وزیر اعظم عمران خان اپنے پہلے غیر ملکی دورے پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات تشریف لے گئے، یہ ہمارے ماضی کی تاریخ کا تسلسل ہے، کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اُن کے لیے بیت اللہ شریف اور روضۂ مبارکہ کے دروازے کھولے گئے، سعودی حکمران ماضی میں بھی پاکستان سمیت مسلم ممالک کے حکمرانوں کے ساتھ یہ حسنِ سلوک کرتے رہے ہیں۔ اگر کوئی اسے سعادت سمجھتا ہے، تو اس کی مارکیٹنگ نہیں کرنی چاہیے، بلکہ اس پر اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیبِ مکرّم ؐ کا اتنا شکر ادا کرنا چاہیے کہ انسان کا رُواں رُواں اور انگ انگ تشکر سے لبریز ہوجائے۔ لیکن اگر کوئی اسے دنیاوی اعزاز سمجھتا ہے، تو بڑے شوق سے اس کی تشہیر کرے، جیسا کہ فواد چودھری کر رہے ہیں اور ماضی میں جنرل پرویز مشرف بھی کہتے رہے ہیں کہ میں نے بیت اللہ شریف کے اندر باب التوبہ میں نوافل پڑھے ہیں، مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں دین اور دینی اقدار کو سب سے زیادہ نقصان انہوں نے پہنچایا، تو کیا اس سعادت سے انہوں نے کوئی فیض پایا۔
جنابِ عمران خان کے دورے کے ثمرات میں سے ایک یہ بتایا گیا ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پاکستان کو موجودہ اقتصادی بحران سے نکلنے کے لیے مالی امداد فراہم کریں گے، اس کی کئی صورتیں ہوسکتی ہیں: سی پیک میں شراکت، تیل کی ادھار فراہمی یا نقد مالی امداد دے کر توازنِ ادائیگی کو بہتر بنانا یا ریزرو کی صورت میں زرِ مبادلہ کو تقویت دینا، الغرض ضرورت مند کے لیے ہر صورت قابلِ قبول ہوتی ہے۔ گزشتہ حکومت پر یہ طعن کیا جاتا تھا کہ اس نے سی پیک اور ایل این جی کے معاہدات کو پبلک نہیں کیا، یقیناًوہ اس ریکارڈ روم کی چابیاں ساتھ نہیں لے گئے ہوں گے، موجودہ حکومت ان تمام معاہدات کو پارلیمنٹ کے توسط سے عوام کے علم میں لائے اور سعودی عرب سے بھی جو معاہدہ ہونے جارہا ہے، اُس کے متن اور بینَ السّطور کے بارے میں عوام کو آگاہ کیا جائے، ورنہ یہی کہا جائے گا:
تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو میرے نامۂ سیاہ میں تھی
اسی طرح پچھلی حکومت پر یہ طنز کیا جاتا تھا کہ پاکستان کا کوئی وزیر خارجہ نہیں ہے، اب خوشی کی بات ہے کہ ماشاء اللہ! پاکستان کو فصیح وبلیغ اور سیاسی علم الکلام کے ماہر وزیرِ خارجہ مل گئے ہیں۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ الفاظ کچھ ہوتے ہیں، معنی کچھ بتائے جاتے ہیں، بعد میں پٹاری سے کچھ اور برآمد ہوتا ہے، کیا یہ عوام کو ابہام میں رکھنے کی حکمتِ عملی ہے۔ پچھلے وزیر اعظم کو کوئی خود چل کر ملنے آتا تھا تو ان پر غداری کا سیاسی فتوی لگتا تھا، اب ہم اتنے بے چین کیوں ہوگئے ہیں کہ سشما سوراج کی علامتی ملاقات کی منسوخی پر واویلا مچار ہے ہیں، جب کہ نہ مودی کی ذہنی ساخت بدلی ہے، نہ دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں کوئی جوہری تبدیلی آئی ہے۔ تنقید برائے تنقید نہیں بلکہ یہ باور کرانا مقصود ہے کہ کوئی جماعت اقتدار میں ہو یا حزبِ اختلاف میں، ہر حال میں اس کے لب ولہجے اور اظہار میں توازن ہونا چاہیے، یہی حقیقت پسندانہ مشورہ موجودہ حزبِ اختلاف کے لیے بھی ہے۔
