صاحبو! ہاتھ دکھانے میں ایک بڑی قباحت یہ ہے کہ آپ کے ساتھ ہاتھ ہوجاتا ہے۔ ایک دست شناس نے کسی کا ہاتھ دیکھ کر کہا تھا ’’اگر آپ کے دادا کے ہاں اولاد نہیں ہوئی تھی تو زیادہ امکان یہی ہے کہ آپ کے والد کے ہاں بھی اولاد نہیں ہوگی اور عین ممکن ہے آپ کے ہاں بھی نہ ہو‘‘۔ ہاتھ دکھانے میں دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ دست شناس کے سامنے ہاتھ پھیلانا پڑتا ہے۔ ہم حکمران طبقے سے نہیں اس لیے ہاتھ پھیلانا مناسب نہیں سمجھتے۔ دست شناسی ایک بہت ہی حیرت انگیز مہارت ہے۔ ہتھیلی کی لکیریں، اشکال، کانٹے اور آپ کا ہاتھ، آپ کی شخصیت کے بارے میں ایسی باتیں ظاہر کردیتے ہیں جو آپ کے گمان میں بھی نہ ہوں گی۔ دست شناسی صدیوں برس قدیم فن ہے۔ اس کا آغاز بھارت سے ہوا۔ یہاں سے نکل کر یہ ایشیا، یورپ اور شمالی امریکا میں پھیل گیا۔ چینی باشندوں اور ارسطو نے اس میں خصوصی دلچسپی لی۔ کہا جاتا ہے کہ سکندر اعظم نے اس فن کی بدولت کئی جنگوں میں کامیابی حاصل کی۔ پاکستان خصوصاً کراچی میں یہ فن بندر روڈ پر بیٹھے دست شناسوں کا مرہون منت ہے۔ ایک زمانہ تھا جب بندر روڈ پر دست شناس اور دندان ساز قطار سے بیٹھے ہوتے تھے۔ آج کل دندان ساز تو ایک آدھ بیٹھا نظر آجاتا ہے لیکن دست شناس متروک زمانہ ہوگئے۔ اخبار فروشوں کے ٹھیوں پر بھی جو سستی اور عوامی پسند کی کتابیں بکتی تھیں ان میں ’’کیرو کی پامسٹری‘‘ لازمی ہوتی تھی۔ کسی دست شناس کے ہاتھ میں ایک مرمریں نازک سے ہاتھ نے سوال کیا
ہوش کا کتنا تناسب ہو بتادے مجھ کو
اور اس عشق میں درکار ہے وحشت کتنی
دست شناس نے جواب دیا ’’بیٹا ہوش کا تناسب اور عشق میں درکار وحشت چھوڑو، برتن کم دھویا کرو ایسا نہ ہو ہاتھ سے شادی کی لکیر ہی مٹ جائے۔‘‘ ایک شخص نے دست شناس سے سوال کیا ’’جناب میری شادی کب تک متوقع ہے۔‘‘ نجومی نے جواب دیا ’’ڈیم فنڈ کے لیے دل کھول کر عطیہ دوکیوں کہ تمہاری شادی جب بھی ہوگی اس میں چاول ضرور پکیں گے اور چاول کی فصل کے لیے وافر مقدار میں پانی اشد ضروری ہے۔‘‘ دبئی کے سابق حکمران شیخ زاید بن سلطان النہیان کے بارے میں ایک نجومی نے کہا تھا کہ ان کے ہاتھ میں دولت کی لکیر نہیں ہے۔ فلمی اداکار اور نیلام گھر کے میزبان طارق عزیز کے ہاتھ میں شہرت کی لکیر نہیں ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ہاتھ میں دماغ کی لکیر نہیں ہے۔ انہیں اس کی ضرورت بھی نہیں۔ ان کا کام ایسا ہے جس میں دماغی کام کوئی اور کرتا ہے انہیں صرف منہ بگاڑ کر بولنا ہوتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ ان کے ہاتھ میں وزیراعظم بننے کی لکیر نہیں ہے۔ مگر عمران خان کبھی مایوس نہیں ہوئے۔ کبھی تھک کر نہیں بیٹھے۔ شادیاں اور سیاسی جدوجہد کرتے رہے۔ عمل پیہم سے انہوں نے نجومیوں کی بات کو غلط ثابت کردیا اور حالیہ الیکشن میں الیکٹ ہوگئے۔ نجومی اب بھی اپنی بات پر اڑے ہوئے ہیں۔ کہتے ہیں عمران خان سلیکٹ ہوئے ہیں الیکٹ نہیں۔
