بنگالیوں اور افغانیوں کی شہریت کا مسئلہ

460

وزیر اعظم عمران خان نے کراچی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بنگالی پناہ گزینوں اور پاکستان میں پیدا ہونے والے افغان مہاجرین کے بچوں کو شہریت ملنے کے حق کا دفاع کیا۔ ان کا کہنا تھا دنیا بھر میں یہ اصول ہے کہ کسی بھی ملک میں پیدا ہونے والا بچہ اس ملک کا شہری ہوتا ہے۔ پاکستان میں بنگالیوں اور افغانوں کے بچوں کو تادیر اس حق سے محروم نہیں رکھا جا سکتا کیوں کہ یہ انسانی حقوق کا معاملہ بھی ہے۔ وزیر اعظم کے اس اعلان پر سندھ اور بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں نے اعتراض کیا ہے۔ حکومت کے اتحادی سردار اختر مینگل نے تو اسے اپنے ساتھ ہونے والے معاہدے سے روگردانی قرار دے کرکے ایوان سے واک آؤٹ بھی کیا۔ یہ اعتراض قومی اسمبلی کے فلور پر اس وقت بھی ہوا جب وزیر اعظم ایوان میں موجود تھے۔ جس پر انہیں یہ وضاحت کرنا پڑی کہ انہوں نے کوئی حکم صادر نہیں کیا بلکہ ایک تجویز پیش کی ہے جس پر پارلیمنٹ کو بحث کرکے کوئی پالیسی وضع کرنا چاہیے۔
سندھی قوم پرستوں کو خوف ہے کہ بنگالیوں اور بہاریوں کو شہریت دینے سے صوبے میں ڈیموگرافی پر اثر پڑے گا اور شہری اور دیہی سندھ میں ایک تفاوت پیدا ہوگا۔ اسی طرح بلوچ قوم پرستوں کا خوف یہ ہے کہ بلوچستان میں افغان مہاجرین کو شہریت ملنے سے صوبے کی ڈیموگرافی میں جوہری تبدیلی واقع ہو گی کیوں کہ افغان مہاجرین پشتون آبادی کا حصہ بنیں گے۔ یہ خوف قطعی بے جا بھی نہیں۔ ایک تو پاکستان میں وسائل کی کمی ہے اور بے روزگاری عام ہے۔ یہاں جدی پشتی شہری بھی بہت سی سہولتوں سے محروم ہیں اس پر مستزاد یہ کہ کم وبیش ایک کروڑ سے زاید افراد کو مزید شہریت مل جائے تو وسائل کی صورت حال کیا ہوگی اس کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں۔ یوں یہ خوف ایک حقیقت ہے مگر اس سے بھی بڑی حقیقت انسانیت کا سوال ہے اور عالمی طور پر مسلمہ اصول ہیں۔ ایک آبادی کو جس کی نسلیں اسی مٹی میں جنم لیتی ہیں اسی کے سینے پر اپنا رزق سمیٹتی ہیں اور اسی مٹی کا رزق بن جاتی ہیں کب تک شہریت کے قانون سے باہر رکھا جا سکتا ہے۔ شہریت کوئی جنت کا پروانہ بھی نہیں بس کچھ ایسی سہولتوں کا معاہدہ ہے کہ جو ریاست لازمی طور پر فراہم کرنے کی پابند نہیں۔ مثلاً ریاست کا فرض ہے کہ وہ ہر شہری کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرے مگر وہ ہر شہری کو نوکری دینے کی پابند نہیں۔ نوکری کا تعلق اہلیت، قابلیت اور معیار سے ہوتا ہے۔ اس طرح شہریت دینے سے عملی طور پر ریاست پر کوئی بوجھ پڑنے والا بھی نہیں کیوں کہ غیر قانونی طور پر رہائش پزیر افراد یا شہریت سے محروم لوگ اس ملک کی حدود میں جی تو رہے ہیں۔ اس ملک کے وسائل استعمال کر رہے ہیں شہریت ملنے سے وہ کسی قاعدے ضابطے میں ڈھل جائیں گے۔
