبدیلیاں، ایک ارب درخت لگانے کے تاریخی اقدام کی تمام ویڈیوز سمیت زمینی حقائق سامنے لائی جائیں۔۔۔ مگر کب تک