اب پیٹرولیم کی باری ہے

307

اب سے کچھ دن قبل وزیر خزانہ کے دعوؤں کے برعکس گیس کے نرخوں میں 143 فی صد اضافہ کیا گیا تھا۔ وزیر خزانہ چند ماہ قبل اسمبلی کے فلور پر کھڑے سابق حکومت کے فیصلوں کا مذاق اڑارہے تھے کہ گیس کے نرخ دنیا بھر میں ایک تہائی رہ گئے ہیں اور پاکستان میں ٹیکس لگائے جارہے ہیں۔گیس نرخوں میں 143 فی صد اضافے پر انہیں وہ تقریر یاد کرائی گئی پھر بھی کوئی اثر نہیں ہوا۔ تازہ خبر یہ ہے کہ حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 10 روپے تک اضافے کے لیے سمری تیار کرلی ہے۔ ابھی تو اخبارات میں خبر آئی ہے کہ پیٹرول ساڑھے 6 روپے، لائٹ ڈیزل 4 روپے اور ہائی اسپیڈ ڈیزل 8.50 پیسے مہنگا کیا جائے گا اور بقول اسد عمر غریب ترین طبقہ مٹی کا تیل استعمال کرتا ہے اس کا بھی خیال نہیں کیا جاتا۔ اسی مٹی کے تیل کی قیمت میں دس روپے فی لیٹر اضافے کا پروگرام ہے۔ حسب معمول پہلے سے خبر چلواکر عوام کو ذہنی طور پر تیار کیا گیا ہے۔ گیس کی قیمتوں میں اضافے کے معاملے میں بھی اسی طرح تیاری کرائی گئی تھی۔ پہلے خبر آئی کہ اضافہ کردیا گیا۔ پھر خبر آئی کہ وزیراعظم نے روک لیا پھر خبر آئی کہ فیصلہ تو کرنا ہی تھا اس لیے کرلیا گیا۔ اب پیٹرولیم کے حوالے سے چند دن باقی ہیں۔ ایک دن تردید آئے گی کہ ایسا کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ وزیراعظم عوامی مسائل سے اچھی طرح آگاہ ہیں۔ انہوں نے عوام کے مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرنے کی ہدایت کی ہے اور پھر شاید یہ اضافہ تھوڑا سا کم ہوجائے۔ آئی ایم ایف کے پاس جانے کے معاملے میں بھی یہی ہورہا ہے۔ جانا پڑے گا۔!! نہیں جائیں گے۔!! گئے تو مشورے سے جائیں گے۔ یہ سارے راستے کھلے ہیں۔ یہ طریقہ واردات پرانا ہے۔ ہمیشہ قوم کو موت دکھاکر بخار قبول کرنے پر آمادہ کرلیا جاتا ہے اور ہماری قوم بھی بڑی سادہ ہے ہر حکومت کی وہی دلیلیں قبول کرتی ہے جو اپوزیشن میں رہتے ہوئے یہی حکمران قبول نہیں کرتے تھے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اپوزیشن میں رہنا اور حکومت چلانا دو الگ الگ باتیں ہیں۔ اب اپوزیشن سے تازہ تازہ حکومت میں آنے والوں کو چند ماہ بعد اندازہ ہوگا کہ گیس، پیٹرول، بجلی وغیرہ کے نرخ وہ نہیں باہر کسی اور جگہ سے کوئی اور کنٹرول کرتا ہے۔ اگر باہر سے یہ مطالبہ آجائے کہ آپ کو فلاں سہولت ختم کرنی ہے تو بس ختم کرنی ہے۔ اسی طرح بیرون ملک سے منگوائی جانے والی اشیا کے حوالے سے بھی بین الاقوامی اداروں کے احکامات تسلیم کرنے پڑتے ہیں۔ پاکستان کے حکمرانوں نے ملک کو اس قابل چھوڑا ہی نہیں کہ کوئی بھی حکمران بین الاقوامی اداروں کے کسی حکم پر اعتراض کرسکے یا اس کے خلاف جاسکے۔ لہٰذا بیان کوئی بھی جاری کیا جائے۔ آئند چند روز میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہونے والا ہے۔ اگرچہ اس قسم کا انداز اختیار کیا جائے گا کہ دس روپے تک اضافہ تو مسترد کردیاگیا لیکن دو روز بعد 6 یا 8 روپے تک اضافے کی منظوری دے دی جائے گی۔ یہ کوئی تبدیلی نہیں ہے۔ پاکستانی قوم تو اس تبدیلی کے انتظار میں ہے کہ پاکستانی حکومت ایسے کسی مطالبے سے براہ راست انکار کرے اور کسی قسم کی پابندیوں کو بھی تسلیم نہ کرے۔ لیکن اس کے لیے جرأت مندانہ فیصلوں کی ضرورت ہے اور یہی تبدیلی ہوگی۔ بھارت کو مقابلے کی دھمکی دینا یا جلسوں میں نعرے لگانا تبدیلی اور جرأت نہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستان جس طرح گیس کی اپنی پیداوار مہنگی کرنے پر مجبور ہے اسی طرح اپنے ضرورت کا تقریباً 50 فی صد تیل پیدا کرنے کے باوجود بین الاقوامی اداروں کے احکامات کا محتاج ہے۔ گیس کا بھی یہی معاملہ ہے۔ اب تو سرکاری ملازمین کی پنشن اور ملازمین کو دی گئی سہولتوں کے حوالے سے بھی ہدایات باہر ہی سے آتی ہیں۔ یہ سلسلہ رکنے والا نہیں کیونکہ ہر ماہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ اور چند ماہ بعد گیس کے نرخوں میں اضافہ قوم کے مسائل بڑھانے کا سبب بنے گا۔ حکومت میں آنے سے قبل پی ٹی آئی والے نعرہ لگاتے تھے کہ تبدیلی آئی رے۔ جوروک سکو تو روک لو۔ اب قوم ان سے مطالبہ کرتی ہے اور توقع رکھتی ہے کہ بیرونی اداروں کے احکامات کو روک سکو تو روک لو۔ ویسے بھی جب سے حکومت قائم ہوئی ہے اس کے انداز میں استحکام نہیں ہے۔ ایک دن ایک فیصلے کا اعلان، اگلے دن تردید پھر وہی فیصلہ نافذ، کبھی ٹیکس میں اضافہ، کبھی چھوٹ میں اضافہ، کبھی پورا ٹیکس اسٹرکچر تبدیل کرنے کی خبریں۔ یہ سب ناتجربہ کاری کے سبب بھی ہے اور مشورے نہ کرنے کے سبب بھی۔ جلد بازی میں اعلانات کردیے جاتے ہیں اور پھر نتائج سامنے آنے یا تنقیدی بیانات سامنے آنے پر فیصلہ واپس لینے کی بات کی جاتی ہے۔ بنگالیوں اور افغانو ں کے شناختی کارڈز کا معاملہ ہو یا نان فائلرز کو سہولتیں دینے کا۔ ہر معااملے میں حکومت کو اعلان کرنے کے بعد اپنے فیصلے سے پسپائی کرنا پڑی ہے۔ ایک جانب توجہ دلاانی ضروری ہے کہ اگر حکومت بیرون ملک سے لوٹ کے 4 سو ارب روپے واپس لانے کے اقدامات کرے اور رقم واپس لے آئے جیسا کہ اس نے دعویٰ کیا تھا تو پھر ڈیم کے لیے چندوں کی ضرورت نہیں ہوگی اور ہر ماہ دو ماہ بعد پیٹرول، بجلی، گیس بم گرانے کی ضرورت بھی نہیں رہے گی۔ بس جرأت کی بات ہے۔