ہندوستان، امریکا کے فوجی شکنجے میں

493

اس مہینے کے اوائل میں دلی میں امریکا اور ہندوستان کے وزراء خارجہ اور وزراء دفاع کے درمیان مذاکرات میں جو 2+2 کہلاتے ہیں دونوں ملکوں کے درمیان ایک اہم فوجی معاہدے پر مہر ثبت ہو گئی ہے جس کے نتیجے میں پورے برصغیر میں امریکا کے فوجی تسلط کے دروازے کھل گئے ہیں۔ امریکا اور ہندوستان کے درمیان ان غیر معمولی مذاکرات کے انعقاد کا فیصلہ اس وقت ہوا تھا جب گزشتہ سال جون میں ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی، امریکی صدر ٹرمپ سے پہلی ملاقات کے لیے وہائٹ ہاؤس گے تھے۔
6 ستمبر کو عین اس روز جب ہندوستان اور پاکستان کے درمیان 1965 کی جنگ کی 53 ویں سالگرہ تھی اور پاکستان یوم دفاع منا رہا تھا، ان مذاکرات میں، امریکی وزیر خارجہ پومپیو، امریکی وزیر دفاع جنرل مٹیس، ہندوستان کی وزیر خارجہ سشما سوراج اور وزیر دفاع نرملا سیتارمن نے شرکت کی۔ ہندوستان کے میڈیا کے ایک حصہ نے صاف صاف اور ایک حصہ نے دبے الفاظ میں اعتراف کیا ہے کہ یہ مذاکرات بڑی حد تک یک طرفہ تھے اور امریکا ان مذاکرات میں ہندوستان پر حاوی رہا۔ امریکا نے ان مذاکرات میں اپنے اس مطالبہ کا اعادہ کیا کہ ہندوستان، 4 نومبر سے ایران سے تیل کی درآمد یکسر بند کردے اور امریکا سے تیل خریدے کیوں کہ امریکا کی طرف سے ایران کے ساتھ جوہری سمجھوتے کی منسوخی کے بعد جو ملک بھی ایران سے تیل خریدے گا اس کے خلاف اقتصادی تادیبی پابندی عاید ہوگی۔ ہندوستان نے ایران سے تیل کی خریداری کے معاملے میں رعایت طلب کی لیکن امریکا نے انکار کردیا۔
ان مذاکرات میں امریکا نے مطالبہ کیا تھاکہ اگر ہندوستان، امریکا سے جوہری ٹیکنالوجی میں تعاون چاہتا ہے تو وہ روس سے جدید مزائل سسٹم خریدنے کا ارادہ ترک کردے۔ ہندوستان کے لیے یہ معاملہ اس لحاظ سے سنگین ہے کہ ہندوستان روس سے اپنی فوجی ضروریات کا ساٹھ فی صد اسلحہ خریدتا ہے اور اگر ہندوستان امریکا کی یہ شرط تسلیم کرتا ہے تو وہ دوسرے ذرائع سے بھی اسلحہ نہیں خرید سکے گا۔ ابھی اس سلسلے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا اور اس بارے میں بات چیت جاری رہے گی۔ مذاکرات میں امریکا کا یہ مطالبہ بھی تھا کہ ہندوستان کے ساتھ تجارت میں اس وقت امریکا کو جو 22 ارب ڈالر کا خسارہ ہے وہ کم کیا جائے اور ہندوستان اس مقصد کے لیے امریکا سے طیارے اور دوسرا سازو سامان خریدے۔ چوتھا اور سب سے اہم معاملہ، امریکا کا یہ مطالبہ تھا کہ دونوں ملک فی الفور COMCASA کے سمجھوتے پر دستخط کریں۔ اس سمجھوتے کے تحت امریکا کو اس بات کا حق ہوگا کہ وہ، ہندوستان کو فراہم کیا جانے والے جدید ترین اسلحہ خاص طور پر C 130 J,C17 اور P18 طیاروں اور اپاچی اور چنوک ہیلی کاپٹروں پر کڑی نگاہ رکھنے کے لیے ہندوستان کی فوجی تنصیبات کا معائنہ کرے۔ اس سمجھوتے کے بارے میں پچھلے دس برس سے بات چیت جاری تھی۔ ہندوستان کو اس بارے میں سخت اعتراض اس بات پر تھا کہ اس کی وجہ سے، ہندوستان کی فوجی تنصیبات میں روسی اسلحہ امریکا سے پوشیدہ نہ رہ سکے گا۔ امریکا نے ہندوستان پر واضح کر دیا تھا کہ امریکا کے جدید ترین اسلحہ اور ٹیکنالوجی کی خریداری کے لیے ہندوستان پر یہ لازم ہوگا کہ وہ اس سمجھوتے پر دستخط کرے، دستخط نہ کرنے کی صورت میں امریکا ہندوستان کو جدید اسلحہ فراہم کرنے سے قاصر رہے گا اور جوہری سپلائر گروپ میں ہندوستان کے داخلہ کی راہ میں رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے۔ آخر کار 2+2 مذاکرات میں ہندوستان COMCASA پر دستخط کرنے پر مجبور ہوگیا۔ اس سمجھوتے پر دستخط کے بعد دفاعی ماہرین کی رائے میں ہندوستان، امریکا کے فوجی شکنجے میں گرفتار ہوگیا ہے جس کے پورے برصغیر میں دور رس نتایج بر آمد ہوں گے۔
1947 میں ہندوستان کی آزادی سے لے کر 1962 تک وہ زمانہ تھا جب ہندوستان کی غیر وابستہ پالیسی، ہندوستان میں امریکا کے سیاسی اور فوجی عمل دخل کی راہ میں فصیل تھی جس میں 1962میں ہندوستان اور چین کے درمیان جنگ کے دوران اس وقت دراڑ آئی تھی جب چین کے ہاتھوں شکست کے خطرہ سے گھبرا کر جواہر لعل نہرو نے صدر کینیڈی سے امریکی طیاروں کی امداد کی درخواست کی تھی لیکن اس امداد کی ضرورت پیش نہیں آئی کیوں کہ چین کی فوج ہتک آمیز انداز سے یک طرفہ طور پر جنگ بندی کا اعلان کر کے دریائے برہم پترا کے پار چلی گئی تھی اور ہندوستان کی فوج کو خبردارکردیا تھا کہ وہ برھم پترا پار نہ کرے ورنہ اس کے سنگین نتائج ہوں گے۔ جس کے بعد ہندوستان کی فوج کو برہم پترا پار کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔
1962 کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ نریندر مودی کی حکومت نے امریکا کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں اور یہ فوجی معاہدہ کیا ہے جس کے نتیجے میں ہندوستان کی تمام تر فوجی تنصیبات کے دروازے امریکا کے لیے کھل گئے ہیں۔ ہندوستان کے فوجی ماہرین کی رائے ہے کہ چین کے خطرے کے پیش نظر امریکا سے یہ فوجی معاہدہ لازمی تھا اور امریکا بھی چین کے خلاف فوجی حکمت عملی کے لیے اس معاہدہ کے لیے بے قرار تھا۔ ابھی اس فوجی معاہدے کی تمام تر تفصیلات کا اعلان نہیں کیا گیا ہے لیکن ہندوستان کے فوجی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ اسی نوعیت کا ہے جو امریکا اور جنوبی کوریا کے درمیان ہے جس کے تحت امریکا کو جنوبی کوریا میں اپنی فوجوں کی تعیناتی کا حق حاصل ہے اور عملی طور پر امریکا کو فوجی تسلط حاصل ہے۔ شمالی کوریا سے جنگ کی صورت میں امریکا کو بھر پور مداخلت کا حق حاصل ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان غیر جوہری فوجی تنازع کی صورت میں COMCASA کے تحت امریکا کا کیا رول ہوگا۔ ہندوستان کے فوجی ماہرین کی رائے ہے کہ اس سمجھوتے کے تحت پاکستان کے ساتھ ہندوستان کے کسی فوجی تنازعے کی صورت میں امریکا کو اپنے جدید ترین اسلحہ اور ٹیکنالوجی کے دفاع کے لیے فوجی کارروائی کا حق ہوگا یوں امریکا، عملی طور پر ہندوستان کا فوجی اتحادی ہوگا۔