کچھ ہوشیار پوری کی بھی سنیے !

315

 

 

حقیقت تو یہی ہے کہ ہم سب ’’اپنی اپنی دنیا‘‘ میں مگن رہ کر سب کی دنیا کی برائی کیا کرتے ہیں۔ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ ہوشیارپوری نے سر اٹھا کر اور بڑی بڑی آنکھیں پھاڑ کر سوال کیا تو میں نے ٹھنڈی آہ بھر کر طنزاً کہا کہ: ’’کیوں کہ ہم سب انسان ہیں جنہیں اللہ نے تمام مخلوقات سے برتر بلکہ بزرگ قرار دیا ہے۔ بزرگی یا برتری کا مطلب ہے کہ اپنی اپنی الگ دنیا بسالی جائے اور اسی کی فکر میں رہیں، باقی کے لیے صرف باتیں بنائیں؟ ہوشیارپوری نے میری بات مکمل ہونے سے پہلے ہی اپنے لب کھول دیے۔ اور کہنے لگا ’’ہم انسانوں میں‘‘ الٹے سیدھے اور ٹیڑھے میڑھے ہونے کی وجہ پیدائشی ہے۔ بہت کم ہیں جو سیدھے پیدا ہوتے ہیں۔ کچھ کو تو آپریشن کے ذریعے ماوں کے پیٹ سے نکالنا پڑتا ہے کیوں کہ وہ پیدائشی اکڑو ہوتے ہیں۔ جو پیروں کی طرف سے دنیا میں آتے ہیں وہ قدرے سیدھے ہوتے ہیں۔ مگر ناجانے دنیا میں کہاں کھو جاتے ہیں۔ تم بھی مجھے پاگل لگتے ہو! ہوشیار پوری نے بھی جوابی طنز کا تیر مار ہی دیا۔
یہ تو اللہ ہی کو معلوم ہے کہ کون کیسے سیدھا ہے، میں نے ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے دل کی بات کہہ دی۔
اچھا یہ بتاؤ ’’نیا پاکستان‘‘ کیا ہے اس میں نیا کیا ہے؟ بھئی جب قوم اس ایک نکتے پر بھی ایک نہیں ہے کہ ’’ہم قوم ہیں‘‘ تو پھر کیا نیا؟ کیسا نیا پاکستان۔۔۔ ارے میرے بھائی کیا کوئی ملک بھی نیا ہوتا ہے؟ ملک یا تو پرانا ہوتا ہے یا نہیں ہوتا ہے۔ اللہ ہمارے وطن کو تاقیامت قائم اور بہت خوشحال رکھے آمین، ہوشیار پوری کسی مقرر کی طرح بولے جارہے تھے ایسا لگ رہا تھا کہ ان کی وطن پرستی جاگ گئی ہے۔
کہنے لگے کہ بھائی مسئلہ ملک کا نہیں ہے، مسئلہ حکمرانوں کا بھی نہیں ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ سارا معاملہ اور مسائل قوم کے ہیں اور ان ہی کے پیدا کردہ ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ آمروں نے ملک کو تباہ کرکے رکھ دیا۔ تو بھیا سیاست دان حاکم بن کر کیا آمر سے کم رہا؟ دیکھو میاں انور۔۔۔ ہوشیار پوری نے اچانک اپنے گرم لہجے کو ٹھنڈا کرتے ہوئے کہا کہ ’’اگر تمہارے گھر کے لوگ ٹھیک نہیں ہوں گے تو مکان کی چہار دیواری گھر نہیں کہلائے گی مگر پھر بھی ہم اور تم مکانات کی دیواروں کو توڑتے اور بناتے رہتے ہیں۔ بھائی ہمیں اپنے گھر کے لوگوں کو اور سب سے پہلے خود کو سیدھے راستے پر چلانا ہوگا۔ جب ہم سیدھے چلیں گے تو پورا خاندان صحیح ہوگا اور مکان بھی گھر بن جائے گا۔ تو بھیا اس وطن کو ٹھیک نہیں کرنا ہے بلکہ مجھے آپ کو اور اس کے ہر باشندے کو ٹھیک ہونا پڑے گا۔ ہوشیاری پوری کہے جارہے تھے کہ دیکھو ہم کو سب سے پہلے اپنی شناخت کو پہچاننا ہوگا کہ ہم کون ہیں کس کے ماننے والے اور کس کے امتی ہیں۔ بس جس دن ہم سب یہ جان جائیں گے کہ یہ پاک وطن اللہ کے حکم سے مسلمانوں کے لیے بنا ہے اور ہم کو اس وطن کے عارضی مکین کے طور پر اللہ کے احکامات کے مطابق جینا ہے۔ دوسروں کی برائی کرنے کے بجائے اپنی برائیوں کا خاتمہ کرنا ہے۔ جب ہم سیدھے راستے پر چلیں گے تو پھر کسی اور کی غلط راستے پر چلنے کی ہمت نہیں ہوگی۔ سمجھے۔ ہوشیاری پوری نے اچانک سخت انداز میں پوچھا اور پھر میرے جواب دینے سے قبل ہی کرسی سے اُٹھ گئے اور یہ کہتے ہوئے چلے گئے کہ سمجھ میں آگئی میری بات تو عمل کرلینا۔۔۔ چلو اب نماز کا وقت ہورہا ہے مسجد چلتے ہیں۔ تھوڑے توقف کے بعد میں نے پوچھا ’’ہوشیارپوری سب خیر ہے ناں آج انسانوں کی باتیں کررہے ہو حالاں کہ تم تو کہتے ہو کہ ’’بڑے لوگ آئیڈیے پر گفتگو کرتے ہیں درمیانے ادھر ادھر کی ہانکتے ہیں اور چھوٹے لوگ دوسرے انسانوں کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں‘‘۔