پھر وہی ربا کی تشریح

612

اہلِ مکہ سود کے حرام قرار دیے جانے کے بعد سوال کرتے تھے کہ سود بھی منافع کی طرح ہے جو تجارت میں لیا جاتا ہے تو پھر ربا اور منافع میں کیا فرق ہے اور آج پاکستان کا اٹارنی جنرل بھی یہی سوال کر رہا ہے کہ پہلے ربا کی تشریح کی جائے پھر سود کو حرام قرار دیں گے۔ یہی سوال اعلیٰ عدلیہ کے ایک جج نے بھی پوچھا تھا۔ اگر اٹارنی جنرل یا کسی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ ربا کیا ہے تو اس کا علاج بھی قرآن نے بتایا ہے کہ ’’اگر تمہیں علم نہیں تو اہل ذکر (علم) سے پوچھ لیا کرو۔‘‘ اور اہل ذکر نے 1973ء کے دستور میں‘ 1990ء میں عدالت عظمیٰ میں بحث کے بعد پھر 1991ء میں 157 صفحات کا تاریخی فیصلہ سنایا ۔ 1999ء کے عدالت عظمیٰ کے شریعت اپیلٹ بنچ نے تو دنیا بھر کے ماہرین کی رائے لی تھی اور کتب کے حوالے سے اہم اقتباسات کی نقول ریکارڈ پر لا کر سب کچھ واضح کر دیا تھا۔ اٹارنی جنرل شریعت کورٹ کے بجائے ان فیصلوں کو بغور پڑھ لیں۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں اور طاقت کے مراکز کا رویہ وہی ہے جو قریشِ مکہ کا تھا‘ جو اس وقت کے یہود‘ کفار اور منافقین کا تھا‘ ہم اُنہیں تو منافق‘ کافر اور غدار قرار دیتے ہیں لیکن آج وہی رویے رکھنے والو ں کو ہم کچھ بھی نہیں کہیں‘ وہ خود اپنے رویوں کے آئینے میں اپنے بارے میں فتویٰ اپنے ہی دل سے مانگ لیں۔ بات فتوے کی نہیں ہے اللہ اور رسولؐ سے جنگ کی ہے اور اللہ اور رسولؐ سے جنگ چھیڑ کر ہم امریکا‘ بھارت اور اسرائیل پر بالادستی کے خواب دیکھیں تو اس سے بڑی حماقت کیا ہوگی۔ سود ختم کرنے کی ہمت کرنے کے بجائے ایسا مطالبہ کرنے والوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ اس کا سب سے بڑا نقصان تو بیس کروڑ پاکستانی بھگت رہے ہیں انہیں اس جنگ میں سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے‘ دنیا میں ہی رسوائی مل رہی ہے اور آخرت میں یہ سوال تو ضرور ہوگا کہ ایسے لوگوں کو اپنے سروں پر مسلط کیوں کرتے تھے جو حلال و حرام اور دین کے موٹے موٹے معاملات کو نہیں سمجھتے تھے۔ اب شریعت عدالت نے پھر واضح کر دیا ہے کہ سود کی حرمت کے فیصلے عدالت سے بھی آچکے پارلیمنٹ کی آئینی ذمے داری ہے کہ وہ سود کا خاتمہ کرے‘ یہ آنا کانی چھوڑ دے۔ پاکستانی عوام سے بھی درخواست ہے کہ اپنے لیے حکمران منتخب کرتے وقت ان بنیادی باتوں کا خیال رکھیں۔ کبھی قادیانی مسئلہ تو کبھی سود کا اور کبھی مزاروں پر سجدوں کا۔۔۔ جس نے جتنا حصہ ڈالا اسے اتنا ہی شریک سمجھا جائے گا۔