جنابِ عمران خان ہمیشہ بیرونِ ملک روزگار کے لیے مقیم پاکستانی تارکینِ وطن کا ذکرِ خیر کرتے رہے ہیں، یہ اچھی بات ہے، وہ شوکت خانم اسپتال اور نمل یونیورسٹی کے لیے اُن سے عطیات بھی جمع کرتے رہے ہیں۔ آج بیرونِ ملک پاکستانی ان سے بہت سی توقعات وابستہ کیے ہوئے ہیں، کیوں کہ میڈیا نے خان صاحب کے حوالے سے انہیں حسین خواب دکھائے ہیں اور وہ ان خوابوں کی تعبیر کے لیے بے چین ہیں۔ جنابِ وزیر اعظم کی خدمت میں گزارش ہے کہ مشرقِ وُسطیٰ اور مغربی ممالک میں تارکینِ وطن کی ایک بڑی تعداد سنگین مشکلات سے دوچار ہے۔ میں نے امام الحج کے خطبۂ حج پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا: ’’خلیجی ریاستوں میں ’’ادارۂ کفالت‘‘ میں حقوقِ انسانی کی بہت پامالی ہورہی ہے، اللہ تعالیٰ کے رسولِ مکرّم ؐ نے اپنے خطبۂ حجۃ الوداع میں عالَم انسانیت کو اُن کے حقوق کی جو ضمانت عطا فرمائی تھی، وہ اب اُسی مقدس سرزمین پر پامال ہورہی ہے۔ خطبۂ حج خطبۂ حجۃ الوداع کا توارث وتسلسل ہے، لہٰذا ہر دور کے امام الحج کو اپنے عہد کے تقاضوں کے مطابق اس کی ترجمانی کرنی چاہیے‘‘۔ میری اُن چند سطور کے ردِّ عمل میں بہت سے پاکستانیوں نے سعودی عرب سے رابطہ کر کے کہا: ’’ہمارے دل سے دعائیں نکلیں کہ کوئی ہمارے دکھ اور درد کو بھی زبان دینے والا ہے‘‘۔
بہت سے لوگوں کو اندازا نہیں کہ اُن کے اقارب کی ایک بڑی تعداد بیرونِ ملک سنگین مشکلات سے دوچار ہے۔ جنابِ وزیر اعظم سے گزارش ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں سے بلاواسطہ یا بالواسطہ رابطہ قائم کر کے ان کے مسائل کوکم کرنے کی کوشش کریں، پاکستانی سفارت خانوں میں ایک ’’لیگل سیل‘‘ قائم کریں جو اِن ستم رسیدہ پاکستانیوں کو قانونی مدد فراہم کرے۔ بہت سے پاکستانیوں نے کئی دہائیاں صَرف کر کے وہاں کی معیشت میں حصہ ڈالا ہے اور سرمایہ کمایا ہے، لیکن اُسے کوئی قانونی تحفظ حاصل نہیں ہے، وہ اپنے نام پر جائداد نہیں خرید سکتے، انہیں کسی بھی وقت اچانک پاسپورٹ پر خروج کی مہر لگا کر ملک بدر کیا جاسکتا ہے۔ حال ہی میں قطر نے دس سال سے مقیم غیر ملکیوں کو، جو عربی زبان جانتے ہیں، اپنے ملک کی شہریت کی پیش کش کی ہے، قطر کے خلیفہ تمیم بن حمد آل ثانی کا یہ اقدام لائقِ تحسین ہے۔ نیز جنابِ وزیر اعظم بیک ڈور چینل کے ذریعے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور خلیج کے دیگر حکمرانوں سے یہ اپیل کرسکتے ہیں کہ ہر درجے کی ملازمتوں میں پاکستانیوں کو ترجیح دی جائے۔ جب پاکستان کہتا ہے کہ سعودی عرب کے دفاع کے لیے ہماری مسلّح افواج کی خدمات حاضر ہیں، تووہاں پر بھی پاکستانیوں کے لیے ایک نرم گوشہ ضرور ہونا چاہیے۔
میں امریکا میں ایسے کئی افراد اور خاندانوں کو جانتا ہوں جو دس بیس سال سے اپنے خاندانوں سے بچھڑے ہوئے ہیں، کیوں کہ ان کے پاس قانونی کاغذات نہیں ہیں، کئی ایسے ہیں جو وہاں کاروبار بھی کر رہے ہیں، ٹیکس بھی ادا کر رہے ہیں، ان کے بیوی بچے بھی وہاں رہ رہے ہیں، قانونی حیثیت کے حامل نہ ہونے کے سبب امریکا میں پیدا ہونے والے چار چار بچوں کے باپ کئی پاکستانی نیو یارک کی جیلوں میں بند ہیں۔ سابق صدر اوباما نے اُن کو قانونی حیثیت دینے کا وعدہ کیا تھا، لیکن کانگریس پر ریپبلکن کے غلبے کی وجہ سے وہ اپنا وعدہ ایفا نہ کرسکے۔ وزیرِ خارجہ جنابِ شاہ محمود قریشی امریکا پہنچ چکے ہیں، وہاں پاکستانی حکمرانوں اور سیاستدانوں کے ساتھ نسبتاً مرفّہ الحال پاکستانیوں میں فوٹو سیشن کا کلچر بہت ہے، وہ دعوتیں بھی کرتے ہیں، پیسا بھی خرچ کرتے ہیں۔ جنابِ شاہ محمود قریشی سے گزارش ہے کہ وہ اپنی مصروفیات میں سے کچھ وقت نکال کر ان مظلوم پاکستانیوں کا ڈیٹا جمع کریں، ان کو مشکلات سے نکالنے یا ان کی مشکلات کم کرنے کی کوئی تدبیر کریں۔ کئی ایسے پاکستانی ہیں، ان میں سے زیادہ تر کا تعلق پنجاب سے ہے، جو شادی کر کے دو چار سال کی عمر کے بچے چھوڑ کر کسی نہ کسی طرح امریکا پہنچ گئے، وہ پورے خاندان کی کفالت کر رہے ہیں، لیکن شوہر اپنی بیوی سے اور بچے باپ سے دور ہیں، صرف سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کا دیدار کرکے اور باتیں کر کے گزارا کرتے ہیں، اس سے کئی سماجی مسائل بھی پیدا ہورہے ہیں۔ پاکستان میں مقیم رشتے دار ان کی کمائی پر عیش کرتے ہیں اور وہ ایک ایک دن اور ایک ایک لمحہ کرب میں گزارتے ہیں۔ بُرُک لین نیویارک میں گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک امام ہیں، جن کا ایک بیٹا اور چھ بیٹیاں پاکستان میں ہیں، بیٹا بہنوں کی ناموس کی حفاظت میں قتل کردیا گیا، انصاف بھی نہیں ملا اور باپ امریکا میں تڑپ رہا ہے، اگر وہ پاکستان آتا ہے تو خاندان کی کفالت کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ اس میں لالچ اور ہوسِ زر کا بھی بڑا دخل ہے، لیکن یہ لوگ بہر حال پاکستانی ہیں اور ہمارے اپنے ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ سمندر پار پاکستانیوں کے نام پر قائم وزارت کیا کرتی ہے، کوئی اس کے ریکارڈ کی چھان بین کر کے بتائے کہ اس نے بیرونِ ملک مصیبت زدہ اور ستم رسیدہ پاکستانیوں کے لیے کیا خدمات انجام دی ہیں۔ یہ وزارت تو اُسے تفویض کرنی چاہیے جس نے اپنی زندگی میں دکھ جھیلے ہوں اور وہ مصیبت زدہ لوگوں کے دکھوں کا ازالہ بھی چاہتا ہو۔ کہا جاتا ہے کہ ’’اخوت فاؤنڈیشن‘‘ کے بانی وسرپرست ڈاکٹر محمد امجد ثاقب کا نام انسانی ہمدردی اور انسانی خدمات کے حوالے سے بہت معروف ہے، ان جیسے افراد کی خدمات اس شعبے کے لیے حاصل کی جاسکتی ہیں۔
ہم الحمد للہ پاکستان میں رہتے ہیں، اپنا آزاد وطن ہے، اس سرزمین کے ساتھ اعتماد، اپنائیت اور ملکیت کا ایک اٹوٹ رشتہ ہے۔ میں نے دنیا میں کئی پاکستانیوں کو ڈالر، پاؤنڈ، یورو اور دراہم ودینار میں لوٹتے پوٹتے دیکھا ہے۔ لیکن یقین جانیے! چہروں پر اعتماد نظر نہیں آتا، ایف بی آئی یا پولیس یا ہوم لینڈ سیکورٹی کے اداروں کے کسی عملدار کا سایا بھی ٹکرا جائے، تو نیندیں حرام ہوجاتی ہیں، پھر خون پسینے کی یہ کمائی بھی کسی کام نہیں آتی۔ بیرونِ ملک پاکستانیوں کے دلوں میں جھانک کر دیکھیں تو آپ کو اُن کے کرب کا اندازا ہوجائے گا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ بیرونِ ملک مقیم سب پاکستانی دکھی، مصیبت زدہ اور ستم رسیدہ ہیں، غیر یقینی حالات سے دوچار ہیں، یقیناًپاکستانی تارکینِ وطن کی ایک بڑی تعداد راحت وعیش کی زندگی گزار رہی ہے، اللہ تعالیٰ انہیں اور اُن کی آنے والی نسلوں کو یہ راحتیں ہمیشہ نصیب فرمائے اوران میں اضافہ فرمائے۔ لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ مصیبت زدہ پاکستانی تارکینِ وطن بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں اور ہر شخص دعا کا متمنی نظر آتا ہے، کیوں کہ ہم فقیروں کے پاس دعا کے سوا رکھا کیا ہے، جن کے پاس دوا کی طاقت ہے، انہیں فرصت کہاں ہے، اگر وزیرِ اعظم دکھی انسانوں کو درد اور کرب سے نجات دے سکیں، تو مظلوموں کی دعاؤں سے ان کے اقتدار کو دوام نصیب ہوسکتا ہے۔