ناموس رسالت قانون میں ترمیم کیوں؟

1189

عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے متنبہ کیا ہے کہ ناموس رسالتؐ قانون میں کسی بھی قسم کی ترمیم سے نیا بحران جنم لے گا اور وفاقی وزیر مملکت برائے خزانہ حماد اظہر کی جانب سے پیش کردہ مجوزہ ترمیم تو ناموس رسالت قانون کو غیر موثر بنانے کی سازش ہے۔ مجلس کے نمائندوں نے بتایاکہ مجوزہ ترمیم 295-C میں توہین رسالتؐ کی شکایت لانے والا اگر مکمل ثبوت نہ لاسکا تو اسے سزائے موت دی جائے۔ یہ عجیب بات ہے سرکار کی جانب سے تبدیلی کا نعرہ لگایا گیا تھا لیکن یہ کیسی تبدیلی ہے کہ پہلے قادیانی کو مشیر بنایا اب ناموس رسالتؐ قانون میں ترمیم تجویز کی جارہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیاحکومت کے پاس عوام کی فلاح کا کوئی کام نہیں یا سارے فلاحی کام ہوگئے ہیں۔ سڑکیں، پارکس وغیرہ بن گئے ہیں، کیا ملک ترقی کی شاہراہ پر دوڑ رہا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ناموس رسالتؐ کے قانون کی وجہ سے ایسا کون سا مسئلہ تازہ ترین کھڑا ہوا ہے کہ وزیر موصوف اس میں ترمیم کرنے کی تجویز دے رہے ہیں۔ اگر کوئی تنازع ہو تو بات سمجھ میں آتی ہے یہ تو طے شدہ امور کو چھیڑنے کے مترادف ہے۔ اگر اسے حکومت کے خلاف مہم نہ بھی سمجھا جائے تو پھر حکومت کی جانب سے جو کچھ کہا جارہاہے اس پر توجہ دلانے کو کیا کہا جائے گا۔ کیونکہ قادیانی مشیر کو لانے پر توجہ دلائی گئی تو شور مچ گیا کہ حکومت کو 100 دن تو دے دو۔ اس کے پیچھے کیوں پڑگئے۔ اگر حکومت کا فیصلہ درست تھا تو صرف چار بیانات پر کیوں فیصلہ واپس لے لیا۔ اب ایک بار پھر ناموس رسالتؐ قانون میں ترمیم کا راستہ کھولا جارہاہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ ایلکٹ ایبلز کی سیاست کے پلے میں بہت سارے مشتبہ لوگ پارلیمنٹ میں گھس آئے ہیں جن کے عقائد واضح نہیں ہیں اور وہ ناموس رسالتؐ کے قانون پر ہی سب سے پہلے حملہ آور ہورہے ہیں۔ ترامیم کرنی ہیں تو اپنے اعلانات کے مطابق گورنر ہاؤسز کو میوزیم اور وزیراعلیٰ ہاؤس کو یونیورسٹی بنانے کے لیے ترامیم پیش کریں۔ 25 جولائی کے انتخابات میں دینی قوتوں کو پارلیمنٹ سے دور کرنے کا اصل مقصد اب سامنے آرہا ہے۔ یہ قوتیں پارلیمنٹ میں ہوں گی تو آواز اٹھے گی اور پارلیمنٹ کے دیگر ارکان کو بھی ان کے ایمان کے حوالے سے جگایا جاسکے گا جب ارکان پارلیمنٹ کے حلف نامے میں حلفیہ اقرار کی جگہ اقرار کا لفظ آیا اور حلفیہ کا لفظ غائب کیا گیا تو اس کی نشاندہی جماعت اسلامی کے صاحبزادہ طارق اﷲ نے کی۔ اس کے خلاف قرارداد سینیٹ میں سراج الحق اور جے یو آئی کے حافظ حمد اﷲ نے پیش کی۔ لہٰذا آپریشن رد و بدل کے ذریعے دینی قوتوں ہی کو پارلیمنٹ سے باہر کیا گیا۔ ایک طرف عالمی سطح پر توہین رسالتؐ کا مرحلہ درپیش ہے حکومت کو تو چاہیے کہ جیساکہ سینیٹر سراج الحق نے مطالبہ کیا ہے کہ عالمی سطح پر قانون بنایا جائے اس قانون کے لیے راہ ہموار کرے۔ لیکن یہاں وزیر مملکت اس قانون کے پیچھے پڑگئے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج تک توہین رسالتؐ کے مرتکب کسی فرد کو سزائے موت نہیں دی جاسکی۔ درجنوں مقدمات محض التوا میں ہیں۔ سزا سنائے جانے سے پہلے محض گرفتاری پر بھی آپ کے پیٹ میں مروڑ اٹھتا ہے اور یہاں سے رہائی کی تحریک اٹھ کھڑی ہوتی ہے۔ اب پارلیمنٹ کے تمام ارکان کے عقائد کی تصدیق ضروری ہوگئی ہے۔