پاک امریکا تعلقات کی ترتیبِ نو کا معاملہ

344

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے امریکا میں ہیں۔ اس موقعے پر امریکا میں پاکستان کے سفیر علی جہانگیر صدیقی بھی پاک امریکا تعلقات میں بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کرنے میں مصروف ہیں۔ علی جہانگیر صدیقی نے یہ خوش خبری سنائی ہے کہ امریکا کے ساتھ روابط بڑھ رہے ہیں اور آگے چل کر ان میں مزید بہتری آئے گی۔ علی جہانگیر صدیقی کی طرف سے تعلقات کی بہتری کی امید دلانا اچھی بات مگر اصل سوال یہ ہے کہ اس بہتری کی قیمت کیا ہے؟۔ کیا فریقین اپنے اپنے موقف پر قائم ہیں؟ کیا فریقین میں سے کوئی ایک اپنے موقف پر پیچھے ہٹا ہے؟ یا دونوں نے ایک ایک قدم پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کیا ہے؟ پہلی صورت میں تو تعلقات میں بہتری کی کوئی صورت ہی نہیں کیوں کہ دونوں کے تزویراتی معاملات میں دوری ہی نہیں تضاد ہے۔ جنوبی ایشیا کی علاقائی سیاست میں امریکا کے لیے جو معاملہ ناگزیر اور عزت و انا کی بات ہے پاکستان کے لیے وہ ازحد نقصان دہ اور خسارے کا سودا ہے۔ اس بات پر دونوں کے ہیروز اور ولن متضاد ہیں۔ سلامتی اور دفاع کے تصورات مختلف ہیں۔ دونوں اپنے موقف پر قائم ہیں تو پھر تعلقات میں بہتری کی بات محض خود فریبی ہے اور اگر آخر الذکر دوصورتیں ہیں تو پھر تعلقات میں بہتری کی بات مانی جا سکتی ہے بلکہ مزید بہتری کی امید بھی رکھی جا سکتی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو حال ہی میں دور�ۂ پاکستان کے دوران یہ بات تسلیم کر چکے ہیں پاکستان اور امریکا کے تعلقات ’’ری سیٹ‘‘ ہونے جا رہے ہیں۔ گویاکہ تعلقات کی ترتیبِ نو ہو رہی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ یہ خبریں آنے لگی ہیں کہ امریکی حکومت پاکستان کے روکے گئے کولیشن سپورٹ فنڈ کی رقم بحال کرنے پر سوچ بچار کر رہی ہے کیوں کہ امریکی ماہرین اسے خود امریکا کے لیے ایک ضرر رساں فیصلہ قرار دے رہے ہیں۔
پاکستان اور امریکا کے تعلقات کی تاریخ کو دیکھا جائے تو یہ اُتار چڑھاؤ سے عبارت ہے۔ یہ تعلقات پنڈولم کی طرح وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ متحرک رہے ہیں اور اس تحرک کا تعلق عالمی اور علاقائی حالات سے رہا ہے۔ عالمی حالات اور ضرورتیں بدلنے سے دونوں ملکوں کے تعلقات بھی متاثر ہوتے رہے ہیں۔ ان تعلقات میں کبھی مستقل گرم جوشی اور سرد مہری نہیں رہی۔ یوں یہ تعلقات مجموعہ اضداد ہی رہے ہیں۔ ان تعلقات کا زیادہ تر دورانیہ دونوں ملکوں میں کھٹ پٹ سے بھرا پڑا ہے۔ کبھی پابندیاں، کبھی کہہ مکرنیاں، کبھی مشکل حالات میں نظریں چرانا، کبھی خطرات کے مقابلے میں یہ کہہ دینا کہ اب آپ کو ان حالات کے ساتھ ہی جینا ہے، کبھی امداد کی بحالی اور کبھی بندش، کبھی قریب سے گزرتے ہوئے گھڑی دوگھڑی کا ناگوار انداز میں پڑاؤ اور کبھی اس تکلف کی ضرورت بھی محسوس نہ کرنا اور ’’میرے پاس سے گزر کر میرا حال تک نہ پوچھا‘‘۔ والی نظر انداز کردینے والا انداز غرضیکہ پاک امریکا تعلقات ایک گورکھ دھندہ اور پرپیچ سفر ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد تعلقات کا رہا سہا بھرم بھی ختم ہوتا چلا گیا۔ امریکا نے پاکستان کو دباؤ میں لانے کے لیے کولیشن سپورٹ فنڈ کی رقم روک دی، فوجی افسروں کے تربیتی پروگرام بند کر دیے اور پاکستان کے ساتھ ڈیل کرنے کے لیے زلمے خلیل زاد جیسے سخت گیر پاکستانی ناقد کو آگے کر کے رہے سہے حساب چکا دیے۔ اس طرح پاکستان اور امریکا کے درمیان فوجی روابط آخری ہچکیاں لینے کی حد تک پہنچ گئے تھے۔
امریکا نے پاکستان کو دیوار سے لگاکر پاکستان ہی کا نہیں خود اپنا نقصان کیا۔ امریکا آج بھی دنیا کی اہم ترین سپر طاقت ہے۔ چین دنیا کی اُبھرتی ہوئی اقتصادی اور فوجی طاقت ہے۔ دونوں کے درمیان مسابقت کشیدگی میں ڈھلتے دیر نہیں لگتی۔ جنوبی چین کے جزیروں میں دونوں کے بحری اڈے آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ہوئے ہیں۔ دنیا کے طول وعرض میں دونوں کے درمیان تجارتی جنگ زوروں پر ہے۔ اس وقت یہ جنگ ایک بڑی کشیدگی کی بنیاد بن چکی ہے۔ تاریخ سے ثابت ہوتا ہے پاکستان ان دونوں طاقتوں کے درمیان پل کا کردار ادا کرنے کی صلاحیت کا حامل واحد ملک ہے۔ 1972میں پاکستان ہی نے دونوں ملکوں کے درمیان خفیہ مصالحت کاری کر کے امریکی صدر نکسن کے دور�ۂ چین کو ممکن بنایا تھا۔ آج پھر پاکستان چین اور امریکا کی کشیدگی میں بہتر کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہے کیوں کہ چین سے ہمہ موسمی اور قریبی روابط رکھنے کے باجود پاکستان میں امریکا کے ساتھ کشیدگی کو ’’پوائنٹ آف نوریٹرن‘‘ تک نہ پہنچانے کی سوچ غالب ہے۔ اس لیے پاک امریکا تعلقات میں بہتری کی بات بجا مگر یہ اب یہ ایک کانٹوں بھری راہ کا سفر ہے امریکی پالیسی سازوں نے نائن الیون کے بعد تعلقات کی اس شاہراہ کو پالیسیوں کے کانٹوں سے بھر دیا ہے۔