پچھلے کئی سال سے تعطل کے شکار چلے آنے والے پاک بھارت مذاکرات کی بحالی سے متعلق امید گزشتہ دنوں اس وقت پیدا ہوئی جب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے عمران خان کو ان کی کامیابی اور حکومت سنبھالنے پر مبارک باد کا پیغام بھیجا اور بعد ازاں بھارت کے سابق کرکٹ اسٹار اور بھارتی پنجاب حکومت کے وزیر بلدیات وسیاحت نوجوت سنگھ سدھو نے عمران خان کی خصوصی دعوت پر ان کی حلف برداری کی تقریب میں نہ صرف شرکت کی بلکہ اس موقعے پر خلاف توقع پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو جھپی ڈال کر پاکستان کو دوستی اور امن ومحبت کا جوابی پیغام بھی دیا۔ گو نوجوت سدھو کے اس اقدام کو بھارت کے انتہا پسند حلقوں کی جانب سے کڑی تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا لیکن پاکستان نے بھارتی میڈیا اور وہاں کے انتہا پسند حلقوں کی اس منفی سوچ اور غیر ضروری تنقید پر نہ تو کوئی اعتراض اٹھایا اور نہ ہی اس انتہا پسندانہ سوچ کی کسی بھی سطح پر مذمت کی ضرورت محسوس کی۔ پاکستان کے متعلقہ اداروں، میڈیا، سول سوسا ئٹی اور حتیٰ کہ بھارت مخالف مذہبی و سیاسی جماعتوں نے بھی اس موقعے پر بھارت کے امن مخالف رویے کا نوٹس لینا شاید اس لیے مناسب نہیں سمجھا کہ پاکستان امن کے اس موقعے کو ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا اور پاکستان میں چوں کہ ہر سطح پر یہ پختہ سوچ پائی جاتی ہے کہ جنگ اور دشمنی مسائل کا حل نہیں ہے اور نہ ہی کبھی جنگوں سے مسائل اور تنازعات حل ہوئے ہیں بلکہ تمام تر اختلافات، جنگوں اور دشمنیوں کے بعد بھی چوں کہ فریقین کو مذاکرات کی میز پر بیٹھنا پڑتا ہے اس لیے پاکستا ن نے ہمیشہ بھارت کے سا تھ اپنے تمام تصفیہ طلب امور پر بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی پالیسی اپنائی ہے۔ ویسے یہ بھی ایک روشن حقیقت ہے کہ پاکستان اور بھارت چار جنگیں لڑ کر بھی اپنے تصفیہ طلب مسائل حل نہیں کر سکے تو اب جب یہ دونوں ممالک ایٹمی طاقت بن چکے ہیں اور ان کے ایٹمی میزائلوں کی رینج سے ان دونوں ممالک کا کوئی بھی بڑا شہر محفوظ نہیں ہے تو ایسے میں کوئی بھی ملک معمولی غلط فہمی کا متحمل بھی نہیں ہو سکتا ہے اسی سوچ کے ساتھ پاکستان پچھلے کئی سال سے دو طرفہ مذاکرات کی بحالی کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی برادری کے ذریعے بھی بھارت پر مذاکرات کا راستہ اپنا نے کے لیے زور دیتا آرہا ہے۔
پاک بھارت مذاکرات کی بحالی کے امکانات چند روز قبل اس وقت مزید روشن ہوگئے تھے جب عمران خان نے بھارتی حکومت کو خط لکھ کر دو طرفہ مذاکرات کی بحالی کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ پاکستان کی اس فراخدلانہ دعوت پر جب بھارتی سرکار کی جانب سے مثبت جواب ملا اور نیویارک میں پاک بھارت وزراء خارجہ ملاقات طے ہونے کے بعد اس کے ایجنڈے پر ابھی بات شروع بھی نہیں ہوئی تھی کہ بھارت نے پینترا بدلتے ہوئے نہ صرف ان دو طرفہ مذاکرات کے امکانات کو ایک بار پھر معدوم کر دیا ہے بلکہ بھارت کے آرمی چیف نے تمام تر سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پاکستان کو سبق سکھانے کی بھڑک مار کر دو طرفہ ماحول کو بھی ایک بار پھر کشیدہ کر دیا ہے۔ اس صورت حال پر پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے مایوسی اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے پاک بھارت وزراء خارجہ کی ملاقات کی منسوخی کو بجا طور پر چھوٹی ذہنیت کا عکاس قرار دیا ہے۔ بھارت نے امن کا یہ سنہری موقع گنوانے کا ناہموار راستہ کیوں چنا ہے اور آیا میں نہ مانوں پر مبنی پاکستان مخالف منفی سوچ کے ذریعے بھارت کا انتہا پسند حکمران طبقہ دنیا اور بالخصوص اس خطے کے ڈیڑھ ارب انسانوں کو کیا پیغام دینا چاہتا ہے یہ وہ سوال ہے جو بھارتی عوام کو اپنے نااہل اور فاشسٹ حکمرانوں سے ضرور پوچھنا چاہیے۔ گو بعض حلقے بھارت کے اس متعصبانہ اور ہٹ دھرمی پر مبنی انتہا پسندانہ رویے کو جہاں امریکی ڈکٹیشن کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں وہاں بعض حلقوں کا یہ بھی خیال ہے کہ مودی سرکار کے اس یوٹرن کا اصل مقصد نریندر مودی پر لگنے والے کر پشن کے سنگین الزامات کے تناظر میں آئندہ سال ہونے والے عام انتخابات میں متوقع شکست سے بچنے کے لیے بھارتی ووٹرز کے جذبات بھڑکا کر ان کی ہمدردیاں بٹورنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے کسی ایک وجہ کو بھی جنوبی ایشیاء میں قیام امن کے ہا تھ آئے ہوئے اس سنہری موقعے کو ضائع کرنے کے لیے بطور جو از ہر گز تسلیم نہیں کیا جا سکتا ہے۔