بنگالی اور بہاری باشندوں کی شہریت کا معاملہ مجموعی طور پر تو شاید زیادہ وجہ نزع نہ ہو کیوں کہ یہ کشتیاں جلا کر آنے والے لوگ ہیں اور ان کا جینا مرنا اسی مٹی کے ساتھ وابستہ ہو چکا ہے مگر افغان مہاجرین کی شہریت ایک خاصا متنازع معاملہ ہے۔ اس معاملے کے بھی بہت سے انسانی پہلو ہیں۔ ان افغان لڑکیوں کا کیا قصور ہے جو پاکستانیوں سے بیاہی ہوئی ہیں جن کے بچے تو پاکستانی شہری ہیں مگر وہ خود ابھی تک بے یقینی کی صورت حال سے دوچار ہیں۔ پاکستانیوں سے بیاہی جانے والی افغان خواتین کی اس مشکل سے میں ذاتی طور پر واقف ہوں۔ افغان مہاجرین کے معاملے کے متنازع ہونے کی بنیادی ذمے دار افغانستان کی حکومتیں ہیں جنہوں نے ان مہاجرین کو پاک افغان اور بھارت کشمکش میں غیر جانب دار رہنے دینے کے بجائے پاکستان کی حکومتوں اور سوسائٹی کو دباؤ میں لانے کے لیے ایک لیوریج کے طور پر استعمال کرنے کی حکمت عملی اختیار کی۔ اس سے جوابی طور پر افغان پناہ گزینوں کے لیے پاکستان میں مشکلات کا آغاز ہو ا۔ سماجی طور پر مہاجرین اس معاشرے میں گندھ گئے تھے مگر افغان حکمرانوں کی پالیسیوں نے اس صورت حال کو خراب کیا۔ اس لیے پاکستان میں بہت اعلیٰ سطح پر افغانوں کو شہریت دینے کے حوالے سے رائے منقسم محسوس ہو تی ہے۔ افغان حکومت نے کسی بیرونی ہدایت پر مہاجرین کو یہ سبق پڑھایا کہ ان کے دکھوں، مہاجرت، بوسیدہ خیموں میں بیتنے والے روز وشب اور غریب الوطنی کا اصل سبب پاکستان ہے۔ اس درس نے مہاجرین کی نئی نسل میں ایک منفی ذہنیت کو فروغ دیا۔ مشکلات جو بھی ہوں مگر ان مسائل کو ہمیشہ کے لیے قالین تلے چھپائے رکھنا ممکن نہیں۔
کہا جا رہا ہے کہ جن افغان پناہ گزینوں کے بچے اس سرزمین پر پیدا ہوکر اردو لکھنا پڑھنا سیکھتے رہے سوشل میڈیا پر وہ اس صلاحیت کا پاکستانی ریاست کے خلاف استعمال کرنے میں پیش پیش رہے۔ اس کی ایک وجہ یہ احساس محرومی بھی ہو سکتا ہے کہ اس ملک میں پیدا ہوکر جوان ہونے کے باوجود ریاست انہیں اپنانے سے انکاری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افغان مہاجرین کی شہریت کی بات ہوتے ہی سوشل میڈیا پر ایک طوفان سا برپا ہوگیا ہے۔ افغانستان کے طول وعرض میں جلنے والے پاکستان کے سبز پرچموں کی دلدوز تصویریں تیزی سے گردش کرنے لگی ہیں۔ اب ریاست کو آگے بڑھ کر اپنی حدود میں بسنے والے ان شہریوں کے مستقبل اور مقدر کو گومگوں کی کیفیت سے نجات دلانا پڑے گی۔ اس کے لیے پارلیمنٹ کے فورم سے رجوع کرنا ہی بہترین حکمت عملی ہے۔ پارلیمنٹ کے فیصلے کی روشنی میں آگے بڑھ کر مسئلے کا کامیاب حل تلاش کیا جانا چاہیے۔