بہت سے دست شناس ہاتھ کے بجائے چہرے پر لکھی خواہشیں پڑھ کر قسمت کا حال بناتے ہیں۔ ایک دست شناس نے اداکارہ میرا کا ہاتھ دیکھ کر بتایا آپ کو بہت جلد ایک بڑی کاسٹ کی فلم میں لیڈنگ رول ملنے والا ہے۔ ویسے آپ کس قسم کے رول پسند کرتی ہیں؟ ’’قیمے والے‘‘ اداکارہ میرا نے جواب دیا۔ دست شناس نے ایک لڑکی کا ہاتھ دیکھ کر بتایا ’’مس ناز آپ کا اچھا وقت شروع ہونے والا ہے۔ عن قریب ایک بہت بڑا فلمساز آپ کو دیکھے گا اور اگلے سال تک آپ کی ملک کی نامور اور مہنگی ترین ہیروئن بن جائیں گی۔‘‘ مس ناز نے نجومی کو غصے سے دیکھتے ہوئے کہا ’’میں ویٹنگ روم میں سن رہی تھی مجھ سے پہلے جو پین دی سری آئی تھی اس کو بھی آپ نے یہی بتایا تھا‘‘۔ نجومی نے بے بسی سے مس ناز کو دیکھتے ہوئے کہا ’’کیا کریں اس سے کم پر کوئی لڑکی راضی ہی نہیں ہوتی۔‘‘ پاکستان نام کے ایک ملک نے بھی اپنا ہاتھ نجومی کو دکھاتے ہوئے پوچھا تھا ’’مجھے اچھے حکمران کب ملیں گے‘‘۔ نجومی نے جواب دیا ’’بیس برس تک تمہیں برے حکمران ملیں گے‘‘۔ پاکستان نے خوش ہوتے ہوئے کہا ’’تو کیا اس کے بعد مجھے اچھے حکمران مل جائیں گے‘‘۔ نجومی نے جواب دیا ’’نہیں! اس کے بعد تم برے حکمرانوں کے عادی ہو جاؤگے۔‘‘
کسی دست شناس نے ایک نوجوان کا ہاتھ دیکھ کر کہا ’’سات قسم کی عورتوں سے شادی مت کرنا۔ انانہ، منانہ، کنانہ، حنانہ، حداقہ، براقہ اور شداقہ‘‘ نوجوان نے حیرت سے پوچھا ’’یہ عورتیں ہیں یا کوہ قاف کے جنات‘‘۔ دست شناس نے تامل سے کہا ’’انانہ‘‘ سے وہ عورت مراد ہے جو ہروقت سر پر پٹی باندھے رکھے۔ شکوہ اور شکایت جس کا معمول ہو۔ ’’منانہ‘‘ سے وہ عورت مطلب ہے جو ہر وقت شوہر پر احسان جتاتی رہے اور کہے تم سے شادی کرکے تو میری قسمت ہی پھوٹ گئی۔ ’’کنانہ‘‘ اس عورت کو کہتے ہیں جو ہر وقت ماضی کی یادوں میں گم رہے۔ فلاں وقت میرے پاس یہ تھا فلاں وقت میرے پاس وہ تھا۔ ’’حنانہ‘‘ ایسی عورت ہوتی ہے جو ہر وقت اپنے سابق خاوند کو یاد کرتی رہتی ہے اور موجودہ بدنصیب کا سابق سے تقابل کرتے ہوئے کہتی ہے ’’اُس کی بات ہی کچھ اور تھی۔ جو بات اُس میں تھی وہ تم میں کہاں‘‘۔ ’’حداقہ‘‘ عورت ہمیشہ شاپنگ کی فرمائش کرتی رہتی ہے۔ ہر وقت شوہر سے کچھ نہ کچھ طلب کرنا اس کا معمول ہوتا ہے۔ ’’براقہ‘‘ وہ عورت ہے جو ہروقت اپنے بناؤ سنگھار میں لگی رہے۔ ’’شداقہ‘‘ تیز زبان اور ہر وقت باتیں بناتی رہتی ہے۔ نوجوان نے دست شناس کی ہدایت پر عمل کیا۔ ملکوں ملکوں گھوما اور ستر سال کی عمر میں بن شادی کے ہی مرگیا۔
انکشاف ذات ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے لیے لوگ ماہرین نفسیات سے رجوع کرتے ہیں۔ گوتم بدھ کی طرح جنگلوں میں نکل جاتے ہیں۔ توتوں سے فال نکلواتے ہیں، نجو میوں، قیافہ شناسوں اور دست شناسوں کے آگے بیٹھتے ہیں لیکن آئینے سے رجوع نہیں کرتے۔ آپ کی تقدیر آپ ہی کے خدوخال، چہرے کے نشیب وفراز اور شکنوں میں پوشیدہ ہے جسے آپ سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا، کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ آج کل کے دست شناس، نجومی اور مستقبل کا حال بتانے والے لیپ ٹاپ ہاتھ میں لیے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ سارے جہاں کا علم ہمارے سینے اور لیپ ٹاپ میں ہے۔ یہ جدید اور نفیس لباس میں ملبوس ہوتے ہیں۔ گفتگو بھی بڑی مہارت اور سلیقے سے کرتے ہیں جس میں انگریزی الفاظ کا تناسب اور خود پسندانہ جھلک بڑی مقدار میں پائی جاتی ہے جب کہ ماضی میں ان اصحاب کی ہیئت میں ایک مجنونانہ بے پروائی پائی جاتی تھی۔ نیم استغراقی اور نیم خود فراموشی کا عالم ان پر طاری ہوتا تھا اور بالوں کی صورت حال تو وہ ہوتی تھی کہ استاد ذوق یاد آجائیں:
خط بڑھا، کاکل بڑھے، زلفیں بڑھیں، گیسو بڑھے
حسن کی سرکار میں جتنے بڑھے ہندو بڑھے