کالا باغ ڈیم اور عدالتی فیصلہ

314

نئے آبی ذخائر کی تعمیر کا تعلق بلاشبہ پاکستان کی بقا، ترقی و خوشحالی سے ہے۔ منگلا ڈیم اور تربیلا ڈیم کی تعمیر کے بعد ہم کوئی بڑا ڈیم نہیں بنا سکے۔ کالا باغ ڈیم جسے چالیس سال پہلے بن جانا چاہیے تھا، سیاست کی نذر ہوگیا۔ بھارت نے اس ڈیم کے مخالفین پر اتنی سرمایہ کاری کی کہ وہ اس رقم سے خود اپنی سرزمین پر کئی بڑے ڈیم بناسکتا تھا لیکن اس نے کالا باغ ڈیم کی مخالفت میں اپنا پیسہ پانی کی طرح بہادیا، جن بھارت نواز سیاسی اور قوم پرست پاکستانی جماعتوں کو نوازا گیا وہ کالا باغ ڈیم کی مخالفت میں مرنے مارنے پر آمادہ ہوگئیں۔ ایک سیاسی لیڈر نے کہا کہ اس کی لاش پر سے گزر کر ہی ڈیم بنایا جاسکتا ہے، ایک لیڈر نے کہا کہ اگر ڈیم بنا تو وہ اسے بم مار کر تباہ کردے گا۔ پیپلز پارٹی کوئی علاقائی یا قوم پرست جماعت نہ تھی لیکن اس پر بھی بھارت کا جادو چل گیا اور وہ کالا باغ ڈیم کی مخالفت میں پیش پیش نظر آنے لگی۔ حقیقت یہ ہے کہ کالا باغ ڈیم کا بلیو پرنٹ جنرل ایوب خان کے دور ہی میں تیار ہوگیا تھا۔ وہ منگلا ڈیم اور تربیلا ڈیم کے بعد کالا باغ ڈیم بنانے کا ارادہ رکھتے تھے۔ ریکارڈ سے پتا چلتا ہے کہ ڈیم کے ابتدائی انفرااسٹرکچر پر کام بھی شروع ہوگیا تھا کہ صدر جنرل ایوب خان کی حکومت سیاسی بحران کا شکار ہوگئی اور اقتدار پر جنرل یحییٰ خان نے قبضہ کرلیا۔ ان کا دو ڈھائی سالہ دور شروع سے آخر تک سیاسی انتشار اور خلفشار کا دور رہا۔ وطن عزیز کی سلامتی کے لالے پڑ گئے۔ بالآخر پاکستان دولخت ہوگیا، ایسے میں بھلا کسے ڈیم بنانے کی فکر ہوسکتی تھی۔ جنرل یحییٰ خان کے بعد ذوالفقار علی بھٹو برسراقتدار آئے تو ان کی ترجیحات ہی مختلف تھیں وہ اپنا اقتدار مستحکم کرنے کے لیے ملک کا معاشی ڈھانچا تباہ کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ انہوں نے چھوٹی بڑی ساری صنعتیں سرکاری تحویل میں لے لیں اور ان پر پیپلز پارٹی کے کارکن مسلط کردیے جو ان صنعتوں اور کارخانوں کو بیچ کر کھا گئے اور جنوبی ایشیا میں تیزی سے ترقی کرنے والا ملک دیکھتے دیکھتے قلاش ہوگیا۔ ملک میں ڈیم بنانا اور آبی وسائل کو ترقی دینا بھٹو حکومت کے منشور ہی میں نہ تھا اس لیے کالا باغ ڈیم راہ تکتا رہ گیا اور بھٹو اپنی اننگز کھیل کر عبرتناک انجام سے دوچار ہوگئے۔ جنرل ضیا الحق برسراقتدار آئے تو ان کے دور میں ملکی معیشت نے سنبھالا لیا۔ انہوں نے متعدد اچھے کام کیے لیکن کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا ارادہ رکھنے کے باوجود وہ اپنے اس ارادے پر عمل نہ کرسکے کیوں کہ ان کے ایک دست راست صوبہ سرحد کے گورنر جنرل فضل حق کالا باغ ڈیم کی آواز کے ساتھ آواز ملا کر انہوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ کالا باغ ڈیم کسی صورت نہیں بننے دیں گے۔ اس مخالفت کے پس پردہ بھی ایک کہانی بیان کی جاتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ کالا باغ ڈیم کی مخالف بھارت نواز عبدالولی خان فیملی جنرل ضیا الحق کی احسان مند تھی کہ انہوں نے عبدالولی خان کو بھٹو کے دائر کردہ غداری کیس سے نجات دلا کر حیدر آباد جیل سے رہا کیا تھا اور اپنے ساتھ طیارے میں بٹھا کر پشاور لائے تھے۔ اس لیے عبدالولی خان کالا باغ ڈیم کے معاملے میں جنرل ضیا الحق کی مخالفت کرنے کا حوصلہ نہ رکھتے تھے۔ چناں چہ انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے اس معاملے میں صوبہ سرحد کے گورنر جنرل فضل حق کو گانٹھا اور ان کے سامنے کالا باغ ڈیم کے نتیجے میں نوشہرہ کی تباہی کی ایسی خیالی تصویر پیش کی کہ وہ لرز اُٹھے اور انہوں نے عہد کیا کہ وہ اپنے جیتے جی کالا باغ ڈیم نہیں بننے دیں گے۔ اس طرح جنرل ضیا الحق اپنے سینئر ساتھیوں کے ہاتھوں بے بس ہوگئے اور ڈیم نہ بن سکا۔
جنرل ضیا الحق کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی سول حکومتیں قائم ہوئیں لیکن کالا باغ ڈیم کیا کوئی بھی ڈیم ان کی ترجیحات میں شامل نہ تھا۔ انہیں پاکستان کے آبی مسائل سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ پیپلز پارٹی تو کھلم کھلا کالا باغ ڈیم کی مخالف تھی اور بھارت نواز قوم پرست جماعتوں کی ہمنوائی میں اسے سندھ کے لیے نقصان دہ سمجھتی تھی۔ جب کہ مسلم لیگ (ن) کا طرزِ عمل منافقانہ تھا، وہ یہ تو جانتی تھی کہ کالا باغ ڈیم نہایت مفید قومی منصوبہ ہے جس کے ذریعے پاکستان کے پانی اور بجلی کے مسائل حل ہوسکتے ہیں لیکن وہ اس کے لیے اپنی اتحادی جماعتوں کو ناراض نہیں کرنا چاہتی تھی، اس لیے وہ بھی اس حوالے سے کوئی پیش رفت نہ کرسکی اور کالا باغ ڈیم کا منصوبہ متنازع بنا رہا۔ پھر جنرل پرویز مشرف اقتدار پر قابض ہوئے تو ان کے پاس موقع تھا کہ وہ اپنا آہنی ہاتھ استعمال کرتے ہوئے اس قومی منصوبے کو مکمل کرتے اور اپنا نام پاکستان کے محسنوں میں لکھواتے، لیکن انہیں صرف اپنے اقتدار کی فکر تھی وہ اپنے اقتدار کو بچانے اور اسے مستحکم کرنے کے لیے مسلسل سیاسی جوڑ توڑ میں مصروف رہے اور اسی جوڑ توڑ میں انہوں نے کالا باغ ڈیم کو بھی سیاسی مفادات کی نذر کردیا۔ ان کے دور میں دیامر اور بھاشا ڈیم کا چرچا ہوا لیکن بات سنگ بنیاد سے آگے نہ بڑھ سکی۔ جنرل پرویز مشرف کے بعد پھر سول حکومتیں قائم ہوئیں۔ 2008ء کے انتخابات کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کی حکومت آئی لیکن اسے حسب سابق صرف لوٹ کھسوٹ سے دلچسپی تھی۔ اس کے دور میں پاکستان کے آبی مسائل زیر بحث ہی نہیں آئے اور پاکستان قلت آب کے مسائل سے دوچار ہوتا چلا گیا۔ 2013ء کے انتخابات کے نتیجے میں مسلم لیگ (ن) برسراقتدار آئی تو اس کے دور میں دیامر اور بھاشا ڈیم کی باتیں پھر شروع ہوئیں، کچھ فنڈز بھی مختص ہوئے لیکن بات آگے نہ بڑھی، اس دوران بھارت نے پاکستان کے خلاف اپنی آبی جارحیت جاری رکھی۔ اس نے سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے ملنے والے دریاؤں کا پانی روک لیا، کشن گنگا ڈیم بنالیا، کئی نئے ڈیمز پر بھی کام کی رفتار بڑھالی لیکن پاکستان سندھ طاس معاہدے کے ضامن عالمی بینک سے رجوع کرنے کے باوجود بھارت کو نہ روک سکا۔
اب حالیہ دنوں میں پاکستان میں پانی کی قلت کا مسئلہ زیادہ شدت سے زیر بحث آیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ اگر نئے آبی ذخائر نہ تعمیر کیے گئے تو آئندہ پانچ سال میں زراعت کے لیے بھی پانی دستیاب نہیں ہوگا، کھیت بنجر اور ویران ہوجائیں گے اور ملک قحط اور خشک سالی سے دوچار ہوجائے گا۔ اس صورت حال کا سب سے پہلے عدالت عظمیٰ نے نوٹس لیا ہے اور چیف جسٹس نے دیامر اور بھاشا ڈیم کے لیے فنڈز کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے سب سے پہلے اپنی جیب سے دس لاکھ
روپے کا عطیہ دیا ہے۔ بعد میں مزید ایک لاکھ روپے اس فنڈ میں جمع کرائے ہیں جس سے عوامی سطح پر جوش و خروش بڑھا ہے اور افراد کے علاوہ مختلف ادارے اس فنڈ میں فراخدلانہ عطیات دے رہے ہیں۔ اس عوامی پزیرائی کو دیکھتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے بھی پاکستانی عوام سے ڈیم فنڈ میں عطیات دینے کی اپیل کی ہے۔ اگرچہ انہوں نے اپنی جیب سے اس فنڈ میں ایک پیسہ نہیں دیا لیکن بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اس فنڈ میں فی کس ایک ہزار ڈالر جمع کرائیں۔ بہرکیف وزیراعظم کی اپیل پر بھی مثبت ردعمل سامنے آیا ہے اور بیرون ملک مقیم پاکستانی اس فنڈ میں عطیات بھیج رہے ہیں۔ دوسری طرف ڈیمز مخالف لابی حیران و پریشان ہے کہ پاکستان میں یہ کیا انقلاب برپا ہوگیا ہے کہ لوگ ڈیم بنانے کے لیے مالی قربانی دے رہے ہیں۔ اس لابی نے پہلے تو یہ کہہ کر مذاق اڑانے کی کوشش کی کہ ’’بھلا چندے سے بھی ڈیم بنا ہے؟ اس کے لیے تو ڈھیر ساری دولت درکار ہے، لیکن جب بات نہ بنی تو کہا گیا کہ ڈیم بنانا عدالتوں کا کام نہیں یہ حکومتوں کا کام ہے۔ جب حکومت بھی عدالت کی پشت پر آگئی تو نیا اعتراض ڈھونڈا جانے لگا، اتنے میں کہیں چیف جسٹس نے یہ کہہ دیا کہ قومی یک جہتی کے ساتھ کالا باغ ڈیم بھی بنے گا تو جن عناصر نے کالا باغ ڈیم پر ادھار کھا رکھا ہے ان کی گز گز بھر کی زبانیں باہر آگئیں اور کالا باغ ڈیم کا سیاپا شروع ہوگیا۔ سیاپا کرنے والوں میں پیپلز پارٹی پیش پیش ہے۔ اس نے سندھ اسمبلی میں قرار داد بھی پیش کردی ہے جب کہ خیبرپختونخوا اسمبلی میں کالا باغ ڈیم کی دیرینہ مخالف اے این پی نے بھی قرار داد پیش کرکے اپنا نمبر ٹانک دیا ہے۔ حالاں کہ چیف جسٹس نے کالا باغ ڈیم بنانے کی بات نہیں کی بلکہ اس مسئلے پر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے پر اصرار کیا ہے اور عدالت عظمیٰ نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے متعلق آئینی پٹیشن پر فیصلہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ صوبے کالا باغ ڈیم پر اپنے اختلافات ختم کریں اور مخالفین کے خدشات دور کیے جائیں جو سراسر غلط فہمی پر مبنی ہیں۔ فیصلے میں دیامر اور بھاشا ڈیمز پر فوری کام شروع کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ دیامر اور بھاشا ڈیم بن گئے تو بھی کالا باغ ڈیم کی ضرورت باقی رہے گی اور اس کے مخالفین کو بالآخر خاک چاٹنا پڑے گا۔